طاغوت کا انکار


"*طاغوت* لغت کے اعتبار سے ہر اس شخص کو کہا جائے گا جو اپنی جائز حد سے تجاوز کر گیا۔ قران کی اصطلاح میں طاغوت سے مراد وہ بندہ ہے جو بندگی کی حد سے تجاوز کر کے خود آقائی و خداوندی کا دم بھرے اور خدا کے بندوں سے اپنی بندگی کرائے۔

خدا کے مقابلے میں ایک بندے کی سرکشی کے تین مرتبے ہیں:

پہلا مرتبہ یہ ہے کہ بندہ اصولاً اس کی فرمانبرداری ہی کو حق مانے، مگر عملاً اس کے احکام کی خلاف ورزی کرے۔ اس کا نام *فسق* ہے۔

دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ اس کی فرمابرداری سے اصولاً منحرف ہو کر یا تو خود مختار بن جائے، یا اس کے سوا کسی اور کی بندگی کرنے لگے، یہ *کفر* ہے۔

تیسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ مالک سے باغی ہو کراس کے ملک اور اس کی رعیت میں خود اپنا حکم چلانے لگے۔ اس آخری مرتبے پر جو بندہ پہنچ جائے اس کا نام *طاغوت* ہے۔
اور کوئی شخص صحیح معنوں میں اللّه کا مومن نہیں ہو سکتا , جب تک کہ وه اس طاغوت کا منکر نہ ہو.

"..اب جو کوئی طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا، اُس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں، اور اللہ (جس کا سہارا اس نے لیا ہے) سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے. 
جو لوگ ایمان لاتے ہیں، اُن کا حامی و مددگار اللہ ہے اور وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں، اُن کے حامی و مدد گار طاغوت ہیں اور وہ انہیں روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں یہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں، جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے"

(سورة البقره, آیت: 256-257)

یہاں تاریکیوں سے مراد جہالت کی تاریکیاں ہیں،جن میں بھٹک کر انسان اپنی فلاح و سعادت کی راہ سے دور نکل جاتا ہے اور حقیقت کے خلاف چل کر اپنی تمام قوتوں اور کوششوں کو غلط راستوں میں صرف کرنے لگتا ہےـ 
اور نور سے مراد علمِ حق ہے جس کی روشنی میں انسان اپنی اور کائنات کی حقیقت اور اپنی زندگی کے مقصد کو صاف صاف دیکھ کر علٰی وجہ البصیرت ایک صحیح راہ عمل پر گامزن ہوتا ہے.

"طاغوت" یہاں اس آیت میں *طواغیت* کے معنٰی میں استعمال کیا گیا ہے.یعنی خدا سے منہ موڑ کر انسان ایک ہی طاغوت کے چُنگل میں نہیں پھنستاـ بلکہ بہت سے طواغیت اس پر مسلّط ہو جاتے ہیں ـ ایک طاغوت شیطان ہےـ جو اس کے سامنے نت نئی جھوٹی ترغیبات کا سدا بہار سبز باغ پیش کرتا ہےـ دوسرا طاغوت آدمی کا اپنا نفس ہے، جو اسے جذبات و خواہشات کا غلام بنا کر زندگی کے ٹیڑھے سیدھے راستوں میں کھینچے کھینچے لیے پھرتا ہے. اور بےشمار طاغوت باہر کی دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں. بیوی اور بچّے، اَعِزّو اور اقربا، برادری اور خاندان، دوست اور آشنا، سوسائٹی اور قوم، پیشوا اور رہنما، حکومت اور حکّام، یہ سب اس کے لئے طاغوت ہی طاغوت ہوتے ہیں، جن میں سے ہر ایک اس سے اپنی اغراض کی بندگی کراتا ہے اور بےشمار آقاؤں کا یہ غلام ساری عمر اسی چکر میں پھنسا رہتا ہے کہ کس آقا کو خوش کرے اور کس کی ناراضی سے بچے.

آیت میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ مومن کا حامی و مددگار اللہ ہوتا ہے اور وہ اسے تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے، اور کافر کے مددگار طاغوت ہوتے ہیں جو اسے روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں. اب اسی کے لئے تین واقعات مثال کے طور پر پیش کئے جارہے ہیں، ان میں سے پہلی مثال اس شخص کی ہے، جس كے سامنے واضح دلائل كے ساتھ حقيقت پيش كى گئی اور وه اس كے سامنے لا جواب بھی ہو گيا. مگر چونکہ اس نے طاغوت کے ہاتھ میں اپنى نكيل دے ركهى تھی, اس ليے وضوحِ حق کے بعد بھی وه روشنى ميں نہ آیا اور تاریكيوں میں ہی میں بهٹکتا ره گيا. 

بعد كى دو مثاليں ايسے اشخاص كى ہیں ، جنہوں نے اللہ کا سہارا پکڑا تها، سو اللّه ان كو تاریكيوں سے اس طرح روشنى میں نكال لايا کہ پرده غيب میں چھپى ہوئی حقیقتوں تک کا ان كو عينى مشاہده کرا ديا.

اب آپ دیکھیں کہ آپ پر کون کون سے طاغوت مسلط ہیں, یا یہ کہ آپ نے خود مسلط کر لیے ہیں. 

تو پہلے طاغوت سے انکار. اور اسکے بعد الله پر ایمان کا اقرار.

اب مجھے دیکھنا ہے کہ میں کس کا بتایا لائف سٹائل اپناؤں گی. کس کے *ڈووز اینڈ ڈونٹس* فالو کروں گی. 

اب دل کی خدائی, دل کی حکمرانی جو خیر باد کہ دیں.
یہ نہیں کہ *دل نہیں چاه رہا*. ارے بھائی دل اب اپنا کہاں رہا. یہ تو اسلام میں داخلے پر الله کو دے دیا. سب تو الله کے غلام بننا ہے. الله کے *روبوٹ*. اپنی مرضی ختم. صحابہ الله کے روبوٹس تھے. ہم نے بھی نبیؐ اور انکے صحابہ کو آئیڈیل بنا کر انکی کاپی بننا ہے. من و عن !! اپنی مرضیاں نہیں چلانی.

ڈاکٹر بنت اسلام کے ناول "غرباء" سے انتخاب

2 تبصرے: