کچھ لوگ مثال ابر رواں،
کچھ اونچے درختوں کا سایہ
کچھ لوگ چراغوں کی صورت،
راہوں میں اجالا کرتے ہیں
کچھ لوگ اندھیروں کی کالک،
چہرے پر اچھالا کرتے ہیں
کچھ لوگ سفر میں ملتے ہیں،
دو گام چلے اور رستے الگ
کچھ لوگ نبھاتے ہیں ایسا،
ہوتے ہی نہیں دھڑکن سے الگ
کیا حال سنائیں اپنا تمہیں،
کیا بات بتائیں جیون کی
اک آنکھ ہماری ہستی ہے،
اک آنکھ میں رت ہے ساون کی
ہم کس کی کہانی کا حصہ،
ہم کس کی دعا میں شامل ہیں
ہے کون جو رستہ تکتا ہے،
ہم کس کی وفا کا حاصل ہیں
کس کس کا پکڑ کر دامن ہم،
اپنی ہی نشانی کو پوچھیں
ہم کھو گئے کن راہوں میں
اس بات کو صاحب جانے دیں
کچھ درد سنبھالے سینے میں،
کچھ خواب لٹائے ہیں ہم نے
اک عمر گنوائی ہے اپنی،
کچھ لوگ کمائے ہیں ہم نے
دل خرچ کیا ہے لوگوں پر،
جان کھوئی ہے غم پایا ہے
اپنا تو یہی سرمایہ ہے
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں