دین کی کمزوری اور اس دور میں دین پرقائم رہنے والوں کی صفات۔۔۔ خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس)


مسجد حرام کے امام وخطیب فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر فیصل بن جمیل غزاوی
جمعۃ المبارک 30 جمادی الاول 1439 ھ بمطابق 16 فروری 2018

ترجمہ: محمد عاطف الیاس

منتخب اقتباس:

تعریف اللہ ہی کے لیے ہے، ہم اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتے ہیں، اسی پر بھروسہ کرتے ہیں اور اسی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔ اپنے نفس کے شر سے اور اپنے برے اعمال سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔ جسے اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرما دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے اللہ تعالی گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اللہ کی رحمتیں اور سلامتیاں ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر اور تمام صحابہ کرام پر۔

فرمان الٰہی ہے:
’’ اے ایمان لانے والو، اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو۔ اللہ تمہارے اعمال درست کر دے گا اور تمہارے قصوروں سے درگزر فرمائے گا جو شخص اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے اُس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔‘‘ (الاحزاب: 70۔ 71)

بعد ازاں!
امام مسلم نے اپنی کتاب “صحیح مسلم” میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اسلام اپنے آغاز میں بہت کمزور تھا اور ایک وقت آئے گا کہ یہ پھر ویسا ہی کمزور ہو جائے گا۔ اس وقت دین پرقائم رہنے والوں کا بھلا ہو۔
اسی طرح سیدنا سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالئ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بے شک اسلام اپنی ابتدا میں بہت کمزور تھا اور ایک وقت آئے گا کہ یہ پھر ویسا ہی کمزور ہو جائے گا۔ اس وقت کے غرباء کا بھلا ہو۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: یارسول اللہ! اس وقت کے غرباء کون ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: جو لوگوں کی گمراہی کے دور میں بھی نیکی پر قائم رہیں گے۔ اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے

امام آجُرّی نے سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! غرباء کون ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: بگڑے معاشرے میں چند نیک لوگ ہونگے جن کی بات ماننے والے کم اور نہ ماننے والے زیادہ ہوں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی بھی ظاہر ہوگئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام اپنی ابتدا میں بہت کمزور تھا، پھر یہ نمایاں ہوگیا اور دنیا پر چھا گیا، دیندار لوگوں کو عزت ملی اور لوگ جوق درجوق دین اسلام میں داخل ہونے لگے، پھر اسلام کی کمزوری دوبارہ آگئی، کئی جگہوں پر بڑی شدت سے اس کی کمزوری محسوس ہونے لگی۔

اللہ کے بندو! دین کی کمزوری کی وجہ لوگوں میں شکوک وشبہات پیدا ہونا اور نفس کی پیروی کرنا ہے۔ لوگ ان میں یوں غرق ہوگئے ہیں کہ شیطان ان پر حاوی ہوگیا ہے، اور لوگ مخلوق کے غلام بن کر رہ گئے ہیں۔ اس طرح فتنے اور آزمائشیں بڑھتی گئیں اور حالات خراب ہوتے گئے اور چیزیں غیر واضح ہوتی گئیں، مگر پھر بھی فتنوں سے بچنے کا طریقہ اور ان سے خلاصی کا راستہ بالکل واضح اور معلوم ہے۔

فرمان نبوی ہے:
نیک اعمال کے ذریعے ان فتنوں کا مقابلہ کرو جو بالکل رات کے سیاہ حصے جیسے ہونگے۔ جن میں انسان صبح مومن اور رات کو کافر، اور رات کو مومن اور سب وہ کافر ہو جائے گا۔ وہ اپنے دین کو دنیا کے تھوڑے بہت فائدے کیلئے بیچ ڈالے گا۔ اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

اے مسلمانو!
اہل ایمان کو کمزوری کا سامنا کرانے میں ایک بڑی پوشیدہ حکمت ہے، اور وہ یہ ہے کہ اچھے اور برے کو الگ الگ کر لیا جائے، سچے اور جھوٹے کو جان لیا جائے اور اہل ایمان کو منافقین سے الگ کر لیا جائے۔ 

فرمان الٰہی ہے:
’’کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ “ہم ایمان لائے ” اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ (2) حالاں کہ ہم اُن سب لوگوں کی آزمائش کر چکے ہیں جو اِن سے پہلے گزرے ہیں اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچّے کون ہیں اور جھوٹے کون۔‘‘ (العنکبوت: 2 3)

شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دین کی کمزوری کے وقت اس پر قائم رہنے والے نقصان میں ہونگے، بلکہ وہ خوش نصیب ترین لوگ ہوں گے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ ان کا بھلا ہو۔
حدیث کے الفاظ ہیں: ان لوگوں کے لئے طوبیٰ ہے۔ اور طوبی کا لفظ نیکی اور پاکیزگی سے ماخوذ ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ وہ لوگ ان لوگوں کی طرح ہوں گے جنہوں نے دین کی ابتدا میں اس کا ساتھ دیا تھا اور وہ لوگ بھی سعادت مند ترین لوگ ہیں۔

اے میرے بھائیو!
ایسے لوگوں کو ممتاز کرنے والی چند صفات ہمیں ملتی ہیں جو ان کی نیکی، ثابت قدمی، بلند ہمت اور پختہ ارادے کو ظاہر کرتی ہیں۔
ان کے حوالے سے آنے والی احادیث میں سے ایسے لوگوں کی چند صفات ملتی ہیں:
ایک یہ کہ جب لوگ سنت کو چھوڑ دیں گے اور بدعتیں گھڑ لیں گے تو یہ لوگ سنت رسول پر قائم اور لوگوں کی بنائی ہوئی بدعتوں سے دور رہیں گے۔ یھی وہ لوگ ھیں جن کی مثال آگ کے کوئلے کو ہاتھ میں لینے والے کی سی ہے۔ کیونکہ یہ معاشرے میں بہت کم ہیں اور عام برای میں ان چند نیک لوگوں کو غلطی پر سمجھا جاتا ہے۔ مگر ان کے لیے دین پر ثابت قدمی کا شرف اور اللہ سے ملنے والا عظیم اجر ہی بہت ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ایسے دن آنے والے ہیں کہ جن میں دین پر قائم رہنا ایسا مشکل ہوگا، بالکل ویسا جیسا اپنی مٹھی میں آگ کا کوئلہ رکھنا۔ ان دنوں میں نیک اعمال کرنے والے کو آپ جیسے پچاس لوگوں کا اجر ملے گا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہمارے پچاس لوگوں کا یا اس دور کے پچاس لوگوں کا؟ آپ نے فرمایا: نہیں! بلکہ آپ کے پچاس لوگوں کا۔ اسے امام ترمذی اور امام ابو داؤد اور امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

احادیث میں آنے والی ان لوگوں کی صفات میں ایک صفت یہ بھی ہے کہ جب لوگوں میں برائی عام ہو جائے گی تو وہ حق پر قائم رہیں گے، دین کو مضبوطی سے تھامے رکھیں گے اور اللہ کی اطاعت پر اور دین پر ثابت قدم رہیں گے۔
اسی طرح وہ ان چیزوں کی اصلاح کرنے کی بھی کوشش کریں گے جنہیں لوگوں نے اپنی بدعتوں کی وجہ سے خراب کیا ہوگا۔ زمین میں فساد پھیلانے سے منع کریں گے۔

لوگوں کی عدم توجہ سے وہ حق سے دور نہیں ہوں گے بلکہ وہ برابر اس پر قائم رہیں گے اور اس کی طرف بلاتے رہیں گے۔

احادیث میں آنے والی صفات سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کی کمزوری کے وقت اس پر قائم رہنے والے لوگ محض اپنے آپ میں ہی نہیں ہوتے، بلکہ وہ اصلاح کرنے والے بھی ہوتے ہیں، ان میں بصیرت اور سمجھداری پائی جاتی ہے اور وہ دعوت و تبلیغ کرنے والے ہوتے ہیں۔ وہ لوگوں کے اعتراضات کو دیکھتے ہوئے مایوس ہوکر معاشرے سے الگ ہوکر صرف اپنے لئے جینے اور اپنا خیال رکھنے میں مصروف نہیں ہو جاتے، بلکہ وہ پیغام دینے والے ہوتے ہیں اور لوگوں کو دین کی طرف لانے کے لیے ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھے رہتے ہیں۔

وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو اپنا رہبر مانتے ہیں کہ:
لوگوں کے ساتھ گھل مل جل کر ان کی اذیتیں برداشت کرنے والا مومن، ان سے الگ ہوجانے والے اور ان کی اذیتوں پر صبر نہ کرنے والے مومن سے بہتر ہے۔

 فرمان الٰہی ہے:
’’تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ناحق تباہ کر دے حالانکہ ان کے باشندے اصلاح کرنے والے ہوں۔‘‘ (ہود: 117)
جب زینب بنت جحش رضی اللہ تعالئ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ پوچھا تھا کہ اے اللہ کے رسول! کیا نیک لوگوں کی موجودگی میں بھی ہمیں ہلاک کر دیا جائے گا؟ تو آپ نے فرمایا تھا: جی ہاں! اگر برائی غالب آگئی! اسے امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب کے رکنے کی وجہ اور ہلاکت سے لوگوں کی حفاظت کی وجہ محض نیک لوگوں کی موجودگی نہیں بلکہ اصلاح کا کام کرنے والوں کی موجودگی ہے۔ چنانچہ انسان کو چاہیے کہ وہ خود بھی صالح ہو اور دوسروں کی بھی اصلاح کرتا رہے۔

الحمداللہ ہماری امت میں ابھی بہت خیر موجود ہے۔ اگرچہ حالات ویسے نہیں رہے اور اختلافات پھیل گئے ہیں، مگر ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ ابھی تک موجود ہیں جو دین اسلام کی خدمت میں لگے ہیں اور جو اسلام کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ ان کا شعار ہے کہ اگر دین کی خدمت میں نہیں کروں گا تو اور کون کرے گا!
ایسے لوگ اس چیز کا انتظار نہیں کرتے کہ دوسرے اٹھ کر دین کی خدمت کریں اور نہ وہ دوسروں سے یہ مطالبہ ہی کرتے ہیں کہ وہ امت کے لئے اور دعوت کے کام کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، بلکہ وہ خود پیش قدمی کرنے والے ہوتے ہیں اور وہ اپنے آپکو دین کا رکھوالا سمجھتے ہیں۔

اللہ کے بندو! بعض لوگ دین کی کمزوری کے حوالے سے آنے والی احادیث کو سمجھنے میں غلطی کرتے ہیں۔ جب وہ فتنوں کے متعلق آنے والی احادیث سنتے ہیں جیسے:
ہر آنے والا سال پچھلے سال سے برا ہوگا۔
اور دوسری حدیث کہ جس میں آپ نے فرمایا:
تم میں سے جسے زندگی ملے گی وہ بہت سارے اختلافات دیکھے گا۔
بعض لوگ ان احادیث سے یہ مطلب لے لیتے ہیں کہ امت کو تو کمزوری کی طرف جانا ہی ہے اور اسے کمزوری سے نکالنے کے لیے جدوجہد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، بلکہ بزدلی کے ساتھ پستی اور ذلت کی زندگی گزارتے رہنا چاہیے۔

ایسے لوگوں کے ذہنوں سے دوسری احادیث اوجھل رہتی ہیں کہ جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی عزت اور روشن مستقبل کی طرف اشارہ کیا ہے۔
جیسا کہ آپ کا فرمان ہے:
میری امت کا ایک گروہ حق پر قائم رہے گا، ان کی مخالفت کرنے والوں کا انہیں کچھ نقصان نہ پہنچے گا یہاں تک کہ جب اللہ کا حکم آئے گا تو وہ اسی حالت میں ہوں گے۔ اسے امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح آپ کا فرمان ہے:
اللہ تعالی اس امت کے لیے ہر ایک سو سال کے بعد ایک ایسا شخص بھیجتا ہے جو اس کے دین کی تجدید کردیتا ہے۔ اسے امام ابو داود نے روایت کیا ہے۔

اے مسلمان معاشرے کے لوگو!
امت کو درپیش مسائل، مصیبتیں اور آزمائشیں اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے ایک تنبیہ ہیں، تاکہ لوگ اپنی نیند سے اٹھ جائیں اور وہ اپنی غفلت سے نکل آئیں۔ کیونکہ اس امت کو بیماری کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، اس کے احوال بگڑ سکتے ہیں، فتنے آسکتے ہیں اور اس کی آزمائش سخت ہو سکتی ہے جیسا کہ ہم آج دیکھ رہے ہیں، لیکن ایسا ہرگز ممکن نہیں ہے کہ یہ امت مکمل طور پر ختم ہو جائے یا ساری امت کو ہلاک کردیا جائے، بلکہ یہ امت ہمیشہ قائم رہنے والی ہے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کے متعلق فرمایا ہے:
’’دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔‘‘ (آل عمران: 110)

اے میرے بھائیو!
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جب مشرکین نے مدینہ منورہ کا محاصرہ کر لیا تھا اور وہ مدینہ کو تباہ کرنے کے لیے آ گئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کھود کر مدینہ کی حفاظت کا انتظام کیا اور ان سخت دنوں، تنگیوں اور پریشانیوں میں بھی لوگوں کے ساتھ قیصر و کسریٰ کے خزانوں کا وعدہ کیا۔ یہ بشارت سن کر اہل ایمان کے دل مطمئن ہو گئے اور ان کے دلوں میں امید کی کرنیں پھیل گئیں۔ فرمان الٰہی ہے:
’’اللہ نے کفار کا منہ پھیر دیا، وہ کوئی فائدہ حاصل کیے بغیر اپنے دل کی جلن لیے یونہی پلٹ گئے، اور مومنین کی طرف سے اللہ ہی لڑنے کے لیے کافی ہو گیا، اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔‘‘ (الاحزاب: 25)
پھر اللہ تعالی نے اس حکومت کو بہت عزت عطا فرمائی، یہ تمام رکاوٹیں پار کرتی ہوئی فتح پر فتح حاصل کرتی گئی، خلفائے راشدین کے دور میں، بنو امیہ اور بنو عباس کے دور میں فتوحات کا سلسلہ جاری رہا۔ پھر امت اسلام کو ایک بڑے سانحے کا سامنا ہوا اور بغداد میں ایک بڑے قتل عام ہوا۔ بغداد کی گلیوں میں خون بہنے لگا اور تاریخ نگار شہداء کی تعداد میں مختلف آراء کا اظہار کرنے لگے۔ کچھ نے تو آٹھ لاکھ شہید کا ذکر کیا ہے۔
اس واقعہ کے بعد لوگوں میں بے چینی پھیل گئی اور اور ان کی ہمت ٹوٹ گئی۔ انہوں نے سمجھا کہ توحید کا علم اب گر گیا ہے، اور اسلام کی تلوار اب ٹوٹ گئی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کیا آج کے بعد اسلام دوبارہ نہ اٹھے گا، مگر چند ہی سال گزرے اور امت کا زندہ دل پھر سے دھڑکنے لگا اور اس کی روح پھر سے حرکت میں آگئی، اور اس کی ہمت پھر بلند ہو گئی اور پھر کمزوری کی جگہ طاقت نے لے لی اور ذلت کی جگہ عزت نے لے لی، اور مسلمانوں نے بت پرست تاتاریوں کو شکست دی اور لوگوں کی یہ بات بھی غلط ثابت ہوئی کہ تاتاریوں کی فوج کو کبھی ہرایا نہیں جاسکتا۔

پھر چند سالوں کے بعد صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا اور صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کرلیا، بہت لوگوں کو قتل کیا اور اتنے لوگوں کو قیدی بنایا کہ ان کی تعداد اللہ ہی جانے! مگر پھر کچھ عرصہ نہ گزرا تھا کہ اللہ تعالی نے اس امت کو صلاح الدین ایوبی سے نوازا، ہر چیز اپنی جگہ پر آ گئی، اسلام کی مقدسات محفوظ ہو گئیں اور باغی دشمن ہلاک ہوگیا۔

تاریخ ثابت کرتی ہے کہ جب بھی امت کے اندر کمزوری آتی ہے تو اس کمزوری کے بعد تجدیدی لہر ضرور پھیلتی ہے اور مجدد ائمہ اور مصلح علماء نکل آتے ہیں۔

بعد ازاں!
اہل اسلام کے ہاں یہ بات طے شدہ ہے کہ اللہ تعالی نے دین اسلام کی حفاظت اپنے ذمہ لی ہے، تاکہ لوگوں پر حجت قائم رہے۔ فرمان الٰہی ہے:
’’رہا یہ ذکر، تو اِس کو ہم نے نازل کیا ہے اور ہم خود اِس کے نگہبان ہیں۔‘‘ (الحجر: 9)
اسی طرح فرمایا:
’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اُس کو پوری جنس دین پر غالب کر دے اور اِس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔‘‘ (الفتح: 28)

یہ غلبہ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور ہی میں نہیں تھا بلکہ یہ ہر زمانے میں ہے۔

ہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالی اس دین میں ایسے لوگوں کے بیج ضرور بوتا رہتا ہے جن سے وہ دین کی خدمت کراتا ہے۔ اسے امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
یہ حدیث اس چیز پر دلالت کرتی ہے کہ یہ دین ہمیشہ محفوظ رہے گا۔ چاہے وقتی طور پر حق کے آثار مٹ جائیں اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ختم ہوجائے اور دین کمزور ہو جائے، مگر یہ یقینی طور پر دین پھر سے توانا ہو کر مزید تیزی کے ساتھ دوبارہ پھیلتا ہے۔

بعض اہل علم نے تو دین کی کمزوری والی حدیث کو بشارت کے طور پر لیا ہے۔ جس میں آپ نے فرمایا ہے: دین اپنی ابتدا میں بہت کمزور تھا اور یہ دوبارہ ویسا ہی ہو جائے گا۔ اہل علم فرماتے ہیں یعنی جس طرح پہلی کمزوری کے بعد اسے عزت اور طاقت نصیب ہوئی ہے اسی طرح دوسری کمزوری کے بعد بھی اسے عزت اور غلبہ نصیب ہوگا۔

ایسی احادیث سے دلوں میں امید پیدا ہو جاتی ہے اور ان لوگوں کو تسلی ملتی ہے کہ جو مسلمانوں کی مصیبتیں دیکھ کر رنجیدہ اور مایوس ہو جاتے ہیں۔ ان بشارتوں سے ان لوگوں کے دلوں میں یقین مضبوط ہو جاتا ہے اور دین پر عمل کرنے کے لیے ہمتیں بلند ہو جاتی ہیں۔

دشمنان دین اس کے ساتھ کتنی ہی جنگ کیوں نہ کر لیں، اسے روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور کیوں نہ لگا لیں، اہل اسلام کو اذیت دینے کی کتنی کوشش کیوں نہ کر لیں، مگر پھر بھی یہ دین کبھی نہ رکے گا، اس کا نور پھیل کر رہے گا، اس کا اثر لوگوں پر ظاہر ہو کر رہے گا اور جب تک یہ دن اور رات کا نظام قائم ہے اس وقت تک یہ دین موجود رہے گا۔ فرمان نبوی ہے:
یہ دین وہاں وہاں تک پہنچے گا جہاں جہاں تک دن کی روشنی اور رات کی تاریکی پہنچتی ہے۔ اللہ تعالی کوئی کچا یا پکا گھر ایسا نہ چھوڑے گا کہ جس کے اندر یہ دین داخل نہ ہو۔ چاہے اس کے لیے کسی عزت والے کو عزت ملے یا ذلیل کو رسوائی ملے۔ اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔

اے امت محمد!
اپنے دلوں میں اس یقین کو مضبوط کر لیجئے کہ اللہ کا دین غالب ہو کر رہے گا، اللہ تعالی اپنے بندوں کی نصرت ضرور فرمائے گا، دین کی یہ کمزوری عارضی کمزوری ہے۔ دین پر قائم رہو اور اسکے احکام بجا لاؤ اور دین کے مددگار بنو۔
اے حق کی طرف بلانے والو! معاشرے کی اصلاح، حق کی طرف بلانے اور لوگوں کو اپنے دین سے آگاہ کرنے کی مزید کوشش کرو مگر حکمت اور اچھے طریقے سے۔

اے اصلاح کرنے والو! اے تربیت کرنے والو! اپنی اولاد کا خاص خیال رکھو! انہیں صحیح عقیدہ توحید سے کھاؤ، درست منہج پر لاؤ، غلط اعتقادات اور غیر صحیح تصورات سے روکو۔ گمراہ کن افکار اور راہ راست سے ہٹے ہوئے منہج کی روک تھام کرو۔ لوگوں کو دین اسلام کی فضیلتوں کی طرف بلاؤ اور انہیں برائیوں اور گناہوں سے دور کرنے کی کوشش کرو۔
اے امت کے نوجوان لڑکو اور لڑکیو! دین اسلام پر فخر کرو، اس کی میانہ روی اور اعتدال پر مبنی تعلیمات پر عمل کرو، دین سے دور نہ جاؤ اور اسکی راہ چھوڑ کر دوسری راہ نہ اپناؤ۔ ایسا نہ ہو کہ تم دین کی کمزوری کا سبب بن جاؤ۔
اے مسلمان عورتو!
یاد رکھو کہ دین اسلام نے آپ کو بہت بلند مقام دیا ہے، دین اسلام کی آسان تعلیمات پر عمل کرتے رہو، اس کے بہترین اخلاق اپنائے رکھو، تربیت اور اصلاح میں اپنا کردار ادا کرتی رہو، گمراہی اور خواہشات نفس کی طرف بلانے والوں سے چوکنی رہو۔
اللہ کے بندو!
میں اللہ کی قسم دے کر آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا اگر ہر باپ، ہر ماں، ہر تربیت دینے والا، ہر استاد اور ہر ذمہ دار اپنی ذمہ داریاں مکمل طریقہ سے ادا کرے اور اپنے سر پر ڈالی جانے والی امانت صحیح طرح ادا کرے تو کیا ہمیں ایسی بیماریاں نظر آئیں گی جیسی ہمیں آج معاشرے میں نظر آ رہی ہیں؟ کیا ہم میں سے ہر ایک نے اپنا کردار ادا کیا ہے، کیا ہر کوئی اللہ تعالی کے سامنے اپنی ذمہ داری کے حوالے سے سرخرو ہو سکتا ہے؟ ہر انسان خود اپنا محاسبہ بہتر طریقے سے کر سکتا ہے، اور ہر کوئی اپنے آپ کو بہتر جانتا ہے اور اللہ تعالی سب پر غالب ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں