ماں جی آپ نے اپنا دل صاف کرنا کس سے سیکھا؟ انہوں نے ہنستے ہوئے جواب دیا
دودھ والے سے۔
دودھ والے سے۔
سارہ بھی اس بات پر ہنس پڑی، پھرکچھ دیر قبل جیٹھانی سے فون پر اپنی تلخ کلامی پر شرمندہ ہوتے ہوئے ساس سے مخاطب ہوئی پتہ نہیں غصّے میں زیادہ ہی بول جاتی ہوں، بڑی ہیں مجھ سے لیکن انکی عادتیں بھی تو دیکھیں پچھلی بار بھی ..خیر چھوڑیں آپ بتائیں ناں ماں جی جیسے میں آپ سے اکثر باتیں سیکھتی ہوں آپ نے یہ بات کہاں سے سیکھی ؟کیونکہ میں نے اتنے عرصے میں آپکو لوگوں کی شکایتیں کرتے نہیں دیکھا ،حالانکہ کچھ لوگوں کے بہت غلط رویے بھی آپ کے ساتھ دیکھے ہیں میں نے۔ ماں جی نے بڑی بہوکیساتھ سارہ کی بدکلامی کو یکسر نظرانداز کرتے ہوۓ مسکراتے ہوۓ جواب دیا۔
"پتر مذاق نہیں سچ بتا رہی ہوں۔ واقعی دودھ والے ہی نے سکھایا تھا یہ سبق ، میں چھوٹی تھی جب کوئی بارہ سال کی رہی ہونگی ،فجر پر بھائی اور ابّا جی تو مسجد گۓ ہوتے امّاں جی صحن میں قران پڑھ رہی ہوتیں کہ دودھ والے بابے کی سائیکل کی گھنٹی بجنی شروع ہو جاتی میں باورچی خانے سے دیگچی لے کر اسے دیتی تو وہ غور سے اسے چیک کرتا۔ سونگھ کر کہتا اے نئیں کڑیے دوجا بھانڈہ لے کے آ، ایدے وچ تے ہالی تکر سالن دی بو نئیں مکی ، (یہ نہیں بیٹا، دوسرا برتن لے کر آؤ۔ اس میں سے تو ابھی تک سالن کی بو نہیں ختم ہوئی( کسی دن کہتا نہ پتر اے ویکھ سیڈاں تے پرانا دودھ نالے چپکا پڑا اے ، اینج تے نواں دودھ فھٹ جاناں اے (نہیں بیٹا، یہ دیکھو سائڈ پر پرانا دودھ چپکا ہوا ہے، یوں تو نیا دودھ پھٹ جائے گا۔)
جس دن کبھی دودھ پھٹ جاتا امّاں جی سے ڈانٹیاں بھی خوب پڑتیں اتنا دودھ ضائع ہونے پہ ...تین چار سال یہی سلسلہ چلتا رہا پھر میری شادی ہو گئی ،کچھ عرصے بعد مسائل شروع ہو گۓ جو نبیڑے نئیں تھے جاتے مجھ سے۔ میں گھٹ گھٹ کے رو رو کے اللہ جی سے دعا کرتی۔ ایک دن صبح کو اٹھی دیکھا تو چائے بنانے کو دودھ نہیں ڈھیر سارا دودھ پھٹ چکا تھا، مجھے یاد آیا اماں جی اس سے طرح طرح کی مٹھائیاں اور پنیر بنا لیا کرتی تھیں۔ سو میں نے بھی آدھے دودھ سے قلاقند آدھے کے پنیر کے پکوڑے بنا لیے، ناشتے میں اتنا اہتمام دیکھ کر سب گھر والے بڑے خوش ہوۓ بڑی تعریفیں ہوئیں سسر نے نیا جوڑا خریدنے کے پیسے انعام میں دیے اس دن مجھے شدت سے احساس ہوا کہ لوگ اتنے برے بھی نہیں ہوتے ،یہ انسان کی غلطی ہوتی ہے کہ وہ ہر بار نئے معاملات کو پچھلی ناراضگی سے بھی جوڑ لیتا ہے کہ اس وقت اس نے یوں کیا تھا یوں کہا تھا۔ یہی میری غلطی تھی۔ تب سمجھ آئی کہ دل کی دیگچی کو بھی ایسے ہی ستھرا کرنا پڑتا ہے کہ پھر نیا دودھ پھٹے بھی نہ، اس میں پرانے سالن کی بو بھی نہ آئے ،اور کبھی غلطی سے پھٹ جاۓ تو ایسے ہی خوب چینی ڈال ڈال کر اسکی مٹھائی بنا لیتے ہیں۔
منقول
"پتر مذاق نہیں سچ بتا رہی ہوں۔ واقعی دودھ والے ہی نے سکھایا تھا یہ سبق ، میں چھوٹی تھی جب کوئی بارہ سال کی رہی ہونگی ،فجر پر بھائی اور ابّا جی تو مسجد گۓ ہوتے امّاں جی صحن میں قران پڑھ رہی ہوتیں کہ دودھ والے بابے کی سائیکل کی گھنٹی بجنی شروع ہو جاتی میں باورچی خانے سے دیگچی لے کر اسے دیتی تو وہ غور سے اسے چیک کرتا۔ سونگھ کر کہتا اے نئیں کڑیے دوجا بھانڈہ لے کے آ، ایدے وچ تے ہالی تکر سالن دی بو نئیں مکی ، (یہ نہیں بیٹا، دوسرا برتن لے کر آؤ۔ اس میں سے تو ابھی تک سالن کی بو نہیں ختم ہوئی( کسی دن کہتا نہ پتر اے ویکھ سیڈاں تے پرانا دودھ نالے چپکا پڑا اے ، اینج تے نواں دودھ فھٹ جاناں اے (نہیں بیٹا، یہ دیکھو سائڈ پر پرانا دودھ چپکا ہوا ہے، یوں تو نیا دودھ پھٹ جائے گا۔)
جس دن کبھی دودھ پھٹ جاتا امّاں جی سے ڈانٹیاں بھی خوب پڑتیں اتنا دودھ ضائع ہونے پہ ...تین چار سال یہی سلسلہ چلتا رہا پھر میری شادی ہو گئی ،کچھ عرصے بعد مسائل شروع ہو گۓ جو نبیڑے نئیں تھے جاتے مجھ سے۔ میں گھٹ گھٹ کے رو رو کے اللہ جی سے دعا کرتی۔ ایک دن صبح کو اٹھی دیکھا تو چائے بنانے کو دودھ نہیں ڈھیر سارا دودھ پھٹ چکا تھا، مجھے یاد آیا اماں جی اس سے طرح طرح کی مٹھائیاں اور پنیر بنا لیا کرتی تھیں۔ سو میں نے بھی آدھے دودھ سے قلاقند آدھے کے پنیر کے پکوڑے بنا لیے، ناشتے میں اتنا اہتمام دیکھ کر سب گھر والے بڑے خوش ہوۓ بڑی تعریفیں ہوئیں سسر نے نیا جوڑا خریدنے کے پیسے انعام میں دیے اس دن مجھے شدت سے احساس ہوا کہ لوگ اتنے برے بھی نہیں ہوتے ،یہ انسان کی غلطی ہوتی ہے کہ وہ ہر بار نئے معاملات کو پچھلی ناراضگی سے بھی جوڑ لیتا ہے کہ اس وقت اس نے یوں کیا تھا یوں کہا تھا۔ یہی میری غلطی تھی۔ تب سمجھ آئی کہ دل کی دیگچی کو بھی ایسے ہی ستھرا کرنا پڑتا ہے کہ پھر نیا دودھ پھٹے بھی نہ، اس میں پرانے سالن کی بو بھی نہ آئے ،اور کبھی غلطی سے پھٹ جاۓ تو ایسے ہی خوب چینی ڈال ڈال کر اسکی مٹھائی بنا لیتے ہیں۔
منقول
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں