خطبہ صلاۃ الخسوف ۔۔۔ مسجد الحرام ۔۔۔ 13 ذوالقعدہ 1440هـ / 16 جولائی 2019)

ویڈیو بشکریہ: حرمین فیس بک گروپ

Image may contain: night and sky

خطبہ صلاۃ الخسوف ۔۔۔ مسجد الحرام ۔۔۔ 
 13 ذوالقعدہ 1440هـ / 16 جولائی 2019)
امام وخطیب: فضیلۃ الشیخ عبداللہ بن عواد الجھنی
ترجمہ: فرہاد احمد سالم

فضیلۃ الشیخ عبداللہ بن عواد الجھنی(حفظہ اللہ تعالیٰ) نے 13 ذوالقعدہ1440 کو مسجد حرام میں صلاۃ الخسوف پڑھائی اور خطبہ ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ سورج اور چاند اللہ تبارک و تعالی کی عظیم نشانیوں میں سے دو بڑی نشانیاں ہیں ، جو اللہ تعالی کی کامل بادشاہی اور عظیم تدبیر پر دلالت کرتی ہیں ، زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا اعتقاد تھا کہ سورج اور چاند گرہن مشاہیر کی ولادت یا وفات کے سبب ہوتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک دفعہ سورج کو گرہن لگا اور یہ اس دن تھا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم کی وفات ہوئی ، چنانچہ بعض لوگوں نے گرہن کا تعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے کی وفات سے جوڑا۔ پس جب سورج کو گرہن لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کی طرف تشریف لائے نماز پڑھائی اور خطبہ دیا ، اور ارشاد فرمایا: سورج اور چاند اللہ کی آیات میں سے دو نشانیاں ہیں یہ دونوں کسی کی موت کی وجہ سے بےنور نہیں ہوتے جب تم انہیں گرہن لگا دیکھو تو نماز پڑھو اور دعا کرو یہاں تک کہ تمہارے ہاں سے تاریکی دور ہو جائے، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے سے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے ڈر ہے کہ جب اسے (سورج) گرہن لگ جائے تو اس کا نور واپس نہ لوٹے اور قیامت قائم ہو جائے ، کیونکہ قیامت کے قائم ہونے کا وقت اللہ کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں ۔ صلاۃ خسوف اور کسوف عظیم عبادت ہے جو دلوں کو نرم کرتیں، بندوں کو ڈراتیں اور ان کو اللہ کے قریب کرتی ہیں ، اور یہ اللہ تعالی کی کونی سنتوں میں سے ہیں جسے اللہ نے بندوں کو گناہوں سے ڈراتے ہو مقرر کیا تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں اور توبہ کریں ۔



یقیناً تمام تعریفات اللہ کے لئے ہیں ہم اسی کی حمد خوانی کرتے ہیں اور اسی سے مدد مانگتے ہیں ،ہم اپنے گناہوں کی بخشش بھی اسی سے چاہتے ہیں ، اپنے نفس اور برے اعمال کے شر سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں ،جسے اللہ ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی رہنمائی کرنے والا نہیں بن سکتا ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبود بر حق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ۔میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں ۔
{ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ} [آل عمران: 102]
 اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو، جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تم ہرگز نہ مرو، مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔
{يَاأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا} [النساء: 1] 
اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کر کے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتے ناتے توڑنے سے بھی بچو بیشک اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے۔

{ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (70) يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا } [الأحزاب: 70، 71]
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ سے ڈرو اور بالکل سیدھی بات کہو۔ (اس طرح) اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو درست کر دے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا۔ اور جس شخص نے اللہ اور اس کے رسول کا کہا مان لیا اس نے بڑی کامیابی حاصل کر لی۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
بےشک سب سے سچی بات اللہ کی کتاب ہے ،اور بہترین طریقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، بدترین کام دین میں ایجاد کردہ نئے کام ہیں نیز دین میں ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جائے گی۔
میں خود کو اور آپ سب کو ظاہر اور باطن میں نیز خفیہ اور اعلانیہ اللہ کے تقوی کی وصیت کرتا ہوں ۔

تقوی الہی سے رحمتیں حاصل ہوتیں اور مصائب و مشکلات دور ہوتے ہیں اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَكِنْ كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ} [الأعراف: 96] 
اور اگر یہ بستیوں والے ایمان لاتے اور اللہ کی نافرمانی سے بچتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات (کے دروازے) کھول دیتے۔ لیکن انہوں نے تو جھٹلایا۔ پھر ہم نے انہیں ان کی کرتوتوں کی پاداش میں دھر لیا ۔

اور اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى وَاتَّقُونِ يَاأُولِي الْأَلْبَابِ} [البقرة: 197]
 اور زاد راہ لے لو کہ بے شک زاد راہ کی سب سے بہتر خوبی (سوال سے) بچنا ہے اور مجھ سے ڈرو اے عقلوں والو!

بندے اور عذاب الہی کے درمیان سب سے بڑی ڈھال ، اللہ کے احکام کو ماننا اور اس کی منع کردہ چیزوں سے رکنا ہے اور یہ ہی تقوی ہے ، چنانچہ تقوی بندوں اور آگ کے درمیان ڈھال ہے ۔

قرآن سے ہدایت ، اور وعظ و نصیحت سے نفع تقوی کے ذریعے ہی حاصل ہوتا ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
 {هَذَا بَيَانٌ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةٌ لِلْمُتَّقِينَ} [آل عمران: 138]
 یہ لوگوں کے لیے ایک وضاحت ہے اور پرہیزگاروں کے لیے سراسر ہدایت اور نصیحت ہے۔

تقوی عذاب الہی اور اس کی پکڑ سے محفوظ رکھنے کا سبب بھی ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ} [البقرة: 196]
 اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ بے شک اللہ بہت سخت عذاب والا ہے۔

تقوی دشمن سے بھی بچاؤ کا ذریعہ بھی ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا} [آل عمران: 120] 
اور اگر تم صبر کرو اور ڈرتے رہو تو ان کی خفیہ تدبیر تمھیں کچھ نقصان نہیں پہنچائے گی۔

تقوی سے گناہ مٹتے اور جنت کا داخلہ ملتا ہے ۔اللہ تعالی کا فرمان ہے : 
{وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَكِنْ كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ} [الأعراف: 96]
 اور اگر یہ بستیوں والے ایمان لاتے اور اللہ کی نافرمانی سے بچتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات (کے دروازے) کھول دیتے۔ لیکن انہوں نے تو جھٹلایا۔ پھر ہم نے انہیں ان کی کرتوتوں کی پاداش میں دھر لیا ۔

تقوی شیطان کے مکر ، وساوس، حیلوں اور چالوں سے نجات کا ذریعہ بھی ہے ، جو شیطان کی چالوں سے بچ گیا اس کے لئے حق واضح ہو گیا ، نیز اس کو دنیا کی سعادت اور آخرت کی کامیابی بھی ملے گی۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
 { إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُمْ مُبْصِرُونَ} [الأعراف: 201] 
یقینا جو لوگ ڈر گئے، جب انہیں شیطان کی طرف سے کوئی (برا) خیال چھوتا ہے وہ ہشیار ہو جاتے ہیں، پھر اچانک وہ بصیرت والے ہوتے ہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند سے ثابت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
 جہاں بھی رہو اللہ سے ڈرو، برائی کے بعد (جوتم سے ہو جائے) بھلائی کرو جو برائی کو مٹا دے اور لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آؤ۔

مسلمانو! بےشک سورج اور چاند اللہ تبارک و تعالی کی عظیم نشانیوں میں سے دو بڑی نشانیاں ہیں ، جو اللہ تعالی کی کامل بادشاہی اور عظیم تدبیر پر دلالت کرتی ہیں ۔ پورے جہاں میں ایسی عظیم نشانیاں اور غور و فکر کرنے کی چیزیں ہیں ، اور ان سب کی حرکات و سکنات اللہ تعالی کی تقدیر و تدبیر سے ہی ہیں۔ 
اللہ تعالی نے فرمایا:
{ ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ } [الأنعام: 96]
 اور یہ سب کچھ اس زبردست قوت والے اور سب کچھ جاننے والے کے اندازہ کے مطابق ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں چاند کو ایک دفعہ گرہن لگا ، زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا یہ اعتقاد تھا کہ سورج اور چاند گرہن مشاہیر کی ولادت یا وفات سے ہوتا ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں سورج گرہن اس دن ہوا جس دن آپ کا بیٹا ابراہیم فوت ہو ا، چنانچہ بعض لوگوں نے گرہن کا تعلق ان کی وفات سے ملا یا۔
پس جب سورج کو گرہن لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کی طرف آئے اس لئے کہ گرہن اللہ تعالی کی ایک ڈرانے والی نشانی ہے ، اللہ کے اس قول کے مطابق : 
{وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا} [الإسراء: 59]
 ہم تو لوگوں کو دھمکانے کے لئے ہی نشانی بھیجتے ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
سورج اور چاند اللہ کی آیات میں سے دو نشانیاں ہیں یہ دونوں کسی کی موت کی وجہ سے بےنور نہیں ہوتے جب تم انہیں گرہن لگا دیکھو تو نماز پڑھو اور دعا کرو یہاں تک کہ تمہارے ہاں سے تاریکی دور ہو جائے، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے سے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے ڈر ہے کہ جب اسے (سورج) گرہن لگ جائے تو اس کا نور واپس نہ لوٹے اور قیامت قائم ہو جائے ، کیونکہ قیامت کے قائم ہونے کا وقت اللہ کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں ۔

اللہ کے بندو! صلاۃ خسوف اور کسوف عظیم عبادت ہے جو دلوں کو نرم کرتیں، بندوں کو ڈراتیں اور ان کو اللہ کے قریب کرتی ہیں ، اور یہ اللہ تعالی کی کونی سنتوں میں سے ہیں جسے اللہ نے بندوں کو گناہوں سے ڈراتے ہو مقرر کیا تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں اور توبہ کریں ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ} [الروم: 41]
 خشکی اور سمندر میں فساد ظاہر ہو گیا، اس کی وجہ سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمایا، تاکہ وہ انہیں اس کا کچھ مزہ چکھائے جو انہوں نے کیا ہے، تاکہ وہ باز آ جائیں۔

ہم اللہ تعالی سے اس کے ناموں اور صفات سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمارے سارے گناہوں کو چھوٹے اور بڑے ، اگلے اور پچھلے مخفی اور ظاہر تمام گناہوں کو معاف فرمائے۔

یا اللہ! ہمیں ان لوگوں میں شامل فرما جو تیری نشانیوں سے عبرت حاصل کرتے اور غور و فکر کرتے ہیں اور ہمیں غافلوں میں سے نہ کر ۔یا حیی یا قیوم! یا ذالجلال و الاکرام !

یا اللہ تو ہمارے ساتھ وہ سلوک نہ کرنا جس کے ہم مستحق ہیں بلکہ اپنی شان کے مطابق اچھا معاملہ فرمانا تو ہی تقوی اور مغفرت کا اہل ہے ۔

یا اللہ ! ہم میں سے بےوقوف لوگوں کے کئےہوئے کاموں کی وجہ سے ہماری پکڑ نہ کرنا یہ تو تیری ایک آزمائش تھی جس سے تو جسے چاہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہے سیدھی راہ دکھا دیتا ہے تو ہی ہمارا سرپرست ہے۔ لہذا ہمیں معاف فرما اور ہم پر رحم فرما اور تو ہی سب سے بڑھ کر معاف کرنے والا ہے۔

یا اللہ! ہم تجھ سے نعمتوں کے زوال، عافیت کے پھرنے ، تیرے غصے اور تمام ناراضگیوں سے پناہ مانگتے ہیں ۔یا ذالجلال و الاکرام!

یا اللہ ! ہمیں ہمارے ملکوں میں امن سے اور ہمارے آئمہ اور ولی الامر کی اصلاح فرما، اور ہمارے امام اور ولی الامر خادم الحرمین الشریفین کی حق کے ساتھ مدد فرما ۔

یا اللہ ! ان کو ہدایت کی توفیق دے اور ان کے عمل کو اپنی رضا والا بنا۔ 

یا اللہ ! ان کو اور ان کے نائب کو مسلمانوں کی خیر خواہی کی توفیق عطا فرما ۔

پاک ہے ہمارا رب جو بہت بڑی عزت والا ہے ہر اس چیز سے (جو مشرک) بیان کرتے ہیں پیغمبروں پر سلام ہے، اور سب طرح کی تعریف اللہ کے لئے ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں