حضرت ابراہیم علیہ السلام
تحریر: عمیرا علیم
بشکریہ: الف کتاب ویب
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا سفرِ حیات امتحان و آزمائش کا مظہر ہے۔ درحقیقت قرآن مجید میں اللہ تبارک تعالیٰ دنیوی زندگی کو ابتلاء و آزمائش سے تشبیہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’وہ جس نے پیدا کیا موت اور زندگی کو کہ تمہیں آزمائے کہ کون ہے تم میں سے سب سے اچھا عمل کے اعتبار سے۔‘‘ اور اللہ کے جلیل القدر پیغمبروں کی زندگیوں میں صبرواستقلال کے بہت سے ایسے مظاہر ہیں کہ عقل انسانی حیران و پریشان ہے کہ یہ ممکنات میں سے ہے بھی یا غیر ماورائی باتیں ہیں۔ نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔
’’ہم گروہ انبیاء اپنے اپنے مراتب کے اعتبار سے امتحان کی صعوبتوں میں ڈالے جاتے ہیں۔‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہاں کفروشرک اور بدی و فتنہ انگیزی کی اجارہ داری تھی۔ بت پرستی عام تھی۔ مشرکین ستاروں، مورتیوں اور سیاروں کی پوجا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ایک مطلق العنان بادشاہ بھی خدائی دعوؤں کے ساتھ موجود تھا۔ خدائے بزرگ و برتر نے اُن کو عقلِ سلیم اور دانائی کی دولت سے مالا مال کیا۔ اپنا خلیل بنایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اور یقیناً ہم نے عطا فرمائی تھی ابراہیم کو دانائی۔ اس سے پہلے ہم ان کو خوب جانتے تھے۔‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی استقامت کی جانچ پڑتال کا ایک بہت لمبا اور جاں گسل سلسلہ تھا۔ ایک طرف ساری سوسائٹی اور مستحکم نظام اور دوسری جانب ایک ایسا نوجوان جس نے عزم و ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان سے ٹکرلی اور پھر صبرو ثبات، برداشت و حوصلہ مندی اور ایثار و قربانی کی بلند مرتبہ مثالیں پیش کیں۔ گھر بدر ہوئے۔ معبد میں آپ پردست درازی ہوئی، دربار میں پیشی ہوئی، آگ میں ڈالے گئے، ملک بدر ہونا پڑا اور ہجرت کے بعد مسافرت و مہاجرت کی طویل داستان۔ لیکن فکر تھی تو بس توحید کی اور جب امتحان میں کامیاب ٹھہرے تو بشارت ملتی ہے: ’’(اے ابراہیم علیہ السلام) یقیناً میں تجھے پوری نوع انسان کا امام بنانے والا ہوں۔‘‘ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’اے اللہ یہ وعدہ صرف مجھ سے ہے یا میری نسل سے بھی ہے!‘‘ جواب دیا گیا: ’’میرا یہ عہد ظالموں کے ساتھ نہیں ہوگا۔‘‘ بے شک آلِ ابراہیم میں سے، جو لوگ نیکوکار اور پرہیزگار تھے، دنیاوی اور آخروی زندگی میں وہی لوگ بلند مرتبے کے حق دار ٹھہرے کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کامیابی تقویٰ کی بنیاد پر ہے۔
لیکن جب بڑھاپے کے آثار واضح ہونے لگے تو ایک نئی فکر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دامن گیر ہوئی۔ اولاد کی نعمت سے محرومی محسوس ہونے لگی اور پریشانی ہوئی کہ اس مشن کی باگ ڈور کوئی سنبھالنے والا نہیں۔ ایک بھتیجے (حضرت لوط علیہ السلام) نے ساتھ ہجرت کی تھی وہ مشرقِ اردن میں دعوتِ توحید میں مشغول تھے۔ آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی: ’’پروردگار نیک وارث عطا کر۔‘‘ معجزانہ خداوندی تھی کہ ستاسی (86) برس کی عمر میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو چاند سے بیٹے سے نوازا۔
حضرت سارہ آپ علیہ السلام کی پہلی بیوی تھیں۔ لیکن آپ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کوئی اولاد نہ تھی۔ حضرت سارہ کو اولاد کی چاہ تھی۔ اُنھوں نے اپنی خادمہ حضرت ہاجرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ہبہ کردیں۔ آپ علیہ السلام حضرت ہاجرہ سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ حضرت ہاجرہ حاملہ ہوگئیں۔ حضرت سارہ کو رشک ہوا اور آپ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے شکایت کی۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا جوتیری مرضی ہوگی ویسا ہی ہوگا۔
جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ولادت ہوتی ہے تو حضرت ہاجرہؑ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت سارہ کے کہنے پر ایک بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ جاتے ہیں۔ حضرت ہاجرہ پریشان حال ہیں۔ آپ علیہ السلام واپس جانے کا قصد فرماتے ہیں تو حضرت ہاجرہ آپ علیہ السلام کا دامن تھام لیتی ہیں اور فرماتی ہیں۔ اے ابراہیم! کہاں چھوڑے جاتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام خاموش ہیں۔ آپ بار بار پوچھ رہی ہیں۔ آپ علیہ السلام کی زبان مبارک سے الفاظ نہیں نکلے۔ تب حضرت ہاجرہ پوچھتی ہیں کہ ’’یہ حکمِ خداوندی ہے؟‘‘ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ہاں‘‘۔ تب آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دامن چھوڑ دیتی ہیں اور بے اختیار آپ کی زبان سے یہ الفاظ جاری ہوجاتے ہیں: (مجھے اللہ تعالیٰ کافی ہے اور میں نے اس کی ذات پر توکل کیا)۔ حکمِ ربی جان کر بی بی ہاجرہ اس بے آب و گیاہ وادی میں بسیرا کرنے کو تیار ہوجاتی ہیں اور اپنے نومولود کے پاس واپس آجاتی ہیں۔
ایک روایت میں ہے کہ ’’حضرت ابراہیم علیہ السلام انہیں اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو لے آئے اور (ان دنوں) حضرت اسماعیل علیہ السلام کو دودھ پلا رہی تھیں۔ یہاں تک کہ آپ علیہ السلام نے انہیں بیت اللہ شریف کے پاس زمزم کے قریب مسجد کی بلند جگہ بٹھا دیا۔ ان دنوں مکہ میں کوئی شخص بھی نہ تھا اور نہ ہی وہاں پانی کا نام و نشان تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان ماں بیٹے کو وہاں چھوڑ دیا۔ ان کے پاس ایک تھیلا تھا۔ جس میں کچھ کھجوریں تھیں اور ایک پانی سے بھرا مشکیزہ تھا۔ جس میں پانی تھا۔ آپ علیہ السلام نے یہ سامان وہاں رکھا اور واپس پلٹے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام ان دونوں سے کچھ فاصلے پر پہنچے تو قبلہ رو ہوکر اپنے رب کی بارگاہ میں ہاتھ اُٹھائے اور دعا فرمائی: ’’اے ہمارے رب! میں نے بسا دیا ہے اپنی کچھ اولاد کو اس وادی میں جس میں کوئی کھیتی باڑی نہیں۔ تیرے حرمت والے گھر کے پڑوس میں۔ اے رب! یہ اس لیے تاکہ وہ قائم کریں نماز۔ پس کردے لوگوں کے دلوں کو کہ وہ شوقِ محبت سے ان کی طرف مائل ہوں اور انہیں رزق دے پھلوں سے تاکہ وہ (تیرا) شکر ادا کریں۔‘‘
حضرت ہاجرہ اپنے لاڈلے صاحبزادے کو دودھ پلاتی رہیں اور اپنے پاس موجود پانی اور کھجوروں پر گزارہ کرتی رہیں لیکن بالآخر پانی ختم ہوگیا۔ بچہ بھوک سے بلک رہا ہے۔ ماں بے بس، بے چین و بے قرار۔ بچے کو تڑپتا ہوا نہیں دیکھ سکتی۔ وہاں سے چل پڑیں۔ قریب ہی صفا کی پہاڑی ہے اُس پر چڑھ جاتی ہیں اردگرد نظر دوڑاتی ہیں شاید کوئی بندۂ خدا نظر آئے اور پانی کی سبیل بنے لیکن بے سود۔ پھر بچے کی محبت میں دوڑ کر واپس آ جاتی ہیں۔ دوسری جانب مروہ کی پہاڑی ہے۔ بے چینی و بے قراری میں وہاں چڑھ جاتی ہیں لیکن تاحدِ نگاہ سنسان بیاباں ہے پھر تیزی سے بچے کی طرف لوٹ آئی ہیں۔ ایسے ہی سات چکر لگ جاتے ہیں۔
ساتویں بار جب آپ مروہ پر پہنچیں تو اچانک آپ کو ایک آواز سُنائی دی۔ دل میں کہتی ہیں ٹھہرو۔ اچھی طرح کان لگا کر سُنتی ہیں تو پھر وہی آواز سُنائی دیتی ہے۔ تب آپ فرماتی ہیں: اے شخص تو نے آواز تو سُنا دی۔ کیا تیرے پاس کوئی چیز فریاد رسی کو ہے۔ اچانک مقام زمزم کے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام کھڑے نظر آتے ہیں۔ وہ اپنے پَر سے زمین پر ضرب لگاتے ہیں تو پانی ظاہر ہوجاتا ہے۔
حضرت بی بی ہاجرہ مٹی سے پانی کے گرد حوض بنانے لگیں اور اپنی چلو میں پانی بھر بھر کر مشک میں ڈالنے لگیں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ پر رحم کرے۔ اگر وہ زمزم کو اپنے حال پر چھوڑ دیتیں (کہ وہ چلو بھر پانی نہ بھرتیں) تو زمزم ایک بڑا چشمہ بن جاتا۔‘‘ حضرت ہاجرہ نے خود پانی پیا اور اپنے نونہال کو دودھ پلایا۔ فرشتے نے آپ سے کہا اپنی ہلاکت کے بارے میں سوچیں بھی مت۔ یہاں اللہ کا گھر ہے۔ جس کو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور یہ نونہال اللہ کے حکم سے تعمیر فرمائیں گے۔
بیت اللہ اردگرد کی زمین سے نمایاں مقام پر تھا۔ سیلاب آتے اور دائیں بائیں سے گزر جاتے۔ حتیٰ کہ ایک دن قبیلۂ جرہم کا قافلہ پاس ہی آٹھہرا۔ اُنہوں نے ایک پرندہ آسمان میں منڈلاتے دیکھا اور خیال کیا کہ آس پاس پانی کی موجودگی کے آثار ہیں۔ کچھ لوگ خبر لینے کو بھیجے گئے۔ جب وہ وہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک وضع دار خاتون ایک نومولود کے ساتھ قیام پذیر ہیں۔ اُنھوں نے بی بی ہاجرہ سے وہاں قیام کی اجازت طلب کی۔ آپ نے اجازت مرحمت فرمائی اور کہا کہ پانی پر آپ کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ قبیلۂ جرہم راضی ہوگیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ حضرت ہاجرہ کے لیے یہ لوگ غنیمت ثابت ہوئے کیوں کہ آپ انسانوں کو چاہتی تھیں۔
درحقیقت مصلحتِ خداوندی یہ تھی کہ اللہ تبارک تعالیٰ نے حضرت بی بی ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی بدولت شہر مکہ کو آباد کرنا تھا اور ساتھ اُس کو اپنے خلیل کے گھر کسی بھی قسم کا کوئی جھگڑا مقصود نہ تھا۔ لیکن پہلوٹھی کی اولاد سے جُدائی اور پیاری بیوی سے دوری آزمائشِ خداوندی تھی۔ خلیل اللہ اُس پر راضی ہوئے۔ کیوں کہ وہ صالحین میں سے تھے۔
نومولود مختلف مراحل طے کرکے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہا تھا۔ قبیلۂ جرہم سے عربی سیکھی تو وضاحت و بلاغت میں اُن پر بھی سبقت لے گئے۔ آپ صادق الوعدہ اور اللہ کے بھیجے ہوئے نبی بھی تھے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام اکثرو بیشتر اذنِ خداوندی سے بیوی اور بیٹے سے ملاقات کے لیے آتے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ تشریف لائے تو حضرت اسماعیل علیہ السلام کو زمزم کے کنارے تیر بناتے ہوئے پایا۔ آپ علیہ السلام اپنے محترم والد کو دیکھ کر احتراماً کھڑے ہوگئے اور تعظیم و تکریم بجا لائے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’اے میرے بیٹے! اللہ تعالیٰ نے میرے ذمہ ایک کام لگایا ہے۔ کیا تم میرا ساتھ دو گے؟‘‘ حضرت اسماعیل علیہ السلام فرماں برداری میں اپنی مثال آپ تھے۔ فوراً ہاں کردی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ میں یہاں ایک گھر بناؤں اور آپ نے ایک سرخی کی طرف جو اپنے ماحول میں نمایاں تھی اس کی طرف اشارہ کیا۔‘‘
پھر دونوں باپ بیٹے نے مل کر کعبۃ اللہ کی بنیادیں کھڑی کیں۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام پتھر پکڑاتے جاتے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کا گھر تعمیر کرتے جاتے۔ دونوں باپ بیٹوں کی زبانوں سے سے یہ مبارک الفاظ جاری تھے۔ ’’اے ہمارے رب! ہمارا یہ عمل قبول فرما بلاشبہ تو خوب سُننے والا اور خوب جاننے والا ہے۔‘‘
سبحان اللہ خلیل اللہ معمار اور اللہ تعالیٰ کا ایک جلیل القدر پیغمبر مزدور۔ کیسے پاک ہاتھ ہیں اللہ تبارک تعالیٰ کا گھر تعمیر کرنے والے۔ اسی دنیاوی گھر کو تعمیر کرنے کا صلہ ہے کہ آج حضرت ابراہیم علیہ السلام بیت المعمور پر موجود ہیں۔ بیت المعمور ساتویں آسمان پر عین اُس مقام پر اللہ کا گھر ہے جہاں زمین پر کعبۃ اللہ واقع ہے۔
اللہ تعالیٰ سورۂ آل عمران میں فرماتے ہیں:۔ ’’بلاشبہ پہلا گھر جو انسانوں کیلئے (اللہ تعالیٰ کا معبدومحور) بنایا گیا ہے وہ یہی (عبادت گاہ) جو کہ مکہ میں ہے۔ وہ برکت والا اور تمام انسانوں کے لیے سرچشمہ ہدایت ہے اس میں (دینِ حق) کی روشن نشانیاں ہیں۔‘‘
اب حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لیے آزمائش کی گھڑی آپہنچی۔ ایک سوسالہ بوڑھے باپ اور نوجوان بیٹے کے اصل امتحان کے لیے سٹیج تیار ہوگیا۔ بیٹا وہ بھی اکلوتا۔ دعاؤں کا حاصل، فرماں بردار، سلیم الفطرت، حلیم و سعادت مند۔ باپ کے ساتھ دوڑ دھوپ کے قابل ہوچکا بلکہ تعمیر کعبہ میں باپ کا بازوبنا۔ تبھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں اپنے لاڈلے فرزند کو ذبح کرنے کا اشارہ دیا گیا۔ درحقیقت یہ ہے اصل اور آخری آزمائش۔
آپ اللہ کے اولعزم اور عالی مرتبہ پیغمبر اور نبی تھے۔ انبیاء کے خواب سچے ہوتے ہیں۔ اس لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کی رضا کے آگے سر تسلیم خم ہوئے۔ لیکن مسئلہ تنہا اپنی ذات کا نہیں تھا۔ ایک نوجوان بیٹے کا بھی تھا۔ باپ بیٹے کے پاس آئے۔ معاملہ اس کے سامنے پیش کردیا۔ نیک خصلت اور سعادت مند بیٹا فرماتا ہے: ’’اے میرے باپ! آپ کریں جو کچھ آپ کو حکم کیا جاتا ہے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔‘‘
اصل مدّعا یہ نہیں تھا کہ بیٹا رضا مندی دے گا تو ابوالانبیاء خواب کو شرمندۂ تعبیر کریں گے۔ درحقیقت صالح نبی اپنے صالح بیٹے کی فرماں برداری کا امتحان لے رہے ہیں اور سعادت مند بیٹا جان قربان کرنے کو تیار ہے اور باپ کی بات پر مہر لگا رہا ہے کہ وہ صرف جسمانی ہی نہیں روحانی اعتبار سے بھی آزمائش پر پورا اُتر رہا ہے اور ان کی دعا قبول ہوئی ہے جو اُنھوں نے رب تعالیٰ سے مانگی تھی کہ ’’اے پروردگار! مجھے ایک بیٹا عطا کر جو صالحوں میں سے ہو۔‘‘ اللہ تبارک تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی تھی اور جواب میں فرمایا تھا: ’’ہم نے اس کو حلیم (بُردباد) لڑکے کی بشارت دی۔‘‘ اور پیش گوئی سچ ثابت ہوئی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو پیشانی کے بل پچھاڑ دیا۔ مقصد تھا کہ بیٹے کی صورت سامنے نہ رہے اور کہیں فطری محبت عیاں نہ ہوجائے اور بیٹے پر چھری پھیرنے کو تیار ہوگئے۔ امتحان پورا ہوا۔ آپ کو پکارا گیا:
’’اے ابراہیم! تو نے خواب سچ کردکھایا۔ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی جزا دیتے ہیں۔ یقیناًیہ ایک کُھلی آزمائش تھی اور ہم نے ایک بڑی قربانی فدیے میں دے کر اس بچے کو چھڑا لیا اور اس قربانی کوبہ طورِ یادگار ہمیشہ کے لیے بعد کی نسلوں کی خاطر چھوڑ دیا۔ سلام ہے ابراہیم پر۔ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ یقیناًوہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا۔‘‘
قربانی مقبول ہوئی۔ دریائے رحمت نے جوش مارا اور اللہ نے آسمانوں سے جنتی مینڈھا بھیجا اور اپنے خلیل کو حکم صادر فرمایا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی بجائے اس کو قربان کریں۔
حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے ’’حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایک سیاہ آنکھوں اور بڑے سینگوں والا مینڈھا اُترا جو ممیا رہا تھا۔ آپ نے اسے ذبح فرما دیا۔ یہ وہی مینڈھا تھا، جس کی حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے حضرت ہابیل نے قربانی کی تھی اور ان کی قربانی اللہ نے منظور کرلی تھی۔‘‘
بہت سے مفسرین کہتے ہیں کہ اللہ نے خواب میں ابراہیم علیہ السلام کو یہ نہیں دکھایا کہ وہ اپنے فرزند کو ذبح کررہے ہیں بلکہ یہ دکھایا تھا کہ تم ذبح کررہے ہو اور خواب پورا ہوا۔ اصل مقصد فرزندِ ابراہیم کی جان لینا نہیں بلکہ ان کی آمادگی اور رضا مندی کو دیکھنا تھا۔
خدائے بزرگ و برتر اپنے محبوب لوگوں کو آزمائشوں میں ڈالتا ہے آیا کہ وہ اس رتبے کے اہل ہیں یا نہیں۔ درحقیقت وہ ان کی فضیلت اُبھارتا ہے اور لوگوں کو دکھاتا ہے کہ دیکھو میرے بندے صعوبتوں کے پرُ خطر راستوں سے گزرے لیکن ان کے قدم نہ ڈگمگائے اور انعام کے طور پر تا قیامت تعریف و توصیف کے حق دار قرار پائے۔ ممتحنِ امتحان نے اس عظیم قربانی کو کھلی آزمائش اور امتحان قرار دیا اور امتحان میں کامیاب ہونے پر ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے درودِ ابراہیمی جیسا انعام عطا کیا۔ دنیا بھر کے کروڑوں مسلمان نبی آخر الزماں کے ساتھ ساتھ خلیل اللہ پر اور ان کی آل پر درودِ و سلامتی بھیجتے ہیں سلام ہے ابراہیم علیہ السلام پر اور اسماعیل علیہ السلام پر۔ کیسا بلند مقام و مرتبہ پایا ہے ابو حمید الساعدیؓ سے روایت ہے ’’لوگوں نے دریافت کیا۔ یا رسول اللہ ہم آپ پر درود کس طرح پڑھا کریں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یوں کہو ’’اے اللہ درود بھیج حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی ازواج و اولاد پر جیسے تو نے درود بھیجی آلِ ابراہیم پر اور برکت ڈال حضرت محمد صلی اللہ علیہ وولم پر اور ان کی ازواج و اولاد میں جیسے تو نے برکت ڈالی آلِ ابراہیم میں، بے شک تو تعریف کیا گیا بزرگی والا ہے۔‘‘
اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے حضرت سارہ کے بطن سے حضرت اسحاق علیہ السلام کی پیدائش کی خوش خبری سنائی، جوکہ بنی اسرائیل کے جدِ امجد ہیں۔
خدائے رحمن نے انسان کو فرشتوں پر فضیلت دی۔ کیوں کہ وہی ذاتِ اقدس پوشیدہ اور ظاہر حقیقتوں کا جاننے والا ہے۔ یہ عظیم قربانی اس بات کا مظہر ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے خدائے بزرگ و برتر کی اطاعت و فرماں برداری کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا اور بدلے میں رب العالمین نے قیامت تک کے لیے یہ قربانی امتِ مسلمہ پر لازمی قرار دے دی۔ اب ہر سال کروڑوں مسلمان سنتِ ابراہیمی کی یاد تازہ کرنے کے لیے عیدالاضحی کے موقع پر اونٹ، گائے، بھیڑ اور بکری وغیرہ کی قربانی کرتے ہیں۔ بیتُ اللہ آج کے مسلمانوں کے لیے رشد و ہدایت کا مرکز ہے۔ لاکھوں مسلمان ہر سال کعبۃ اللہ کا حج کرتے ہیں۔ بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے حضرت بی بی ہاجرہ کے اس عمل کی یاد تازہ کرتے ہیں جو اُنھوں نے پانی کی تلاش میں صفاو مروہ میں بھاگتے ہوئے سات چکر لگائے تھے۔
سورۂ صافات میں جب اس عظیم قربانی کا ذکر مبارک اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے تو حضرت اسماعیل علیہ السلام کا نام ان آیات میں درج نہیں۔ مؤرخین نے یہ غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ ذبیح اللہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نہیں بلکہ حضرت اسحاق علیہ السلام ہیں۔ اہلِ کتاب نے حضرت اسحاق علیہ السلام سے یہ عظیم قربانی منسوب کردی کیوں کہ وہ بنی اسرائیل کے جدِامجد ہیں۔ جب کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام قریشِ مکہ کے جدِامجد تھے۔ یہودی یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں لیکن وہ عربوں سے حسد کی بنا پر غلط بیانی کرتے ہیں۔ قرآنی تعلیمات سے یہ بات واضح ہے اور اس میں الجھاؤ کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں پائی جاتی۔
نسلِ ابراہیمی کو جو عزت و توقیر حاصل ہوئی وہ ان کی قربانیوں کا اعجاز ہے، جو اُنھوں نے خدائے ذوالجلال کے حضور دیں اور معتبر ٹھہریں اور وہ ان دنیوی رتبوں اور آخروی عنایات کے مستحق قرار پائے جو محض فخرو انبساط پر نہیں ملتیں۔ اللہ تبارک تعالیٰ اُمتِ محمدیہ کو قربانی کی اصل روح کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں