مسجد حرام کے امام و خطیب فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر ماہر المعیقلی حفظہ اللہ
جمۃ المبارک 28 جمادی الاخرہ 1439 ھ بمطابق 16 مارچ 2018
ترجمہ: محمد عاطف الیاس
منتخب اقتباس:
الحمداللہ! ہر طرح کی حمد و ثنا اللہ ہی کے لئے ہے۔ وہ معاف کرنے والا اور بہت عزت والا ہے۔ وہی دن کے بعد رات اور رات کے بعد دن لاتا ہے۔ اسی کا فرمان ہے:
’’اُسی نے رات کو سکون کا وقت بنایا ہے اُسی نے چاند اور سورج کے طلوع و غروب کا حساب مقرر کیا ہے یہ سب اُسی زبردست قدرت اور علم رکھنے والے کے ٹھیرائے ہوئے اندازے ہیں۔‘ (سورۃ الانعام: 96)
اے امت اسلام!
انسان زندگی کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے۔ پہلے بچپن کی کمزوری دیکھتا ہے جس میں وہ انتہائی بے بس ہوتا ہے۔ پھر وہ نوجوانی کی عمر کو پہنچتا ہے اور پھر چند ہی سال گزرتے ہیں کہ اسے پھر دوبارہ کمزوری دیکھنا پڑتی ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
’’اللہ ہی تو ہے جس نے ضعف کی حالت میں تمہاری پیدائش کی ابتدا کی، پھر اس ضعف کے بعد تمہیں قوت بخشی، پھر اس قوت کے بعد تمہیں ضعیف اور بوڑھا کر دیا وہ جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ سب کچھ جاننے والا، ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘ (سورۃ الروم: 54)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کمزور لوگوں کے ساتھ اچھا تعامل کرنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ چاہے وہ کمزور لوگ چھوٹے ہوں یا بڑے، بچے ہوں یا بوڑھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی ان لوگوں کے ساتھ اچھا تعامل کرتے تھے اور لوگوں کو بھی ان کے ساتھ بھلے طریقے سے پیش آنے کی تلقین کرتے تھے۔
سنن ترمذی میں صحیح سند کے ساتھ سیدنا ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اپنے کمزور لوگوں میں تلاش کرو! آپ کو رزق اور نصرت کمزور لوگوں کی وجہ سے ہی ملتی ہے۔
یعنی اگر میری محبت چاہتے ہو اور میری قربت کے خواہشمند ہو تو کمزور لوگوں کا خیال رکھو، ان کے احوال جانتے رہو اور ان کے حقوق محفوظ رکھو، ان کے ٹوٹتے دل جوڑتے رہو اور ان کے ساتھ قول و عمل میں اچھا معاملہ کرو۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کی ایک مثال یہ ہے کہ آپ بچوں کے ساتھ بڑی نرمی سے پیش آتے تھے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کسی شخص کو بچوں کے ساتھ نرمی کرنے والا نہیں پایا۔
اسی طرح صحیح بخاری کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے کہا جو اپنے بچوں کو چومتا نہیں تھا کہ: اگر اللہ تعالی نے تیرے دل سے رحمت نکال ہی دی ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے ساتھ تعامل کرتے ہوئے ان کے بچپنے کا خیال رکھتے تھے اور جانتے تھے کہ انہیں کھیل کود کی ضرورت ہے۔ چنانچہ وہ ان کو سکھاتے مگر جھڑکتے نہیں تھے، انہیں یاد دہانی کراتے مگر سختی نہ کرتے
اے امت اسلام!
جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوٹے بچوں کے ساتھ رحمت والا معاملہ کرنے کی تلقین کی ہے اسی طرح اپنے بڑوں کا احترام کرنے اور ان کے ساتھ بھی نرمی والا معاملہ کرنے کا حکم دیا ہے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ ہو تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بوڑھا آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرتا ہوا آیا تو مجلس میں بیٹھے لوگوں نے اس بوڑھے آدمی کے لیے جگہ بنانے میں تھوڑی تاخیر کردی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو ہمارے چھوٹے پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے بڑے اس کی عزت نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘
اسے امام ترمذی نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔
یعنی جو ہمارے چھوٹے پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں کی قدر اور عزت نہیں کرتا اور ان کے بڑھاپے کا خیال کرتے ہوئے اور اسلام میں گزری ان کی عمر کو دیکھتے ہوئے انہیں آگے نہیں کرتا وہ ہمارے طریقے پر نہیں ہے۔
اے مسلمان معاشرے کے لوگو!
بھلا ہم عمر رسیدہ لوگوں کی عزت کیسے نہ کریں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہیں کہ
’’بزرگ مسلمان کی عزت اللہ تبارک وتعالیٰ کے اجلال کا حصہ ہے۔‘‘
اسے امام ابوداؤد نے حسن درجہ کی سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔
ہم اپنے بڑوں کی عزت کیوں نہ کریں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
آپ کے بڑوں کی وجہ سے ہی آپ کو برکت ملتی ہے۔ اسے ابن حبان نے اپنی کتاب صحیح ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
تو اے خیر اور برکت کے متلاشیو! بڑوں کے ساتھ اچھا معاملہ کرکے برکت حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ کیوںکہ ایسا کرنے سے انسان نیکی اور احسان بھی کرتا ہے اور اسے اچھا مشورہ بھی ملتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ نیک لوگوں کی صحبت بھی نصیب ہوتی ہے۔
اے ہمارے بزرگو!
اللہ آپ کی کمزوری پر رحم فرمائے! آپ کی مشکلات آسان کرے! آپ کی نیکیوں کو بڑھائے۔ آپ نے بہت محنت کی ہے، ہمیں بہت کچھ سکھایا ہے، ہماری تربیت کی ہے اور ہمیں تعلیم دی ہے۔ اگر اس دنیا میں آپ کی محنت کو بھلا دیا گیا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اسے کبھی نہ بھولے گا۔ اگر لوگ آپکی نیکی کا بدلہ نہیں دیتے تو یاد رکھیے کہ نیکی کبھی ضائع نہیں ہوتی۔ سب نے اللہ کی طرف لوٹنا ہے اور اللہ کے پاس بہترین جزا ہے۔
جزا بھی ویسی ہی ہوتی ہے جیسا عمل ہو۔ جو بڑوں کی عزت کرتا ہے اللہ تعالی اسے لمبی زندگی نصیب فرما تا ہے اور اسے ایسے لوگوں کی صحبت نصیب فرماتا ہے جو بڑھاپے میں اس کی عزت کریں۔
اللہ کے بندو!
بڑوں کے حقوق یہ ہیں کہ ان کا اکرام کیا جائے، ان کی عزت کی جائے، انہیں اپنی مجلسوں میں موزوں ترین جگہ پر بٹھا کر ان سے مجلسیں سجائی جائیں، انہیں بیٹھنے کے لئے بہترین جگہ دی جائے، انہیں ان ناموں سے پکارا جائے جو انھیں سب سے زیادہ پسند ہوں، ان سے ملتے وقت مسکرا کر ملا جائے، ان کی غلطیوں سے درگزر کیا جائے اور ان کی بھلائیوں کا ذکر کیا جائے۔ بزرگوں کو ماضی کے کارناموں کے ذکر اور تعریف کی بڑی ضرورت ہوتی ہے۔
اے مسلمان معاشرے کے لوگو! اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان کی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ وہ تھکاوٹ اور مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے جسم کو کمزوری لاحق ہوجاتی ہے اور اس وجہ سے اس کے صبر میں کمی اور زبان میں تیزی آجاتی ہیں۔ اس سب کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ بڑا ہی اچھا معاملہ کرتے تھے، ان کا دل لگائے رکھتے تھے اور ان کے ساتھ بڑی حکمت سے چلتے تھے۔
اللہ کے بندو! بزرگوں کا خیال کرنا اور ان کے کام آنا ایک بہترین عبادت ہے، مصیبتیں دور کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ بالخصوص جبکہ وہ بزرگ ہمارے اپنے والدین ہوں۔ ان کا خیال رکھنے سے بہت سی مشکلات بھی آسان ہو جاتی ہیں۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں وہ حدیث آئی ہے کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تین لوگوں کے متعلق بتایا کہ جو سفر میں بارش سے بچنے کے لیے کسی غار میں گھس گئے اور ایک بڑے پتھر نے غار کا منہ بند کر دیا۔ پھر تینوں نے اپنے اپنے نیک اعمال کا ذکر کرکے اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعائیں مانگیں۔ ان تینوں میں سے ایک نے اپنا نیک عمل یہ ذکر کیا تھا کہ وہ اپنے بوڑھے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرتا تھا۔ یہ عمل اس غار سے ان کی نجات کا باعث بن گیا۔
بوڑھے والدین کے کام کرنا اور ان کا خیال رکھنا تو جہاد فی سبیل اللہ کی ایک قسم ہے۔
فرمان الہی ہے:
’’تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ: تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو، مگر صرف اُس کی والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو اگر تمہارے پاس اُن میں سے کوئی ایک، یا دونوں، بوڑھے ہو کر رہیں تو انہیں اف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو، بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو۔ اور نرمی و رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو، اور دعا کیا کرو کہ پروردگار! ان پر رحم فرما جس طرح اِنہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا۔‘‘(سورۃ الاسراء: 23۔ 24)
بعد ازاں! اے مسلمان معاشرے کے لوگو!
طویل زندگی اللہ تبارک و تعالیٰ کی ایک نعمت ہے جو اپنے بندوں میں سے چنیدہ لوگوں کو عطا فرماتا ہے۔ تو اللہ کے بندو! اس نعمت کو ان کاموں میں استعمال کرو کہ جو آپ کا عزت بنائیں اور آپکے رب کو راضی کریں۔ گزشتہ عمر میں جو کوتاہیاں ہوئیں ہیں اس کا کفارہ ادا کرتے ہوئے آخرت کی تیاری کرو کیونکہ اس عمر کا باقی حصہ شاید گزشتہ حصے سے سے زیادہ نہ ہو گا۔
اپنی زندگی کے آخری ایام کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی اطاعت پر لگائیں، کیونکہ اعمال کا دارومدار ان کے آخری حصے پر ہے۔ جو کسی کام کو کرتے ہوئے زندگی گزار دیتا ہے وہ اسی کام کو کرتے ہوئے مرتا ہے اور جو کوئی کام کرتے ہوئے مرتا ہے وہ اسی کام کو کرتے ہوئے پھر اٹھایا جاتا ہے۔ انسان اپنی لمبی زندگی کی وجہ سے مجاہد فی سبیل اللہ سے بھی بڑا اجر پا سکتا ہے۔
وہ شخص مبارکباد کا مستحق ہے کہ جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے طویل عمر دی ہو اور اس نے نیک اعمال میں اپنی زندگی گزاری ہو اور اس شخص کی بدبختی کے متعلق کیا کہا جا سکتا ہے کہ جسے اللہ تبارک و تعالی نے طویل عمر، کشادہ رزق اور تندرستی دی ہو مگر وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کو راضی کرنے والے اعمال نہ کرتا ہو۔
ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اللہ کے رسول! کونسا شخص بھلا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کی عمر طویل اور عمل نیک ہو۔ دریافت کیا گیا کونسا شخص برا ہے؟ آپ نے فرمایا: جس کی عمر طویل ہو اور عمل برا ہو۔‘‘ اسے امام ترمذی نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔
ہم اللہ تبارک و تعالیٰ سے اس کے فضل و کرم اور احسان کے واسطے سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں طویل زندگی عطا فرمائے اور نیک عمل کی توفیق عطا فرمائے! یقینًا! وہ دعا سننے والا اور مراد پوری کرنے والا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں