شکر کے آداب، طریقے اور فوائد
خطبہ مسجد الحرام (اقتباس)
28 جون 2019 بمطابق 25 شوال1440ھ
امام و خطیب: معالی الشیخ صالح بن حمید
ترجمہ: فرہاد احمد سالم
بشکریہ: اردو مجلس فورم
معالی الشیخ صالح بن حمید (حفظہ اللہ تعالی) نے مسجد حرام میں 25 شوال1440ھ کا خطبہ جمعہ'' شکر کے آداب، طریقے اور فوائد'' کے عنوان پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ شکر ایک عمدہ عبادت ہے اللہ تعالی نے اس کا حکم دیا، اس کے ادا کرنے والوں کی تعریف کی نیز اس کو اپنی خلقت کا مقصد ٹھرایا ہے۔ شکر نعمتوں کا محافظ اور اللہ کے فضل میں اضافے کا باعث ہے لیکن پھر بھی بندوں میں اسے انجام دینے والے تھوڑے ہیں۔ شکر گزاری کا فائدہ یہ ہے کہ انسان کی زبان اللہ کے ذکر سے تر رہتی اور اس کا دل پاکیزہ ہوتا ہے نیز معاملات بھی درست ہوتے ہیں۔ شکر انبیاء (علیھم السلام) کی صفات میں سے ہے، چنانچہ اللہ تعالی نے بہت سے انبیاء کے اوصاف میں اسے ذکر کیا، جیسے نوح، ابراہیم ، موسی ، سلیمان (علیھم السلام) اور ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ شکر گزار بندہ اللہ کے احسانات کا معترف ہوتا ہے، وہ خوشی اور غمی ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور اس پر اللہ کا خاص احسان ہوتا ہے۔ انسان کو ہر وقت اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے ، اللہ تعالی کی نعتیں بے شمار ہیں۔ شکر گزاری کے کئی طریقے ہیں ، جیسے نماز کے ذریعے شکر، روزے اور ذکر الہی کے ذریعے شکر اسی طرح خیر کی خبر یا اللہ کے خاص انعام پر سجدہ شکر ادا کرنا بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔
↜ منتخب اقتباس ↝
تمام تعریفات عظیم قدرت ، بلند حکمت اور بابرکت نام والے اللہ کے لئے ہیں ، اس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ۔میں اس کی نعمتوں پر حمد اور اس کی عطا پر شکر ادا کرتا ہوں ۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں وہ بلندی میں اکیلا ہے ۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام رسولوں میں افضل اور خاتم الانبیاء ہیں ،اللہ تعالی آپ پر آپ کی آل ، اولیاء کے سردار صحابہ نیز تابعین بہترین طریقے سے قیامت کے دن تک ان کی پیروی کرنے والوں پر سلامتی اور برکتیں نازل فرمائے۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
اے لوگو !میں خود کو اور آپ سب کو تقوی کی وصیت کرتا ہوں ۔ اللہ کا تقوی اختیار کرو ۔ اللہ آپ پر رحم فرمائے۔
جان لو! جو شخص اپنے نفس کو اللہ کے لئے عمل کرنے کا عادی بناتا ہے توا س کا عمل اخلاص سے بھر پور ہوتا ہے ۔اور جو شخص خواہشات نفس کے لئے عمل کرتا ہے اس کے لئے اخلاص مشکل ہو جاتا ہے ۔
بلند حوصلگی کامیابی کا راز اور کم ہمتی ناکامی کا راستہ ہے نیز نعمتوں کی حفاظت کا ثمرہ نعمتیں ہی ہیں ۔ سست آدمی آرام سے اور بے پروا شخص خوشی سے محروم ہوتا ہے۔ جو سر توڑ محنت نہیں کرتا اس کو لذت بھی نہیں ملتی۔
انسانی نفس نیکی میں رغبت اور بے رغبتی کا میلان رکھتا ہے ، پس جب نفس کا میلان نیکی کی طرف ہو تو خوب عبادت اور نیک کاموں کے عادی بنو ، اسی طرح جب نفس میں بے رغبتی ہو تو فرائض و واجبات کو لازما ادا کرو ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ (30) نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ (31) نُزُلًا مِنْ غَفُورٍ رَحِيمٍ} [فصلت: 30 - 32]
جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر اس پر ڈٹ گئے ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں۔ نہ ڈرو اور نہ غمگین ہو اور اس جنت کی خوشی مناؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست ہیں اور آخرت میں بھی۔ وہاں تمہارا جو جی چاہے گا تمہیں ملے گا اور جو کچھ مانگو گے تمہارے لیے ہو گا۔ یہ بخشنے والے مہربان کی طرف سے مہمانی ہو گی۔
مسلم اقوام!
عظیم اخلاق اور عمدہ عبادات میں سے ایک عبادت کہ جس کا اللہ نے حکم دیا اور اس کی مخالفت سے منع کیا اس کے ادا کرنے والوں کی تعریف کی اور ان کو اپنے خواص میں شمار کیا ، نیز اس کو اپنی خلقت اور حکم کا مقصد ٹھرایا۔ اسی طرح اس کے کرنے والوں سے بہترین بدلے کا وعدہ کیا ، اور اسے اپنے فضل میں اضافے کا باعث ، نعمتوں اور عطاؤں کا محافظ قرار دیا ہے ، اس پر عمل کرنے والے ہی اس کے حقیقی نفع یاب ہیں ۔ ساتھ ساتھ یہ کہ اللہ تعالی نے اپنے ناموں میں سے ایک نام کا انتخاب اس سے کیا ہے ، لیکن بندوں میں اسے انجام دینے والے تھوڑے ہیں ۔
اور یہ تمام شرف و فضیلت اور بلندی اس عمدہ عبادت شکر اور اس کے کرنے والوں کی ہے ۔
اللہ عزوجل کا فرمان ہے :
{وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ} [البقرة: 172]
اور اللہ کا شکر کرو، اگر تم صرف اس کی عبادت کرتے ہو۔
اور اللہ عزوجل کا فرمان ہے :
{وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ } [البقرة: 152]
میرا شکر کرو اور میری ناشکری مت کرو۔
اور اللہ عزوجل کا فرمان ہے :
{وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ} [إبراهيم: 7]
اور جب تمھارے رب نے صاف اعلان کر دیا کہ بے شک اگر تم شکر کرو گے تو میں ضرور تمھیں زیادہ دوں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو بلاشبہ میرا عذاب یقینا بہت سخت ہے۔
اللہ کے بندو!
شکر عبادت گزاروں کے معاملات میں پائیدار معاملہ ، اور نیک بندوں کے دلوں میں راسخ منہج ہے کہ جس سے ان کے دل بھرے رہتے اور زبانیں تر رہتی ہیں ، نیز اعضا سے شکر گزاری ظاہر ہوتی ہے ۔
اللہ تعالی نے اپنے پہلے نبی نوح (علیہ السلام) کا وصف اس طرح بیان کیا:
{إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا} [الإسراء: 3]
بے شک وہ بہت شکر گزار بندہ تھا۔
اور اپنے خلیل صاحب ملت حنیف ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:
{شَاكِرًا لِأَنْعُمِهِ اجْتَبَاهُ وَهَدَاهُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ } [النحل: 121]
وہ اللہ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے اللہ نے انہیں منتخب کر لیا اور سیدھی راہ دکھا دی ۔
اور موسی (علیہ السلام) کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:
{وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ أَنْجَاكُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَيُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ وَفِي ذَلِكُمْ بَلَاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ (6) وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ } [إبراهيم: 6، 7]
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ تم اپنے اوپر اللہ کی نعمت یاد کرو، جب اس نے تمھیں فرعون کی آل سے نجات دی، جو تمھیں برا عذاب دیتے تھے اور تمھارے بیٹے بری طرح ذبح کرتے اور تمھاری عورتوں کو زندہ رکھتے تھے اور اس میں تمھارے رب کی طرف سے بہت بڑی آزمائش تھی۔ اور جب تمھارے رب نے صاف اعلان کر دیا کہ بے شک اگر تم شکر کرو گے تو میں ضرور تمھیں زیادہ دوں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو بلاشبہ میرا عذاب یقینا بہت سخت ہے۔
اور سلیمان (علیہ السلام) اپنے اوپر اللہ تعالی کی خاص نعمتیں اور اللہ کی طرف سے تابع کردہ مخلوقات کو دیکھتے ہوئے فرمانے لگے :
{فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِنْ قَوْلِهَا وَقَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ} [النمل: 19]
تو سلیمان (علیہ السلام) اس کی بات سے ہنستے ہوئے مسکرائے اور کہا اے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمت کا شکر کروں، جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پرکی ہے اور یہ کہ میں نیک عمل کروں، جسے تو پسند کرے اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے نیک بندوں میں داخل فرما۔
جہاں تک ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے تو اللہ تعالی نے آپ کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف فرما دئیے تھے ، لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اللہ کے لئے قیام کرتے یہاں تک کہ آپ کے قدم مبارک سوجھ جاتے ، اور آپ فرماتے:
[أَفَلَا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا]
کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں۔
شکر اس بات کی دلیل ہے کہ بندہ اپنے رب سے راضی ہے ، شکر دل کی زندگی اور حیات ہے ، نیز شکر کے ذریعے موجود نعمت کو محفوظ اور مفقود نعمت کو حاصل کیا جاتا ہے۔ مومن کا سارا معاملہ خیر پر مشتمل ہے ،جب اس کو خوشی ملتی ہے شکر ادا کرتا ہے تو اس میں اس کی بہتری ہے ، اور اگر اس کو کوئی تکلیف لاحق ہوتی ہے اور وہ صبر کرتا ہے تو اس میں بھی اس کے لئے بہتری ہے، اور یہ چیز صرف اور صرف مومن کو حاصل ہے۔
شکر پاکیزہ نفس ، دل کی طہارت ، سینے کی سلامتی اور کمال عقل کی دلیل ہے ۔ بلکہ اللہ تعالی نے مخلوقات کو پیدا بھی اسی لئے کیا کہ اس کا شکر ادا کریں ۔ چنانچہ اللہ عزوجل نے فرمایا:
{وَاللَّهُ أَخْرَجَكُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًا وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ} [النحل: 78]
اور اللہ نے تمھیں تمھاری ماؤں کے پیٹوں سے اس حال میں نکالا کہ تم کچھ نہ جانتے تھے اور اس نے تمھارے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنا دئیے، تاکہ تم شکر کرو۔
شکر انسان کے لئے اللہ کی پہلی وصیت ہے۔
اسی طرح شکر کو عذاب سے بچاؤ کا سبب بنایا، چنانچہ اللہ عزوجل نے فرمایا:
{ مَا يَفْعَلُ اللَّهُ بِعَذَابِكُمْ إِنْ شَكَرْتُمْ وَآمَنْتُمْ وَكَانَ اللَّهُ شَاكِرًا عَلِيمًا} [النساء: 147]
اللہ تمھیں عذاب دے کر کیا کرے گا، اگر تم شکر کرو اور ایمان لے آؤ۔ اور اللہ ہمیشہ سے قدر کرنے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
ایمانی بھائیو!
شکر کے تین ارکان ہیں۔
٭نعمت کنندہ کے ساتھ محبت اور باطنی طور پر نعمتوں کا اعتراف
٭ نیز ظاہری طور پر ان کے اظہار کے ساتھ اللہ کی تعریف کرنا
٭ اور نعمتوں کو اللہ کی اطاعت اور رضا کے کاموں میں لگاتے ہوئے اس کی نا فرمانی سے بچنا۔
تین نعمتیں اعلی ترین ہیں۔
1) اسلام کی نعمت کہ اس کے بغیر نعمت مکمل نہیں ہو سکتی ۔
2)عافیت کی نعمت کہ اس کے بغیر زندگی مکمل نہیں ہو سکتی۔
3) رضا کی نعمت کے اس کے بغیر زندگی خوشگوار نہیں ہو سکتی۔
حسن بصری (رحمہ اللہ تعالی) فرماتے ہیں: عافیت کے ساتھ شکر ایسی خیر ہے کہ جس میں کوئی شر نہیں ۔
کتنے ہی آزمائشوں میں ہونے کے باوجود شکر گزار ہوتے ہیں ، اور کتنے ہی لوگ نعمتوں میں ہونے کے باوجود شکر گزار نہیں ہوتے، پس جب اللہ عزوجل سے سوال کرو تو شکر کے ساتھ عافیت کا سوال کرو۔
مسلمانو!
صحت و بیماری ہو یا جوانی و بڑھاپا، تنگ دستی و کشادگی ہو یا مشغولیت و فراغت ۔ اسی طرح خوشحالی یا تنگ حالی ہو بیداری یا نیند ، سفر و حضر ہو یا اجتماعی و انفرادی حالت ہو، نیز یہ کہ کھڑے بیٹھے اور پہلو کہ بل ہر حالت میں انسان پر اللہ کا شکر واجب ہے۔
ابو درداء (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں :
کم علم شخص ، صرف کھانے پینے کو اپنے اوپر اللہ کی نعت سمجھتا ہے ، اس لئے کہ اللہ کی نعمتیں تو دائمی اور اس کی نوازشیں لگاتار ہیں۔
اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
{أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً} [لقمان: 20]
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے جو کچھ آسمانوں میں اور جو زمین میں ہے تمھاری خاطر مسخر کر دیا اور تم پر اپنی کھلی اور چھپی نعمتیں پوری کر دیں۔
اللہ عزوجل کا فضل و لطف یہ ہے کہ وہ اپنے بندو کے شکر کو قبول کرتا ہے اور وہ بہت بخشنے والا اور قدردان ہے، پس اللہ نے کتے کو پانی پلانے والے کی قدر کی اور اس کو معاف کر دیا ، تو جو شخص مسلمانوں پر احسان، محتاجوں اور بے بسوں پر صدقہ کرے ،نیز کمزوروں پر رحم کرے گا تو اللہ اس کے ساتھ کیا ہی اچھا معاملہ کرے گا۔
اسی طرح جس شخص نے راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹایا تو اللہ نے اس کی قدر کی اور اسے معاف کر دیا، تو جو شخص مسلمانوں کے معاملات میں آسانی کرے ، ان کے غم دور کرے اور پریشانیاں ختم کرے تو اللہ اس کے ساتھ کیا معاملہ فرمائے گا؟
اللہ عزوجل کا کرم ہے کہ اس نے لوگوں کے شکر کو اپنا شکر قرار دیا ۔ حدیث میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[لَا يَشْكُرُ اللَّهَ مَنْ لَا يَشْكُرُ النَّاسَ]
جو شخص لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا ‘ وہ اللہ کا بھی شکر گزار نہیں ہوتا ۔
اللہ آپ کو توفیق دے!
یاد رکھو شکر کے وسائل کا کوئی شمار نہیں ہے ، نیکی کا اجر بڑھانے اور گناہوں کو ڈھانپنے پر اپنے رب کا شکر ادا کرو ۔
ابو تمیۃ (رحمہ اللہ تعالی) سے کسی آدمی نے کہا: آپ کی صبح کیسی ہوئی ، تو انہوں نے فرمایا : میں نے دو نعمتوں میں صبح کی اور مجھے نہیں معلوم کہ ان میں سے کون سی افضل ہے ۔
پہلی یہ کہ اللہ نے میرے بہت سے گناہوں کو چھپا دیا اب کوئی مجھے ان پر عار نہیں دلا سکتا۔ اور دوسری چیز محبت ہے جو اللہ نے ان لوگوں کے دلوں میں ڈال دی ہے جن تک میرا عمل نہیں پہنچا۔
اللہ کے بندو ! اسی طرح نماز کے ذریعے بھی شکر ادا کیا جاسکتا ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو قیام کرتے یہاں تک کہ آپ کے قدم مبارک سوجھ جاتے اور آپ فرماتے:
[ أَفَلَا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا]
کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں۔
اور شکر روزے کے ذریعے بھی ادا کیا جا سکتا ہے ۔چنانچہ موسی (علیہ السلام) نے عاشوراء کے دن روزہ رکھا ، جب اللہ تعالی نے ان کو اور ان کی قوم کو فرعون اور اس کی قوم سے نجات دی، پھر ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ روزہ رکھا اور یہود سے کہا : نحن احق بموسی منکم ، ہم تم سے زیادہ موسی (علیہ السلام) کے حق دار ہیں ۔
اسی طرح سجدہ شکر کے ذریعے بھی شکر ادا کیا جاسکتا ہے ، چنانچہ مومن کو جب کوئی خیر کی خبر پہنچے یا اللہ اس پر کوئی انعام کرے تو وہ سجدہ شکر ادا کرے۔
عبدالرحمن السلمی فرماتے ہیں : نماز ، روزہ اور ہر نیکی شکر ہے اور افضل شکر اللہ کی حمد ہے ۔
تقوی الہی اختیار کرو! اللہ آپ پر رحم فرمائے! جان لو نعمتوں کو شمار کرنا بھی شکر گزاری ہے ، نیز تحدیث نعمت، تعریف کرنا، اور قناعت بھی شکر گزاری ہے۔ اسی طرح زبان کو اللہ کے ذکر سے تر رکھنا بھی شکر گزاری ہے ۔
جس نے کہا:
مَنْ قَالَ حِينَ يُصْبِحُ: اللَّهُمَّ مَا أَصْبَحَ بِي مِنْ نِعْمَةٍ فَمِنْكَ وَحْدَكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ، فَلَكَ الْحَمْدُ، وَلَكَ الشُّكْرُ, فَقَدْ أَدَّى شُكْرَ يَوْمِهِ، وَمَنْ قَالَ مِثْلَ ذَلِكَ حِينَ يُمْسِي, فَقَدْ أَدَّى شُكْرَ لَيْلَتِهِ<
جس نے صبح کے وقت یہ کہہ لیا «اللهم أصبح بي من نعمة فمنك وحدك لا شريك لك فلك الحمد ولك الشكر» ” اے اللہ ! مجھے جو بھی نعمت حاصل ہے وہ تیرے اکیلے ہی کی طرف سے ہے ۔ تیرا کوئی شریک نہیں ۔ پس تیری ہی حمد ہے اور تیرا ہی شکر ہے ۔ “
تو اس نے اپنے اس دن کا شکر ادا کر لیا اور جس نے شام کے وقت اسی طرح کہہ لیا ، تو اس نے اپنی اس رات کا شکر ادا کر لیا ۔
اللہ کا تقوی اختیار کریں۔ رحمت ہدایت اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجیں۔
اس بات کا حکم تمہیں تمہارے رب نے دیا ۔ چنانچہ قرآن مجید میں بڑی پیاری بات ارشاد فرمائی:
{ إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا } [الأحزاب: 56]
اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی آپ ﷺ پر درود اور خوب سلام بھیجا کرو۔
یا اللہ تو حبیب مصطفی ، نبی مجتبیٰ ،اپنے بندے اور رسول، ہمارے نبی محمد ﷺ آپ کی پاکیزہ آل اور امہات المومنین پر سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔
{رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ } [الأعراف: 23]
ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔
{رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ} [البقرة: 201]
اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی۔ اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔
{ سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ (180) وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ (181) وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ} [الصافات: 180 - 182]
آپ کا پروردگار جو عزت کا مالک ہے ان باتوں سے پاک ہے جو یہ بیان کرتے ہیں۔ اور رسولوں پر سلام ہو ۔ اور سب تعریف اللہ رب العالمین کے لئے (ہی سزاوار) ہے۔
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں