ایک عورت کہتی ہے . “زن مرید ہے“ دوسری عورت بولتی ہے “ماں کا مرید ہے“.ایک عورت دوسری عورت کو اس کا پیر و مرشد بنا دیتی ہے.عورت کی فطرت بھی عجیب ہے. بیٹا کنوارہ ہوتا ہے تو دن رات اس کے سر پہ سہرا سجانے کے خواب دیکھتی ہے بہو لانے کے سپنوں میں کھوئی رہتی ہے خیالوں ہی خیالوں میں پوتے پوتیوں سے کھیلتی ہے .
مرنے سے پہلے اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے کہ بیٹے کا گھر بسائے . بیٹا شادی پر راضی نہ ہو تو ضد سے کھانا پینا چھوڑ دیتی ہے . بالآخر سہرا سجا دیا جاتا ہے ارمان پورے ہو جاتے ھیں۔ بہو آجاتی ہے تب اس کے اندر ایک نئی عورت جنم لیتی ہے . بیٹے کے ساتھ بہو کو بیٹھے دیکھتی ہے تو تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے، طعنے کوسنے اور زہریلے جملے تخلیق کرنے لگتی ہے پہل اکثراس کی طرف سے ہوتی ہے جو بہو کے ارمان میں پاگل ہوئی جا رہی تھی۔ وہ نئی آنے والی کچھ دن تو اپنا قصور تلاش کرنے میں لگی رہتی ہے تب اسے اپنے جرم کا پتہ چلتا ہے، اسے معلوم ہوتا کہ ایک عورت ہونا ہی دوسری عورت کی نظر میں اس کا اصل جرم ہے تب وہ اپنے اس جرم پر ڈٹ جاتی ہے قانونی طور پر کیونکہ مرد اس کی ملکیت ہوچکا ہوتا ہے۔
تو وہ اپنی اس ملکیت کو اپنی ذات کی حد تک محدود کرنے کی فکر میں لگ جاتی ہے، جس نے پیدا کیا ہوتا ہے اس کے لئے ناقابل برداشت ہوتا ہے کہ وہ اپنی تخلیق کو صرف دو کلموں کے عوض دوسری کو سونپ دے۔ تب۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ بغیر اس بات کو سوچے کہ ملکیت کی اس جنگ میں وہ کس کرب سے گزر رہا ہے جو دونوں کے بغیر نہیں رہ سکتا ، مکرو فریب کا ایسا سٹارپلس گھر میں آن ائیر ہونے لگتا ھے جس کی ہر قسط اسے ذہنی مریض بنا کر رکھ دیتی ہے۔ ایک جملہ اس کے کانوں میں تواتر کے ساتھ انڈیلا جاتا ہے کہ "انصاف کرو"۔ سو موٹو ایکشن لینے کا مطالبہ بہن بھائیوں اور سسرالیوں کی جانب سے کیا جانے لگتا ہے۔
” ماں کی شان” سنانے والے اسے قدموں میں جنت تلاش کرنے پر لگانے کی سرتوڑ کوششیں کرنے لگتے ہیں اور بیوی کے حقوق کے “علمبردار” اس کے لیے انصاف نہ کرنے کی صورت میں آخرت کے عذابوں سے ڈرانے لگتے ہیں۔ پھر ایک دن۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ انصاف کے مطالبوں سے تنگ آکر یا تو جنت پانے کے چکر میں ایک کے ہاتھ میں طلاق تھما دیتا ہے ، یا بیوی کے حقوق کے تحفظ میں ماں کی گستاخی پر اتر آتا ہے اور اگر ان دونوں کے ساتھ “انصاف” نہ کر سکے تو گلے میں رسی ڈال کر “منصف” کا ہی انصاف کر دینے پر مجبور ہو جاتا ہے
ان تینوں انتہائی اقدام کے بعد ایک عورت کی طرف سے بغیر ضمیر کی خلش سے کہہ دیا جاتا ہے” میں نے تو ایسا کرنے کا نہیں کہا تھا، میں نے تو صرف اتنا ہی کہا تھا کہ انصاف کرو”
۔نوٹ : یہ تحریر ہر گھر اور ہر فرد پر لاگو نہیں ہوتی معاشرہ اچھے اور برے لوگوں سے بھرا ہوتا ہے ۔ جہاں برے ہوتے ہیں وہ اچھے بھی ہوتے ہیں بس اپنا اپنا ضمیر زندہ ہونا چاہئیے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں