آدمی جزیرے ہیں ۔۔۔!
شاعر: حسیب احمد حسیب
آدمی جزیرے ہیں
اور ان جزیروں کی
زندگی بہت کم ہے
بیچ اک سمندر کے
تند خو سی موجوں میں
ان کو ڈوب جانا ہے
اور ان جزیروں کی
زندگی بہت کم ہے
بیچ اک سمندر کے
تند خو سی موجوں میں
ان کو ڈوب جانا ہے
آدمی جزیرے ہیں
اور ان جزیروں پر
زندگی پنپتی ہے
پیڑ کھلکھلاتے ہیں
پھول جگمگاتے ہیں
روشنی اترتی ہے
لیکن ایک دن ان کو
خود ہی ٹوٹ جانا ہے
آدمی جزیرے ہیں
اور ان جزیروں کی
زندگی بہت کم ہے
بیچ اک سمندر کے
تند خو سی موجوں میں
لوگ ان جزیروں پہ
گھومنے کو آتے ہیں
چار دن ٹھہرتے ہیں
اور اس پڑاؤ میں
کچھ نئے تعلق بھی
کچھے نئے سے رشتے بھی
روز روز بنتے ہیں
اور ان جزیروں سے
چاہتیں ابھرتی ہیں
پر یہ تلخ سچائی
بھولنے نہیں دیتی
بیچ اک سمندر کے
ریشمی جزیروں کی
زندگی ادھوری ہے
تند خو سی موجوں میں
ان کو ڈوب جانا ہے
اور پھر نہیں آنا
آدمی جزیرے ہیں
اور ان جزیروں کے
پاس سے گزرتی ہیں
کشتیاں وفاؤں کی
مچلھلیاں جفاؤں
تتلیاں ہواؤں کی
کتنے نا خداؤں کی
انگنت صداؤں کی
روز ہی اترتے ہیں
کتنے خوبرو پنچھی
لیکن ان جزیروں کی
زندگی بڑی کم ہے
اور ان جزیروں کو
جلد ڈوب جانا ہے
تند خو سی موجوں میں
وقت کے سمندر میں
آدمی جزیرے ہیں
اور ان جزیروں کو
یاد کس نے رکھنا ہے
ہاں مگر کتابوں میں
ہاں پرانے قصوں میں
بھولی بسری یادوں میں
ہاں کسی مسافر کو
کل یہ یاد آئیں گے
کہ کسی سمندر کی
تند خو سی موجوں میں
ہاں کوئی جزیرہ تھا
وہ جو اسکا اپنا تھا
وہ جو ایک سپنا تھا
آدمی جزیرے ہیں
اور ہر جزیرے کا
ڈوبنا ہی فطرت ہے
وقت کے سمندر کی
اک نئے جزیرے کو
وہ ابھار لاتا ہے
کوکھ سے سمندر کی
زندگی کا یہ منظر
پھر سے سامنے آکر
آسماں کے سائے میں
بے کراں سمندر میں
پھر سے سانس لیتا ہے
کل کوئی جزیرہ تھا
آج وہ نہیں شاید
کل کے اس جزیرے کا
اک نیا تسلسل ہے
اک نیا جزیرہ ہے
وقت کے سمندر میں
اک نئی علامت ہے
آدمی جزیرے ہیں
اور ان جزیروں کی
زندگی بہت کم ہے
کل کو ان جزیروں کو
زیر آب آنا ہے
لیکن ان جزیروں نے
وقت کے سمندر کی
لازوال چادر میں
اک نئی کہانی کو
زندگی بنانا ہے
آدمی جزیرے ہیں
اور ان جزیروں کی
زندگی بھلے کم ہو
تند خو سی موجوں میں
ان کو ڈوب جانا ہو
وقت کے سمندر میں
زیر آب آنا ہو
پر یہ ان ہواؤں میں
اور ان فضاؤں کے
ایک ایک ذرے میں
اور اس سمندر کی
تند خو سی موجوں میں
کل بھی سانس لیتے تھے
اور آنے والے کل
آنے والے لوگوں کو
ٓمشک بو ہواؤں میں
اور اس سمندر کی
ڈوبتی ابھرتی سی
بے ثبات لہروں میں
تیرتے ہوئے یا پھر
کچھ نئی چٹانوں کی
اور یا کسی سیپی
اور یا کسی گوہر
موج کے کسی جوہر
آنے والے لوگوں کو
یہ کسی بھی ہیت میں
کل دکھائے جائیں گے
آدمی جزیرے ہیں
اور ان جزیروں کی
زندگی بہت کم ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں