علم کی ابتدا ہے ہنگامہ۔۔۔۔۔ علم کی انتہا ہے خاموشی


ایک دن میری خامشی نے مجھے
لفظ کی اوٹ سے اشارہ کیا


مسلسل بولتا ہی رہتا ہوں
کتنا خاموش ہوں میں اندر سے


ہم نے اول تو کبھی اس کو پکارا ہی نہیں
اور پکارا تو پکارا بھی صداؤں کے بغیر


– یہ خاموشی،
جو اب گفتگو کے بیچ ٹھہری ہے
.یقین جانو!
یہی اک بات ساری گفتگو سے گہری ہے.


خاموشی میں چاہے جتنا بیگانہ پن ہو
لیکن اک آہٹ جانی پہچانی ہوتی ہے


خاموشی کا حاصل بھی اک لمبی سی خاموشی تھی
ان کی بات سنی بھی ہم نے اپنی بات سنائی بھی


جو سنتا ہوں سنتا ہوں میں اپنی خموشی سے
جو کہتی ہے کہتی ہے مجھ سے مری خاموشی


بے مقصد محفل سے بہتر تنہائی
بے مطلب باتوں سے اچھی خاموشی


ہر ایک بات زباں سے کہی نہیں جاتی
جو چپکے بیٹھے ہیں کچھ ان کی بات بھی سمجھو

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں