خیالی دانشور


انسان کی سب سے بڑی جہالت سب کچھ معلوم ہونے کی خوش فہمی ہے.جو انسان میں علمی ارتقاء کو روک دیتی ہے. اور انسان علمی تکبر میں مبتلا ہو کر دوسروں کو کم علم جاہل اور خود کو قابل و عقلِ کل سمجھنا شروع کردیتا ہے.جو کتابیں اسکی شعوری نشونما کرتی ہیں اسکا ظرف انہی کتابوں کے بوجھ تلے دب کر رہ جاتا ہے.اور اس کی ذات پر ایک دانشوری کا بھوت سوار ہوجاتا ہے.وہ بھوت اسکو ایک خیالی دانشور تو بنادیتا ہے مگر اسکے انسانیت کے قد کو چھوٹا کردیتا ہے.

علم و سچائی کا متلاشی تاحیات علمی سفر پر رھتا ہے.اسکا علمی سفر معلوم سے نامعلوم کی طرف چلتا رہتا ہے.لیکن کبھی مکمل نہیں ہوتا. اور جیسے جیسے وہ علم حاصل کرتا جاتا ہے.اسکو اپنی جہالت کا ادراک بھی ہوتا جاتا ہے. ہماری زندگی میں آنے والا ہر شخص ہمارے لئے بےحد علمی خزانے لے کر آتا ہے. چاہیے وہ ان پڑھ ہو یا عالم. ہر شخص اپنے ذاتی تجربوں اور مشاہدوں کی بنیاد پر کچھ نیا سیکھتا ہے جسکو ہم سمجھ کر اپنا علم بڑھا سکتے ہیں لیکن اسکے لئے دوسروں کی عزت اور انکی باتوں پر غورو فکر ضروری ہے.انسان اپنی سوچ کا بیشتر حصہ اپنے ماحول سے عکس کرتا ہے. جبکہ کتابیں اسکو بہت قلیل علم دیتی ہیں. یوں تو کتابیں اپنی افادیت رکھتی ہیں لیکن علم کتابوں کی میراث نہیں اور نا ہی دانش کتابوں سے ملتی یے. اس لیئے چار کتابیں پڑھ کر خود کو دانشور بنے کی کبھی بھول نا کریں ورنہ آپ پر بھی دانشوری کا بھوت سوار ہوجائے گا اور آپ انسان کے بجائے چلتا پھرتا کتب خانہ بن جائیں گے.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں