طلاق کے اسباب اور حل - خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) ۔۔۔ 12 اکتوبر 2018


 خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)
امام و خطیب: پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل
بشکریہ: دلیل ویب

فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے 04 صفر 1440کاخطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان "طلاق کے اسباب اور حل" ارشاد فرمایا جس انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی نے انسانوں کو ایک جان سے پیدا فرما کر ان کے جوڑے بنائے اور کرۂ ارضی کی آباد کاری کے لیے نکاح جیسے نعمت عطا فرمائی اور بد کاری کے راستے بند کیے، پھر انہوں نے زانیوں کو ملنے والی سزا کا ذکر کیا، انہوں نے کہا کہ شادی کے بہت سے فوائد ہیں جبکہ زنا کاری کے اس سے زیادہ نقصانات ہیں۔ اسی طرح انہوں نے یہ بھی بتلایا کہ طلاق دینے سے معاشرے اور خاندان کا توازن بگڑتا ہے نیز طلاق شیطان کے لیے اعزاز کا باعث بھی بنتی ہے، پھر انہوں نے شادی کو دوام بخشنے کے اسباب میں کہا کہ: حسن معاشرت، اختلافات کا ابتدا میں ہی خاتمہ، دو طرفہ رشتہ داروں کی طرف سے صلح کا اقدام، صبر و تحمل، اپنے چند حقوق سے دستبرداری، بیوی سے غلطی ہونے پر سمجھانا شامل ہے، جبکہ بڑھتی ہوئی شرحِ طلاق کے اسباب میں بتلایا کہ : بد اخلاقی اور بد زبانی، دو طرفہ رشتہ داروں کی میاں بیوی کے درمیان دخل اندازی ، ایک دوسرے کی حق تلفی، بغیر اجازت گھر سے نکلنا اس کے اسباب میں آتا ہے، پھر انہوں نے طلاق دینے کا شرعی طریقہ بیان کیا اور آخر میں سب کے جامع دعا فرمائی۔

❝ منتخب اقتباس ❞

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے انسانوں اور زمین سے پیدا ہونے والی ہر چیز کے جوڑے بنائے نیز ان کے بھی جوڑے بنائے جن کے بارے میں انسان لا علم ہے، اللہ تعالی نے اپنی اور دوسروں کی اصلاح کا حکم دیا اور فساد سے روکتے ہوئے فرمایا:
 {وَأَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ}
 اصلاح کرو اور فسادیوں کے راستے پر مت چلو۔[الأعراف : 142] 

اللہ تبارک و تعالی نے لوگوں کے لیے مصلحتوں و فوائد کے حصول اور مفاسد و نقصانات سے بچانے کی غرض سے شرعی احکامات جاری کیے، میں اپنے رب کی حمد و شکر بجا لاتا ہوں اور توبہ و استغفار کرتا ہوں، نیز گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں وہ تمام جہانوں سے مستغنی ہے، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے صادق و امین رسول ہیں ، یا اللہ! اپنے بندے، اور رسول محمد ، ان کی آل اور صحابہ کرام پر درود و سلام اور برکتیں نازل فرما۔

لوگو! اپنی تخلیق کے ابتدائی مراحل یاد کرو کہ اللہ تعالی نے اتنے مرد و زن ایک جان سے پیدا فرمائے، اور ان کو جوڑے بنایا، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً } 
لوگو! اپنے اس پروردگار سے ڈرتے رہو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا پھر اسی سے اس کا جوڑا بنایا پھر ان دونوں سے [دنیا میں] بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں ۔ [النساء : 1]

اسی طرح فرمایا: 
{هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا}
 وہی تو ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کی بیوی بنائی تاکہ اس کے ہاں سکون حاصل کرے [الأعراف : 189]

اس کے بعد اللہ تعالی کا نظام اور شریعت یہ ہے کہ ایک مرد اور عورت شرعی عقدِ نکاح کے ذریعے ایک بندھن میں بندھ جائیں، تا کہ فطری اور انسانی ضروریات ازدواجی تعلقات کے ذریعے نکاح کی صورت میں پوری کریں اور بد کاری سے بچیں۔

چنانچہ نکاح عفت، برکت، افزائش نسل، پاکیزگی، عنایت، قلبی صحت، اور نیک اولاد کی صورت میں لمبی عمر کا راستہ ہے، جبکہ بد کاری اور زنا خباثت، قلبی امراض، مرد و زن کے لیے تباہی، گناہوں، آفتوں، بے برکتی، نسل کُشی اور آخرت میں عذاب کا راستہ ہے۔

ازدواجی زندگی ایسا گھر ہے جو اولاد کی پرورش، دیکھ بھال، اور تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتا ہے، والد کی شفقت اور ممتا کی محبت ایسی نسلیں تیار کرتی ہے جو زندگی کے بار اٹھانے کی صلاحیت رکھے، معاشرے کے لیے مفید ثابت ہوں، معاشرے کو ہر میدان میں تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن کرے، پدری شفقت اور ممتا کی محبت نئی نسل کی اعلی اخلاقی اقدار کی جانب رہنمائی کرتی ہے اور مذموم صفات سے دور رکھتی ہے، نیز اخروی دائمی زندگی کے لیے نیکیاں کرنے کی تربیت دیتی ہے، چنانچہ چھوٹے بچے انہیں دیکھ کر یا سن کر سیکھتے ہیں؛ کیونکہ وہ خود سے پڑھ کر سبق حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

اس بندھن کے ساتھ میاں بیوی کی مصلحتیں اور فوائد منسلک ہیں، بچوں کی مصلحتیں اور فوائد منسلک ہیں، میاں بیوی کے اقربا کی مصلحتیں اور فوائد منسلک ہیں، پورے معاشرے کی مصلحتیں اور فوائد منسلک ہیں، دنیا و آخرت کی اتنی مصلحتیں اور فوائد منسلک ہیں جنہیں شمار کرنا ممکن ہی نہیں ، چنانچہ اس بندھن کو توڑنا، اس معاہدے کو ختم کرنا ، اور ازدواجی زندگی کو طلاق سے برخاست کرنا مذکورہ تمام فوائد اور مصلحتوں کو منہدم کردیتا ہے، اس کی وجہ سے خاوند کو بہت ہی زیادہ آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے جس سے دین، دنیا، اور صحت سب متاثر ہوتی ہیں، دوسری جانب بیوی کو خاوند سے کہیں زیادہ آزمائش کا سامنا کرنا پڑتا ہے، چنانچہ عورت اپنی زندگی پہلے کی طرح استوار نہیں کر پاتی جبکہ بقیہ زندگی ندامت کے سپرد ہوتی ہے، اور آج کل کے دور میں تو خصوصی طور پر پریشانی ہوتی ہے کیونکہ حالات عورت کے لیے سازگار نہیں ہوتے، بچے اجڑ جاتے ہیں، انہیں بھی سنگین ترین حالات سے گزرنا پڑتا ہے جو کہ والدین کی سائے میں گزاری ہوئی گذشتہ زندگی سے بالکل الگ تھلگ ہوتے ہیں، لہذا انہیں زندگی میں رنگ بھرنے والی تمام خوشیوں کا دامن چھوڑنا پڑتا ہے، نیز ان سنگین حالات میں ان کے سروں پر ہمہ قسم کے فکری انحراف اور امراض میں مبتلا ہونے کے خطرات منڈلا رہے ہوتے ہیں، پورا معاشرہ بھی طلاق کے بعد رونما ہونے والے نقصانات سے متاثر ہوتا ہے، چنانچہ قطع رحمی زور پکڑتی ہے، بلکہ طلاق کی جتنی بھی خرابیاں شمار کر لو کم ہیں ۔

 طلاق کے عمومی اور خصوصی مفاسد و نقصانات کا اندازہ لگانے کے لیے جابر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث پر غور کریں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ابلیس اپنا تخت پانی پر لگا کر اپنے چیلوں کو بھیجتا ہے ؛ اور اس کے نزدیک مرتبے کے اعتبار سے وہی مقرب ہوتا ہے جو سب سے بڑا فتنہ ڈالے ، چنانچہ ان میں سے ایک آ کر کہتا ہے کہ : "میں نے یہ کیا اور وہ کیا۔۔۔" تو شیطان اسے کہتا ہے کہ : "تو نے کوئی کارنامہ سر انجام نہیں دیا " پھر ان میں سے ایک اور آ کر کہتا ہے کہ : "میں نے فلاں کا پیچھا اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی نہ ڈلوا دی " شیطان اسے اپنے قریب کر کے کہتا ہے: "ہاں !تو ہے کارنامہ سر انجام دینے والا" پھر وہ اسے گلے لگا لیتا ہے) مسلم

آج کل معمولی وجوہات اور وہمی اسباب کی بنا پر طلاق کی شرح بہت بڑھ چکی ہے، بلکہ طلاق کے اسباب میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے، ان میں سب سے اہم سبب طلاق کے شرعی احکام سے جہالت اور کتاب و سنت کی تعلیمات سے رو گردانی ہے، حالانکہ شریعتِ اسلامیہ نے شادی کے بندھن کو مکمل تحفظ اور اہمیت دی ہے کہ مبادا یہ بندھن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو، ہوس پرستی کی اندھیریوں سے متزلزل ہو۔

چونکہ طلاق کا سبب خاوند اور بیوی میں سے کوئی ایک یا دونوں ہو سکتے ہیں یا ان میں سے کسی کے رشتہ دار طلاق کا باعث بنتے ہیں تو شریعت نے ہر صورت حال سے نمٹنے کا الگ حل تجویز کیا ہے، چنانچہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں خاوند کو اس بندھن کی قدر کرنے کا حکم دیا اور فرمایا: 
{ وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ وَلَا تَتَّخِذُوا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا}
 اور بیویوں کو تکلیف پہنچانے کی غرض سے ظلم اور زیادتی کے لیے نہ روکو جو شخص ایسا کرے اس نے اپنی جان پر ظلم کیا تم اللہ کے احکام کو ہنسی کھیل نہ بناؤ [البقرة : 231]

اور خاوند کو چاہے کہ اپنی بیوی کے ساتھ حسن سلوک، حسن معاشرت سے پیش آئے اور اگر کوئی بات بری بھی لگے تو صبر کرے عین ممکن ہے کہ حالات بہتر سے بہترین ہو جائیں ، یا انہیں اللہ تعالی نیک اولاد سے نوازے اور خاوند کو صبر کرنے پر اللہ تعالی کی طرف سے اجر بھی ملے گا، فرمانِ باری تعالی ہے:
 { وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا} 
اور ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو ، اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں ناگوار ہو مگر اللہ نے اس میں بہت بھلائی رکھ دی ہو [النساء : 19]

میاں بیوی کو اپنے اختلافات شروع میں ہی ختم کر دینے چاہئیں چہ جائیکہ مزید بڑھیں، میاں بیوی ایک دوسرے کو سمجھیں اور پھر ایک دوسرے کی پسند اور نا پسند کا بھر پور خیال کریں، یہ کام بہت ہی آسان ہے اور سب اس سے واقف ہیں۔

صبر اور در گزر بھی ازدواجی زندگی کے دوام اور خوشحالی کا سبب ہے، چنانچہ ایسے میں صبر کا کڑوا گھونٹ لمبے عرصے کی مٹھاس کا باعث بنتا ہے، ویسے بھی مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے صبر جیسی کوئی چیز نہیں ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ}
 یقیناً صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر دیا جائے گا۔[الزمر : 10]

صرفِ نظر اور در گزر زندگی کے لیے لازمی عناصر ہیں، میاں بیوی کو ان کی خصوصی طور پر ضرورت ہوتی ہے، لہذا غیر ضروری یا قابل تاخیر امور سے صرفِ نظر میاں بیوی دونوں کے لیے بہتر ہے؛ کیونکہ دور حاضر میں بہت سے خاوند عیش پرستی پر مبنی مطالبات پورے کرتے کرتے تھک چکے ہیں، پورے حقوق کا مطالبہ ،کسی ایک حق سے بھی عدم دستبرداری اور صرف نظر نہ کرنے کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نفرت اور بغض جنم لیتا ہے۔

ازدواجی زندگی دائمی بنانے کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ خاوند اپنی بیوی کے اخلاق میں شگفتگی پیدا کرے، اور اس کے لیے شریعت کی روشنی میں جائز امور بروئے کار لائے۔

قاضی اور منصفین کی ذمہ داری ہے کہ ان کے پاس آنے والے میاں بیوی کے جھگڑوں میں صلح صفائی کروائیں، تا کہ باہمی اتفاق قائم ہو اور طلاق کے خدشات زائل ہو جائیں۔

خاوند پر بیوی کا حق ہے کہ حسن معاشرت، بیوی کے لیے مناسب رہائش، نان و نفقہ اور لباس کا انتظام کرے، ہر وقت خیر خواہی چاہے، تکلیف مت دے، اور گزند نہ پہنچائے۔

طلاق کا سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بیوی زبان دراز ، بد اخلاق، اجڈ اور گنوار ہو، تو ایسی صورت میں بیوی اپنا اخلاق درست کرے، اپنے خاوند کی فرمانبرداری کرے، اور بچوں کی صحیح تربیت کے لیے خوب محنت کرے، اور خاوند کی صرف وہی بات مانے جو اللہ تعالی کی ناراضی کا باعث نہ ہو، چنانچہ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب کوئی عورت پانچوں نمازیں پڑھے، ماہِ رمضان کے روزے رکھے، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنے خاوند کی اطاعت کرے تو اسے کہا جائے گا: جنت کے من چاہے دروازے سے داخل ہو جاؤ) احمد، یہ حدیث حسن ہے۔

طلاق کا یہ بھی سبب ہے کہ میاں بیوی کے دو طرفہ یا یک طرفہ رشتہ دار ان کے درمیان دخل اندازی کریں، اس لیے رشتہ داروں کو چاہیے کہ وہ اللہ سے ڈریں اور صرف اچھی بات ہی کیا کریں۔ ایک حدیث میں ہے کہ : (اللہ تعالی کی ایسے شخص پر لعنت ہے جو کسی کی بیوی کو خاوند کے خلاف یا خاوند کو بیوی کے خلاف بھڑکائے)

بیوی کی ذمہ داری ہے کہ وہ خاوند کے رشتہ داروں کے حقوق بھی ادا کرے اور خصوصی طور پر ساس سسر کا خیال رکھے، اسی طرح خاوند بیوی کے رشتہ داروں کے حقوق ادا کرے، چنانچہ کئی بار کسی ایک کے رشتہ دار کی حق تلفی بھی طلاق کا سبب بن جاتی ہے۔

طلاق کا یہ بھی سبب ہے کہ : حیا باختہ ڈارمہ سیریل دیکھے جائیں یا فحاشی پھیلانے والی ویب گاہیں دیکھی جائیں۔

خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنا بھی طلاق کا سبب ہے، چنانچہ بیوی کے لیے خاوند کی اجازت سے ہی باہر جانا جائز ہے؛ کیونکہ خاوند کو معاملات کا زیادہ علم ہوتا ہے۔

تاہم اگر شادی کا بندھن قائم رکھنا ناممکن ہو جائے تو اللہ تعالی نے طلاق دینا جائز قرار دیا ہے اگرچہ یہ ناپسندیدہ عمل ہے، جیسے کہ حدیث میں ہے کہ: (اللہ تعالی کے ہاں ناپسندیدہ ترین حلال چیز طلاق ہے) چنانچہ خاوند مکمل سوچ و بچار کے بعد اللہ تعالی کے حکم کے مطابق شرعی طلاق دے، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ} 
اے نبی! جب بیویوں کو طلاق دو تو انہیں عدت گزارنے کے لیے طلاق دو، اور عدت شمار کرو[الطلاق : 1]
 آیت کا مفہوم بیان کرتے ہوئے مفسرین کہتے ہیں کہ: ایسے طہر میں ایک طلاق دے جس میں جماع نہیں کیا، طلاق دینے کے بعد اگر چاہے تو دوران عدت رجوع کر لے، وگرنہ عدت ختم ہونے دے، جیسے ہی عدت ختم ہو گی زوجیت کا تعلق ختم ہو جائے گا۔

غور کریں کہ شادی کے بندھن کو تحفظ دینے کے لیے شریعت نے کتنی تاکید کی ہے جبکہ دوسری طرف آج کل طلاق کو اتنا ہی معمولی سمجھ لیا گیا ہے، حالانکہ طلاق کے اسباب سے دوری ضروری عمل ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ وَمَنْ يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ} 
اے ایمان والو! شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو اور جو شخص شیطان کے قدموں پر چلے گا تو وہ تو بے حیائی اور برے کاموں کا ہی حکم دے گا [النور : 21]

مسلمانو!

کچھ نوجوانوں کی زبان پر طلاق کا لفظ اولاد، اقربا، اور کسی بھی دوسرے شخص کے حقوق کا خیال بالائے طاق رکھتے ہوئے پانی کی طرح جاری ہے، بسا اوقات مختلف مجالس میں تو کبھی ایک ہی مجلس میں کئی بار طلاق دے دیتا ہے، پھر اس کے بعد فتوے تلاش کرتا ہے، بسا اوقات حیلہ بازی بھی کرتا ہے اور کبھی کسی قسم کی گنجائش نہیں ملتی اور بلا سود ندامت اٹھانی پڑتی ہے؛ حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 { وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا (2) وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ } 
جو بھی اللہ سے ڈرے وہ اس کے لیے راستہ بنا دیتا ہے [2] اور اسے ایسی جگہ سے عطا فرماتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔[الطلاق : 2 - 3]

لہذا شرعی طور پر طلاق دینے والے کے لیے اللہ تعالی آسانیوں کے راستے کھول دیتا ہے، نیز شادی کے بندھن کی قدر کرنے والے اور اس کی اہانت سے دور رہنے والے کے لیے اللہ تعالی برکتیں ڈال دیتا ہے، چنانچہ وہ شادی کے اچھے نتائج سے بہرہ ور ہوتا ہے۔

یا اللہ! ہمیں حق کو حق دکھا اور اس کی اتباع کرنے کی توفیق بھی عطا فرما، نیز باطل کو ہمیں باطل دکھا اور ہمیں اس سے بچنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے باطل کو ہمارے لیے پیچیدہ مت بنا کہ مبادا ہم گمراہ ہو جائیں، یا ارحم الراحمین!

یا اللہ! ہم تجھ سے اپنے نفسوں اور برے اعمال کے شر سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔

اللہ کے بندو!

{إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ }
 اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو (مال) دینے کا حکم دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو [النحل: 90، 91]

صاحب عظمت و جلالت کا تم ذکر کرو وہ تمہیں کبھی نہیں بھولے گا، اس کی نعمتوں پر شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، اور جو تم کرتے ہو اللہ تعالی اسے جانتا ہے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں