پریشانیوں سے نکلنے کا نبوی وظیفہ - خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) ۔۔۔ 26 اکتوبر 2018


پریشانیوں سے نکلنے کا نبوی وظیفہ 
خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)
17 صفر 1440 ۔۔۔ 26 اکتوبر 2018
امام و خطیب: ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد العزیز آل شیخ
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل
بشکریہ: دلیل ویب

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد العزیز آل شیخ حفظہ اللہ نے 17 صفر 1440 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان " پریشانیوں سے نکلنے کا نبوی وظیفہ" ارشاد فرمایا ، جس میں انہوں نے امت اسلامیہ کی زبوں حالی کا ذکر کرتے ہوئے مسلمانوں کو متنوع بحرانوں سے نکلنے کا راستہ بتلایا اور کہا کہ اگر ہم اللہ تعالی کی بندگی کا حق ادا کر دیں تو ہماری حالت دنیا کی ہر چیز اللہ تعالی کے حکم کے تابع ہونے کی وجہ سے یک لخت ہی بدل سکتی ہے، اس کے لیے انہوں نے ایک اہم ترین ذکر بھی بتلایا اور اس کی معنی خیزی اور اہمیت و فضیلت میں متعدد ثابت شدہ احادیث بھی ذکر کیں، اور مسلمانوں پر زور دیا کہ اپنی زبان کو اس ذکر سے ہمیشہ تر رکھیں، دل سے اس کی تصدیق کریں اور اعضائے جسم پر اس کے اثرات رونما کریں۔

↪ منتخب اقتباس ↩

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، وہی نیک لوگوں کا ولی ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں، وہی سب مخلوقات کا معبودِ بر حق ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، آپ تمام انبیائے کرام اور رسولوں کے سربراہ ہیں، یا اللہ! ان پر، ان کی آل، اور تمام صحابہ کرام پر رحمتیں، سلامتی، اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

مسلمانو! میں تمہیں اور اپنے آپ کو وہی نصیحت اور وصیت کرتا ہوں جو اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں ہمیں کی ہے: ۔

{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ وَيَجْعَلْ لَكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ}
 اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔ اللہ تمہیں اپنی رحمت سے دگنا اجر عطا کرے گا اور ایسا نور بخشے گا جس کی روشنی میں تم چلو گے اور تمہیں معاف کر دے گا اور اللہ بخشنے والا ہے، رحم کرنے والا ہے۔ [الحديد: 28]

دورِ حاضر میں جہاں فتنوں کی بھر مار ہے، مشکلات بہت زیادہ ہیں، تو تمام پریشانیوں سے نکلنے کے یقینی راستے مسلمانوں کے سامنے رکھنا بہت ضروری ہے، نیز ہمہ قسم کے دکھ اور پریشانیوں سے نجات کے حقیقی اسباب بتلانے کی ضرورت مزید دو چند ہو جاتی ہے۔

اللہ تعالی کے سامنے اظہارِ عاجزی و انکساری اور سب کچھ اللہ تعالی کے سپرد کرنے کی تعلیمات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد صحابہ کرام کو کی ہوئی نصیحتیں بھی شامل ہیں کہ صحابہ ان پر دل و جان ،قولاً اور فعلاً عمل کریں، اٹھتے بیٹھتے اسی میں رنگے رہیں؛ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو موسی رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا: (تم "لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ" [نیکی کرنے کی طاقت اور برائی سے بچنے کی ہمت اللہ کے بغیر ممکن نہیں]کہا کرو؛ کیونکہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے) بخاری ،مسلم

اسی طرح ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : (مجھے میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکیدی نصیحت کی تھی کہ میں زیادہ سے زیادہ "لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ" کہا کروں)

اس ذکر کی وجہ سے بندے کو یہ یقینِ محکم ہو جاتا ہے کہ وہ خود یا کوئی اور بری حالت سے اچھی حالت میں منتقل ہونے کی ذاتی طاقت کا حامل نہیں ہے، بندہ اپنا کوئی بھی کام تنہا مکمل نہیں کر سکتا، کسی بھی ہدف کو پانے کے لیے انتہائی مضبوط ، بلند و بالا اور عظمت والی ذات باری تعالی کی جانب سے قوت کا ملنا ضروری ہے۔

جس وقت یہ ذکر انسانی زبان پر جاری ہو تو عین اس وقت دل عظیم الشان ذات کی وحدانیت کا اقرار کر رہا ہوتا ہے، اس کے اعضا بھی اللہ تعالی کے سامنے سرنگوں ہوتے ہیں؛ کہ اسی سے مدد، کامیابی، تنگی سے نکلنے کا راستہ اور خوشحالی طلب کی جاتی ہے؛ فرمانِ باری تعالی ہے: 
{سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا}
 عنقریب اللہ تعالی مشکل کے بعد آسانی فرما دے گا۔ [الطلاق: 7]

اس وظیفے اور اللہ تعالی کی دائمی اطاعت گزاری کے باعث فلاح ،کامیابی ، خلاصی اور نجات ملتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ}
 اے ایمان والو! جب تمہارا کسی دشمن سے ٹکراؤ ہو تو اللہ کا بہت زیادہ ذکر کرو، تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ۔[الأنفال: 45]

یہ ذکر ہر مسلمان کو اپنی حقیقی زبان اور زبانِ حال دونوں سے ہر وقت کرتے رہنا چاہیے؛ کیونکہ حقیقت میں یہی عقیدہ توحید کا جوہر ہے کہ انسان ظاہری و باطنی ہر اعتبار سے ہمہ وقت اللہ تعالی کے سامنے متواضع رہے، اسی سے تعلق ہو، اللہ تعالی کے سوا کسی سے بھی قوت و طاقت کی وصولی مسترد کر دے۔

اللہ کے بندو!

یہ عظیم واقعہ سنو! اس میں واضح ترین دلیل ہے کہ عقیدہ توحید کی طاقت کے ذریعے بڑی سے بڑی مشکل بھی آسان ہو جاتی ہے، اور سخت ترین پریشانیاں چاہے وہ کسی بھی قسم کی ہوں وہ بھی مندمل ہو جاتی ہیں۔

یہ واقعہ متعدد مفسرین اور دیگر اہل علم نے بیان کیا ہے اور اس کی سندیں کم از کم حسن درجے کی ہیں، واقعہ یہ ہے کہ : عوف بن مالک اشجعی کے بیٹے سالم کو مشرکوں نے قید کر لیا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا:" اللہ کے رسول! میرے بیٹے کو دشمنوں نے قید کر لیا ہے اور گھر میں بھی فاقہ کشی ہے"، تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (آل محمد کے پاس بھی کل شام تک ایک مد [دنوں ہاتھوں کے بھراؤ کے برابر] غلہ تھا، تقوی اختیار کرو اور صبر سے کام لو اور  "لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ" کثرت سے کہو)، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اور ان کے بیٹے کی ماں کو بھی کثرت سے اس ذکر کا حکم دیا، اس پر انہوں نے عمل کیا، تو عوف بن مالک رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں ہی تھے کہ ان کا بیٹا واپس آ گیا ، اور دشمن کو پتا بھی نہ چلا، ساتھ میں وہ دشمن کے اونٹ بھی اپنے والد کے پاس لے آئے ان دنوں ان کی مالی حالت بہت پتلی تھی، اس کے با وجود وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور بیٹے کے بارے میں خبر بتلائی اور یہ بھی بتلایا کہ وہ ساتھ میں دشمن کے اونٹ لے آیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: (تمہیں اختیار ہے ان کا جو مرضی کرو، جیسے تم اپنے اونٹوں کے ساتھ کرتے تھے) اور اس پر یہ آیات نازل ہوئیں:
 {وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا (2) وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ
اور جو اللہ سے ڈرے تو اللہ اس کے لیے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے۔ [2] اور وہ اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔[الطلاق: 2، 3]
 اس واقعے کو ہر وقت اور ہر حالت میں ہماری آنکھوں کے سامنے ہونا چاہیے، یہی وجہ تھی کہ ہمارے سلف صالحین اس پر عمل پیرا رہتے تھے۔

چنانچہ ابن ابی الدنیا نے نقل کیا ہے کہ ابو عبیدہ محصور ہو گئے اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی جانب لکھ بھیجا کہ: "انسان کو کوئی بھی تنگی لاحق ہو تو اللہ تعالی اس کے بعد فراخی بھی عطا فرما دیتا ہے، نیز ایک تنگی دوہری آسانی پر غالب نہیں آ سکتی، اور ویسے بھی اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ}
 خود بھی ڈٹ جاؤ اور دوسروں کو بھی ڈٹنے کی تلقین کرو، مورچوں میں ہمہ وقت تیار رہو اور اللہ تعالی سے ڈرو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ۔[آل عمران: 200]"

یہ ایسے واقعات ہیں جنہیں محض سننے کے لیے ہی گوش گزار مت کریں! بلکہ ہم بھی اسی طرح ان پر عمل پیرا ہوں جیسے ہمارے سلف صالحین نے عمل کر کے دکھایا، اللہ تعالی کے ساتھ مضبوط تعلق بنایا۔

مسلم اقوام:

مشکل کشائی اور پریشانیوں کے خاتمے کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ انسان کو جس وقت بہ تقاضائے بشریت نصرتِ الہی میں تاخیر ہوتی نظر آئے اور دعاؤں التجاؤں کے بعد مایوسی چھانے لگے ،قبولیت کے اثرات عیاں نہ ہوں تو پھر اپنے آپ پر نظر ثانی کرے، اور سچی توبہ کرے، مخلص ہو کر اللہ تعالی سے رجوع کرے، بندہ اللہ کے سامنے اظہار انکساری کرے ۔

مسلمانو!

ہر وقت اور ہر آن اس عظیم ذکر کی پابندی کرو؛ کیونکہ اس کے فوائد اور فضائل بہت زیادہ ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اس دھرتی پر کوئی بھی شخص : "لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ، وَسُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ"  [اللہ کے سوا کوئی معبودِ حقیقی نہیں، اللہ بہت بڑا، اللہ پاک ہے، تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، نیکی کرنے کی طاقت اور برائی سے بچنے کی ہمت اللہ کے بغیر ممکن نہیں۔]کہے تو اس کے سارے کے سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں چاہے سمندر کی جھاگ سے زیادہ ہی کیوں نہ ہوں) اسے احمد نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اسے حسن قرار دیا، جبکہ حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔

اسی طرح عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص رات کے وقت بیدار ہوا، اور اس نے یہ کہا: "لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، الحَمْدُ لِلَّهِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ"  [اللہ کے سوا کوئی معبودِ حقیقی نہیں، وہ یکتا و تنہا ہے، اسکا کوئی شریک نہیں، ساری بادشاہی اور تعریفیں اسی کیلئے ہیں، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، الحمد للہ، سبحان اللہ، اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، اللہ اکبر، نیکی کرنے کی طاقت، اور برائی سے بچنے کی ہمت اللہ کے بغیر نہیں ہے] پھر اس نے کہا: یا اللہ! مجھے بخش دے، یا کوئی اور دعا مانگی تو اس کی دعا قبول ہوگی، اور اگر وضو کر کے نماز پڑھی تو اس کی نماز بھی قبول ہوگی) بخاری

مسلم اقوام!

" لَا حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ"  عقیدہ توحید پر مبنی عظیم دعا اور ذکر ہے، اس دعا میں رب العالمین کی جانب سے سلامتی اور تحفظ کی ضمانت بھی ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ : (جو شخص گھر سے نکلتے ہوئے کہے: "بِسْمِ اللهِ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللهِ وَلَا حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ"   [اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں اور اللہ تعالی پر ہی بھروسا رکھتا ہوں، نیکی کرنے کی طاقت اور برائی سے بچنے کی ہمت اللہ کے بغیر ممکن نہیں۔]تو اسے کہا جاتا ہے: تمہارے لیے اللہ کافی ہے ،تمہیں محفوظ کر دیا گیا ہے اور تمہاری رہنمائی کر دی گئی، نیز شیطان اس سے دور ہٹ جاتا ہے) ابو داود، ترمذی

اس لیے کہ سب کچھ اللہ کے سپرد کر کے ہر چیز اللہ تعالی کے حوالے کرنا اس ذکر کا تقاضا ہے، اور یہ کہ بندے کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے، تمام معاملات کی باگ ڈور اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے، تمام مخلوقات کے امور اللہ تعالی کے فیصلوں اور تقدیر کے ساتھ منسلک ہیں، کوئی اللہ کے فیصلے کو رد نہیں کر سکتا اور کوئی بھی اس کے حکم پر نظر ثانی نہیں کر سکتا۔

اب تمہارا کام یہ ہے کہ اپنے آپ کو عبادات میں مشغول رکھو، اللہ کے قریب کرنے والے بھلائی کے کام کرو، دکھ ہو یا سکھ مختلف قسم کے اذکار خوشی غمی ہر حالت میں کرتے رہو؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ : (جس شخص کو یہ بات اچھی لگے کہ اللہ تعالی تنگی ترشی میں اس کی دعائیں قبول کرے تو وہ خوشحالی میں بھی اللہ تعالی سے ڈھیروں دعائیں کیا کرے) کیونکہ دنیا اللہ کے ذکر سے ہی خوش نما بنتی ہے، اور آخرت اللہ تعالی کی معافی کے بغیر آسودہ نہیں ہو گی، جبکہ جنت اللہ کے دیدار کے ساتھ ہی خوبصورت لگے گی۔

ہم اللہ تعالی سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور اسی پر بھروسا کرتے ہیں، "وَلَا حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ"  ۔

ایسے سچے اور مخلص مومن جو توحید پرست، حدودِ الہی کے محافظ ، اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پر گامزن ہوں انہیں اللہ تعالی کی خصوصی معیت اور نصرت حاصل ہوتی ہے، اسی معیت کے بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے:
 {إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ}
 بیشک اللہ تعالی متقی لوگوں کے اور اعلی درجے کی عبادت کرنے والوں کے ساتھ ہے۔[النحل: 128]
 ہم یہ آیت بہت بار پڑھتے تو ہیں لیکن یہ حاصل اسی کو ہو گی جو خلوت و جلوت ، خوشی اور غمی میں اللہ کا اطاعت گزار ہو۔

یہ ایسی معیت ہے اسے حاصل کرنے کے لیے مومن ہر قسم کی مشقت اور تکلیف برداشت کر لیتا ہے، ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کر گزرتا ہے، اسی معیت کی بدولت اللہ کی مدد اور نصرت حاصل کرتا ہے، تو جس کے ساتھ اللہ تعالی کی معیت اور نصرت ہو تو اس کے ساتھ ناقابل شکست قوت ہے، اس کے ساتھ ہمیشہ بیدار رہنے والا محافظ اور کبھی راہ سے نہ بھٹکنے والا رہنما ہے، اللہ تعالی ہمیں اور آپ سب کو اپنی معیت ، نصرت، حمایت اور تحفظ عطا فرمائے، بیشک اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے۔

اللہ تعالی نے ہمیں ایسے جلیل القدر عمل کا حکم دیا ہے جس سے ہمارے حالات سنور سکتے ہیں، اور وہ یہ ہے کہ ہم کثرت کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھیں، یا اللہ! ہمارے حبیب، نبی اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمتیں، برکتیں، اور سلامتی نازل فرما۔

یا اللہ! مسلمان اور مومن مرد و خواتین کو بخش دے، یا اللہ! تقوی کے ذریعے ہمارا تزکیہ نفس فرما، یا اللہ! ہمارے دلوں کو عقیدہ توحید کی بدولت پاک صاف کر دے، یا اللہ! ہمارے دلوں کو عقیدہ توحید کی بدولت پاک صاف کر دے، یا ذالجلال والا کرام!

ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما، اور آخرت میں بھی بھلائی سے نواز ، نیز ہمیں جہنم کے عذاب سے بھی محفوظ فرما۔

اللہ کے بندو! اللہ کا ڈھیروں ذکر کرو، اور صبح و شام بھی اسی کی تسبیح بیان کرو ، اور ہماری آخری دعوت بھی یہی ہے کہ تمام تعریفیں رب العالمین کے لیے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں