محب رب (افسانہ) ۔۔۔ حصہ چہارم

Image may contain: text

محب رب (افسانہ)
حصہ چہارم
تحریر: سمیرا حمید


سب کی نظریں بار بار نوجوان تاجر کی طرح اٹھتی جاتی تھیں۔ و ہ پسینہ پسینہ ہو رہا تھا۔ بار بار اپنی اپنی پیشانی مسل رہا تھا۔ اس کی گھبراہٹ کچھ ایسی دل دہلا دینے والی تھی کہ اسے دیکھ کر یقین ہوتا تھا کہ اس کی دال ضروری پوری ہی کالی ہے۔

آئینہ شہر کے حکیم کے سامنے آیا۔ حکیم چاہتا بھی تو اب انکار نہیں کر سکتا تھا۔ شہر کے لوگوں کی آنکھیں پوری طرح سے اپنا رنگ بدل چکی تھیں۔ اب وہ پیچھے ہٹتا تو لوگ اسے اس سے کہیں زیادہ گناہ گار مانتے جتنا وہ ہوتا۔

”پھر میں نے کیا ہی کیا ہے۔۔۔۔۔۔ ”حکیم نے اطمینان بھری سانس لی۔” نہ میں خدا بنا رہا اور نہ میں نے لوگوں کو رب کے قہر سے ڈرایا ۔ میں نے تو لوگوں کو ان کی بیماریوں میں راحت دی ۔ ان کی تکلیفیں کم کییں۔انہیں شفاء دی۔”

حکیم صاحب نے آئینے میں خود کو دیکھا پھر اس کا رخ سب کی طرح گھما دیا۔

میں حکیم عقیل بن شیراز ہوں۔ اس شہر کا شاید ہی کوئی ایک ایسا انسان ہوگا جو مجھے نہیں جانتا ہوگا۔ کیا بادشاہ کیا فقیر، کیا مسافر کیا پردیسی میرے ہاتھ سے جس نے شفاء نہیں پائی ہو گی۔ میں نے کچھ ایسی جڑیاں بوٹیاں دریافت کی ہیں کہ مجھ سے پہلے شاید ہی کوئی ان جڑی بوٹیوں اور ان کے خواص سے واقف رہا ہو۔ میں نے ان سے حکمت کا عرق نچوڑ لیا ہے۔ دور دیس میں ایک وباء پھوٹ نکلی تھی، لوگوں کی آنکھیں پھول جاتی تھیں، ان سے خون رسنے لگتا تھا، اور وہ اندھے ہو جاتے تھے۔ میری بنائی دوا وہاں معجزے کے نام سے مشہور ہو گئی تھی۔ انعام کے طور پر مجھے لوگوں نے کیا کچھ نہیں دیا۔ کن کن اعزازوں سے نہیں نوازا۔ میں نے حکمت کا کوئی ایسا در نہیں چھوڑا جس کی دہلیز کو پار نہ کیا ہو۔ کوئی ایسی بیماری نہیں جس کا میں علاج نہ کر سکتا ہوں۔ کوئی ایسی بیمار نہیں تھاجو میرا ہاتھ لگنے سے شفایا ب نہ ہوا ہو۔۔۔۔۔۔”

میں یہ ۔۔۔۔۔۔ میں وہ ۔۔۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔۔

ایک بیمار کے علاج کے لیے میں شہر سے باہر گیا تھا۔ واپسی پررات ہو گئی۔ ایک غریب کی جھونپڑی میں رات گزارنی پڑی۔ وہ ایک آنکھ سے اندھا، ایک کان سے بہرا، ایک ہاتھ، ایک پیر سے مفلوج تھا۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ اس کی بیماری پیدائشی ہے یا وہ کسی وباء کا شکار ہوا ہے میں نے اسے ہاتھ لگایا تو اس نے میرا ہاتھ جھٹک کر پرے کر دیا ۔

”میں تمہیں ٹھیک کر سکتا ہوں۔ فکر نہ کرو۔” مجھے اس کا ہاتھ جھٹکنا برا تو لگا لیکن میں ضبط کر گیا۔

”تم؟؟” اس نے دانت پیسے۔ ”ہونہہ۔۔۔۔۔۔مجھے ہاتھ نہ لگانا۔ رات گزارو اور صبح ہوتے ہی نکل جانا۔”

”وہ تو ٹھیک ہے لیکن میں تمہیں۔۔۔۔۔۔”اس کی نخوت نے میرے خون کو جوار پھاٹا بنا دیا تھا۔

جس میں”میں۔۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔۔میں ”ہو وہ خود کو ٹھیک نہیں کر سکتا، مجھے کیا کرے گا۔”

”کیسی میں؟”

”میں”بیماروں کو ٹھیک کرتا ہوں۔ میں دوا بناتاہوں۔ میں جڑی بوٹیاں کھوج نکالتا ہوں۔ میں شفاء دیتا ہوں ۔۔۔۔۔۔میں ۔۔۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔۔”نفرت سے اس کے ہونٹ سکڑ گئے۔

”میں یہ سب کرتا ہوں تو ”میں” کہتا ہوں۔”

”تو پھر خدا کیا کرتا ہے۔۔۔۔۔۔؟؟”

”خدا بیماروں کے علاج کے لیے زمین پر نہیں آتا۔”

”وہ آئے گا کیوں؟ جب وہ یہیں موجود ہے۔ آتا تو وہ ہے جو جات اہے ۔۔۔۔۔۔جو ہمیشہ موجود ہے، وہ غیر موجود کیسے ہو گا؟

”وہ خود تو آکرعلاج نہیں کرتا نا میرے بھائی۔۔۔۔۔۔”

”وہی علاج کرتا ہے۔۔۔۔۔۔وہی شفاء دیتا ہے۔۔۔۔۔۔”

”اللہ نے ہی کہا ہے کہ دعا اور دوا کرو۔ دوا بنی تو حکمت بنی اور مجھ جیسا ناچیز حکیم۔۔۔۔۔۔”

دوا بنی، حکمت اور حکیم بھی۔۔۔۔۔۔لیکن تکبر کیسے بنا؟؟

مجھے اس ایک آنکھ کے اندھے سے بہت بے زاری ہوئی۔”ہاں میرے بھائی! میں جانتا ہوں کہ بے شک اللہ ہی سب کو شفاء دینے والا ہے۔ ہم سب تو بس ذریعہ ہیں۔”

”تم خود کو ذریعہ نہیں سمجھتے۔۔۔۔۔۔ کل سمجھتے ہو۔۔۔۔۔۔ اگر تم ایسے ہی کامل ہو تو بتاؤ تکبر کا کیا علاج ہے؟”

میں تمسخر سے ہنس دیا۔ ”اس کا تو پتا نہیں لیکن پاگل پن کا علاج ہے۔۔۔۔۔۔شہر پہنچتے ہی تمہیں دوا بھجواتا ہوں۔”

میں نے اس پاگل کو دوا تو نہیں بھجوائی لیکن اپنی وہ دوائیاں جن کی شہرت چار عالم میں تھیں بنانے میں مصروف رہا ۔ میں بیماروں کو یہ دوا دیتا جاتا اور عاجزی سے کہتا جاتا ۔۔۔۔۔۔”بے شک اللہ ہی سب کو شفاء دینے والا ہے۔”

لیکن میں تو یہ مانتا تھا کہ یہ میں ہوں جو اتنا لائق فائق ہوں۔ یہ میں ہوں کہ حکمت نے اپنے سارے راز مجھ پر کھول دیے ہیں۔ کون ہے جو میری طرح بیمار کو ہاتھ لگائے اور وہ اٹھ کر کھڑا ہو جائے۔ کون ہے جو قر ب المرگ کو زندگی کی سانس دے دے۔ کون ہے جو کئی ملکوں اور شہروں کو وبائی امراض سے چھٹکا ا دلاچکا ہو۔  یہ میں ہوں کہ جنگل جنگل گھومتا ہوں اور جڑیاں بوٹیاں اکھٹی کرتا ہوں۔  لوگ میری تعریف میں رطب اللسان ہوتے تھے۔ شاعر میرے شان میں قصیدے لکھتے تھے۔ وزیر، مشیر، بادشاہ مجھے انعام و اکرام دیتے تھے۔ میرے کئی با عزت نام تھے۔

”بے شک اللہ ہی ہے۔۔۔۔۔۔”

میری زبان سے عجز و انکسار کے اظہار کی کوئی حد نہیں تھی ۔میں نے قرآن کی آیات یاد کر لی تھیں۔ علاج کے دوران میں دکھاوے کے لیے ان کا ورد بھی کرتا جاتا تھا تاکہ لوگوں پر میری بزرگی کا رعب پڑے۔ میں نے دیکھا کہ لوگوں نے میری بزرگی سے متاثر ہو نا شروع کر دیا ہے تو میں نے اپنا لباس بدل لیا۔ میں ایک درویش ایک برگزیدہ بندہ بن گیا، جس کے ہاتھ میں اللہ نے خاص شفاء دی ہے۔ جو جس بیمار کو ہاتھ لگاتا ہے وہ صحت یاب ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔

”پہلے تو تم صرف متکبر تھے اب منافق بھی ہو گئے ہو۔ یاد رکھنا اللہ نے جن لوگوں پر لعنت بھیجی ہے ان میں سے ایک منافق بھی ہے۔”

”کیسی منافقت؟”

”تم زبان سے عجز و انکسار ظاہر کرتے ہو، اصل میں تم متکبر ہو۔ تمہارے غرور کے ہزاروں فرشتے گواہ بن چکے ہیں۔ کئی درویش اور صوفی۔ بزرگ اور مجذوب تمہارے غرور کی حدت سے پناہ مانگتے ہیں۔ رائی کے دانے کے برابر جس میں غرور ہو گا وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا(الحدیث)۔ تم نے تو اپنی زات میں غرور کے پہاڑ اکھٹے کر لیے ہیں۔ حکیم ہو، یہ نہیں جانتے کہ اس کا علاج کیا ہے۔ توبہ ہے اس کا علاج۔ اللہ کی پناہ مانگو۔۔۔۔۔۔”

”مجھ جیسے مشہور اور باعزت انسان پر لوگ کیچڑ اچھالتے ہی رہتے ہیں۔ میرا عاجزی میں تمہیں غرور دکھائی دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے میرے بھائی کہ میں تو اللہ سے ڈرنے والا بندہ ہوں۔ میں اور میری اوقات ہی کیا ہے جو غرور کروں۔ نہ جانے تم مجھ سے بد گمان کیوں ہو۔ مجھے تو اپنی ذات میں ایسا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔”

”وہ تمہیں دکھائی بھی نہیں دے گا۔ کیونکہ جو غرور کرتا ہے، اس کی سب پہلے اندر کی آنکھ ہی بند ہوتی ہے۔ پھر اندر کی آواز۔ پھر آسمانی الہام۔ ۔۔۔۔۔پھر عقل سلب ہوتی ہے۔ پھر دل پر مہر لگتی ہے۔۔۔۔۔ ۔پھر توبہ کا وقت بھی نکل جاتاہے۔۔۔۔۔۔

”میں نے کبھی کسی کے ساتھ کچھ برا نہیں کیا، نہ ہی کسی کا برا چاہا ہے۔ پھر تمہارا میرے ساتھ ایسا رویہ غیر مناسب ہے۔”

”تم ا پنے ساتھ برا کر رہے ہو کیا یہ برا نہیں؟ تم وہ گناہ کر رہے ہو جو گناہوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے۔”

”اگر ایسا ہی ہوتا تو اللہ میرے ہاتھ سے شفاء چھین لیتا۔ کوئی بیمار مجھ سے شفایاب نہ ہوتا۔ میں ذلیل و خوار ہوتا۔”

”تم اس حد سے بھی آگے نکل چکے ہو جہاں دراز رسی کھینچ کر متوجہ کیا جاتاہے۔ تم ہدایت کی وہ سرحد بھی پار کر چکے ہو۔ اب بس توبہ کا دروازہ بچا ہے۔۔۔۔۔۔ اس کے بند ہونے سے پہلے ، اس میں داخل ہو جاؤ۔۔۔۔۔۔ اللہ کی پناہ مانگ لو۔۔۔۔۔۔ شیطان خود جس گناہ کا مرتکب ہوا اس نے تمہیں بھی اسی گناہ میں شریک کر لیا۔۔۔۔۔۔”

”یہ کیا بات ہوئی۔۔۔۔۔۔کیسی حد۔۔۔۔۔۔؟”

”تم مانتے ہی نہیں کہ تم تکبر کر رہے ہو۔۔۔۔۔۔تو اب بھلا بتاؤ یہ حد کیا ہوئی؟”

”میں نے ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کیاہے میرے بھائی۔ میں کیا میری اوقات کیا۔نا معلوم تم کہنا کیا چاہتے ہو۔”

”اچھا تو پھر سنو۔۔۔۔۔۔انسانوں میں ایک تکبر کرنے والا ایسا بد نصیب انسان ہوتا ہے جسے یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ متکبر ہو چکا ہے۔ تکبر ایک چھپا ہوا گناہ ہے۔ یہ کئی بہانوں اور دلیلوں کے ڈھیر میں دبا پڑا ہوتا ہے۔ اس کا بیچ بہت نیچے، بہت گہرائی میں بویا جاتا ہے۔ جب متکبر کو الہام کیا جاتا ہے کہ تو غرور کررہا ہے تو وہ اس الہام کو کہ” نہیں میں تو بڑا عاجز ترین بندہ ہوں” کہہ کر رد کر دیتا ہے۔

پہلے اس کے تکبر کا معاملہ اوراس کے اور اللہ کے درمیان رہتا ہے۔ اللہ الہا م کرتا ہے کہ اے بندے تو تکبر کر رہا ہے، باز آ۔ توبہ کر۔ تو وہ اس الہام کو زبانی ”توبہ استغفار” کہہ کر، ”میں تو بڑا عاجز بندہ ہوں” کہہ کہہ کر بہلاتا رہتا ہے۔ اس کادل پھر بھی نہیں بدلتا۔ پھر اسے نشانیوں کی صورت نصیحتیں کی جاتی ہیں ۔کبھی کلام قرآن کے ذریعے، کبھی کسی عام کتاب کے ذریعے، کبھی کسی انسان کی زبانی، کبھی کسی اور کے انجام کی صورت، کبھی کوئی قصہ سنایا جاتا ہے، کبھی کوئی درویش لایا جاتا ہے۔ ساری کائنات اسے نشانیاں لا لا کر دکھاتی ہے کہ یہ ہے تیرا غرور۔ ایسا ہے تیرا تکبر۔۔۔۔۔۔ اللہ اسے بتاتا ہے کہ تیرا تکبر تجھے لے ڈوبے گا بازآ جا۔۔۔۔۔۔ شیطان کے نقش قدم پر نہ چل۔۔۔۔۔۔

وہ باز نہیں آتا۔۔۔۔۔۔اس کا گناہ اپنی حد پھلانگ جاتاہے۔ وہ اس کے اور اللہ کے درمیان کے پردے سے نکل آتا ہے اور فرشتوں تک جا پہنچتا ہے۔۔۔۔۔ ۔یہ دوسرا بد ترین درجہ ہے۔۔۔۔۔۔ فرشتے جان جاتے ہیں کہ اللہ کا یہ بندہ تکبر جیسا شیطانی گناہ کر رہاہے۔ وہ کہتے پھرتے ہیں کہ اللہ کا یہ بندہ تکبر کرتاہے۔ یہ تکبر اسے لے ڈوبے گا۔۔۔۔۔۔ اس بندے کو توبہ کر لینی چاہیے۔۔۔۔۔۔اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔

وہ توبہ نہیں کرتا۔ پھر فرشتوں سے اس کا یہ گناہ مخلوق تک جا پہنچتا ہے۔۔۔۔۔۔یہ آخری اور بدترین درجہ ہے۔۔۔۔۔۔ جو گناہ صرف رب اور بندے کے درمیان تھا اب مخلوق اس کی گوا ہ بننے لگتی ہے۔ مخلوق متکبر کو متکبر کہتی ہے تو وہ مانتا نہیں۔عجز و انکسار ظاہر کرتاہے۔ مخلوق کہتی ہے تو وہ کہتا ہے۔
بے شک یہ سب اللہ ہی کی وجہ سے ہے۔ میں اللہ کا بندہ ہوں اور مجھے اللہ سے بہت پیار ہے۔بھلا میں کیا اور میری اوقات کیا۔

مخلوق طنز کرتی ہے تو وہ کہتا ہے، ”لوگ مجھ سے حسد کرتے ہیں۔ میرے خلاف افواہیں پھیلاتے ہیں۔ بھلا میرا غرور و تکبر سے کیا لینا دینا۔ اللہ گواہ ہے کہ میرا دل صاف ہے۔ میں تو توبہ استغفار کرنے والا ہوں۔ ” وہ ایسی عاجزی دکھاتا ہے کہ مخلوق خدا کو دھوکا دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ لیکن دراصل وہ تو خود کو دھوکا دے رہا ہوتا ہے۔ وہ توخود کو بہلا رہا ہوتا ہے۔

حکیم ہنس دیا۔”آپ نے تو مجھے جہنمی ہی ثابت کر دیا۔ ایسا بھی کیا گناہ کر دیا میں نے۔ اللہ کا کمزور سا بندہ ہوں۔ بھلا میری اوقات ہی کیا ہے۔۔۔۔۔۔

”ہاں یہی عاجزی۔۔۔۔۔۔ یہی انکسار۔۔۔۔۔۔ یہ تمہیں لے ڈوبے گا ۔۔۔۔۔۔ اس نے تمہارے غرور پر پردے ڈال دیے ہیں۔ شیطان تمہیں ایسے ہی مطمئن کرتاہے۔ وہ کہتا ہے ”استغفار کہہ لو۔” تم زبانی کلامی استغفار کر لیتے ہو اور تکبر کی اصل جڑ کو روح میں پھلنے پھولنے دیتے ہو۔ ہفتے میں دو دن تم غریبوں میں کھانا تقسیم کرتے ہو۔ ایک دن مفت علاج کرتے ہو۔ نمازیں پڑھتے ہو ، روزے رکھتے ہو۔ یتیموں ، مسکینوں کی مدد امداد کرتے ہو۔ ضرورت مندوں کی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہو۔ شیطان تمہیں تھپکتا رہتا ہے کہ اگر تم تھوڑا بہت تکبر کر بھی رہے ہو تو یہ ایسی کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ تمہاری پہاڑ نیکیاں، اور سمندر رحم دلی تمہیں جنت تک لے جائیں گی ۔لیکن تم جانتے ہی نہیں کہ ان بڑی بڑی نیکیوں کے پہاڑ، تمہارے غرور کی دلدل نگل لے گی۔ خود کو برتر سمجھتے ہو۔ تمہارے تکبر کی کنکریاں تمہاری نیکیوں کے سمندروں کو پی جائیں گی۔۔۔۔۔۔خاک کر دیں گی۔۔۔۔۔ ۔پھر کیا ہاتھ آئے گا؟”

”آپ اپنے اعمال کی بھی ایسے ہی فکر کرتے ہیں جیسے میرے اعمال کی فکر میں پریشان ہیں؟” میں نے طنز یہ پوچھا

انہوں نے افسوس سے مجھے دیکھا۔ ”افسو س تیرے تکبر کی جڑ تیری روح میں پختہ ہو چکی ہے۔ اب تجھے ہدایت کی باتیں مذاق لگتی ہیں۔ تو اتنا گمراہ ہو چکا ہے کہ سب نیکوکار، اللہ سے ڈرنے والے، صادق اور امین،مومن اور اہل دین تیرے انجام پر افسوس کرنے لگے ہیں۔”

آئینہ سیاہ ہو چکا تھا۔ سننے والوں کی سماعتیں دہک اٹھی تھیں۔ تکبر کی حدت نے انہیں جلانا شروع کر دیا تھا۔ رات کی سیاہی اور قندیلیوں کی روشنی آپس میں مدغم ہوتی سب کے دلوں پر الہام کر رہی تھیں کہ۔۔۔۔۔۔

تیسرا سبق:
ارشا د باری تعالی ہے۔ ”کبریائی بڑائی،عظمت، فخر ، تکبر) میری ردا (چادر) اور عظمت میرا ازار ہے (یعنی صرف میرا حق ہے) جو کوئی اس وصف میں میرے ساتھ مقابلہ کرے گا میں اس کو جہنم میں ڈال دوں گا اور مجھے اس کی کوئی پرواہ نہ ہو گی۔ جہنم متکبروں کا ٹھکانہ ہے۔” (حدیث قدوسی۔ابوداؤد۔ مسلم)

جاری ہے ۔۔۔۔




تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں