سیدنا بلال رضی اللہ عنہ اور ہمارے حالات۔۔۔ خطبہ جمعہ مسجد نبوی

خطبہ جمعہ مسجد نبوی
ترجمہ: شفقت الرحمان مغل

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد اللہ بن عبد الرحمن بعیجان حفظہ اللہ نے 07-صفر- 1439 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان "سیدنا بلال رضی اللہ عنہ  اور ہمارے حالات" ارشاد فرمایا انہوں نے کہا کہ امت کو در پیش مسائل در حقیقت امتحان اور کامیابی کا زینہ ہیں ایسے سخت حالات میں قیادت تیار ہوتی ہے، اور یہ قانون الہی ہے کہ اللہ تعالی سنگین بحرانوں میں اچھے برے کا امتیاز سب کے سامنے رکھ دیتا ہے، ماضی بعید میں دین کی وجہ سے لوگوں کو آرے سے چیر دیا جاتا تھا لیکن پھر بھی اس کے دین میں ذرہ برابر کمی نہ آتی تھی۔ اسی کا عملی نمونہ پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے بھی اسی قسم کی مشکلات جھیلیں اور پھر مکہ میں جس جگہ پر انہیں تپتی دھوپ میں سزائیں دی جاتی تھیں اور جس کلمے کی بنا پر دی جاتیں تھیں وہی کلمہ انہوں نے فتح مکہ کے موقع پر بہ بانگ دہل کعبہ کی چھت پر چڑھ کر کہے اور ان کے یہ کلمات مشرکوں کا سینہ چیر گئے، پھر جو شخص سیدنا بلال کو طرح طرح کی سزائیں دیتا تھا اسی کو جنگِ بدر میں اپنے ہاتھوں سے داستانِ ماضی بھی بنایا، انہوں نے کہا کہ: بلال رضی اللہ عنہ کی آواز میں اذان سننے کے لیے مسلمان بے تاب رہتے تھے، کیونکہ آپ کی آواز صحابہ کرام کو عہد نبوی میں لے جاتی تھی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بیت المقدس یعنی قبلہ اول کی فتح کے موقع پہ بلال رضی اللہ عنہ سے ہی اذان دلوائی، اس طرح بلال دونوں قبلوں کے مؤذن بن گئے، بلکہ اس سے بڑھ کر بلال رضی اللہ عنہ کے قدموں کی آہٹ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت میں سنی اور انہیں دنیا میں ہی جنت کی خوش خبری سنائی، یہ سب کچھ بلال کو بہت بڑی بڑی قربانیوں کے بعد ہی ملا، چنانچہ اگر ہم بھی سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی طرح دین اسلام اور نبی رحمت سے سچی محبت کریں تو کامیابی ہمارے قدم چوم سکتی ہے، پھر آخر میں انہوں نے جامع دعا فرمائی۔

خطبے سے منتخب اقتباس پیش ہے:

سب سے سچا کلام قرآن مجید ہے، سب سے افضل ترین طرزِ زندگی جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، بد ترین امور بدعات ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی آگ میں لے جانے والی ہے،
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ}
 اے ایمان والو! اللہ سے ایسے ڈرو جیسے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت صرف اسلام کی حالت میں ہی آئے۔[آل عمران : 102]

اللہ کے بندو!

امت اسلامیہ آج جن فتنوں ، آزمائشوں، مصیبتوں اور مسائل سے گزر رہی ہے، دشمن مسلمانوں پر مسلط ہیں؛ یہ در حقیقت واضح فتح اور کامیابی کےلیے امتحان اور چھان پرکھ کا پیش خیمہ ہے، یہ اللہ کے حکم سے غلبے اور فتح کا پہلا زینہ ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {مَا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتَّى يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ}
 جس حال میں تم ہو اسی پر اللہ ایمان والوں کو نہ چھوڑے گا جب تک کہ پاک اور ناپاک الگ الگ نہ کر دے۔ [آل عمران: 179]

اسی طرح فرمایا: 
{أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ} 
کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ یوں ہی جنت میں داخل ہو جاؤ گے! حالانکہ تمہیں ابھی وہ مصائب پیش ہی نہیں آئے جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں کو پیش آئے تھے۔ ان پر اس قدر سختیاں اور مصیبتیں آئیں جنہوں نے ان کو ہلا کے رکھ دیا۔ حتی کہ خود رسول اور ان کے ساتھ ایمان لانے والے سب پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی ؟ سن لو ! اللہ کی مدد قریب ہے۔ [البقرة: 214]

مسلم اقوام!

زمانہ قدیم میں ایک شخص کو پکڑ کر لایا جاتا اور اسے زمین میں گاڑ دیا جاتا تھا، پھر آرا لا کر اس کے سر پہ رکھ کے اسے دو حصوں میں چیر دیا جاتا تھا؛ لیکن اس کے باوجود بھی وہ اپنے دین سے نہ پھرتا، لوہے کی کنگھیوں سے اس کا گوشت ہڈیوں سے جدا کر دیا جاتا تھا، لیکن اس طرح وحشیانہ اور اذیت ناک سزائیں بھی اسے اس کے دین سے موڑنے میں کامیاب نہ ہوتیں۔

اللہ کے بندو!

ابتدا میں جن لوگوں نے اعلانیہ اسلام قبول کیا تھا ان کی تعداد صرف سات تھی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابو بکر ، عمار، عمار کی والدہ سمیہ، صہیب، بلال اور مقداد رضی اللہ عنہم جمیعاً ۔ ان میں سے اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے چچا ابو طالب کی پشت پناہی عطا فرمائی، جبکہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کا ان کے قبیلے نے دفاع کیا، لیکن بقیہ لوگوں کو مشرکوں نے پکڑ کر سخت اور شدید ترین عذاب سے دو چار رکھا، ان میں سے بلال رضی اللہ عنہ کے علاوہ ہر ایک کی زبان سے ایسے کلمات جاری ہوئے جو مشرکین چاہتے تھے ، لیکن بلال رضی اللہ عنہ نے غیر مناسب کلمات نہ کہنے کی وجہ سے راہِ الہی میں بڑی تکلیفیں اٹھائیں، بلال رضی اللہ عنہ پر مشرکوں نے ظلم کی کوئی کسر نہ چھوڑی، مشرکین نے انہیں خوب سزائیں اور تکلیفیں دیں کہ شاید بلال اپنے دین کو چھوڑ دے، لیکن بلال رضی اللہ عنہ نے ان کی سزاؤں سے بھی بڑھ کر پامردی اور چٹان جیسی ثابت قدمی کا ثبوت دیا، اس پر کافروں نے آپ کو مزید سزاؤں سے دو چار کیا، بلال رضی اللہ عنہ کا آقا امیہ بن خلف آپ کو مکے کی دوپہر کے وقت جھلساتی دھوپ میں گھر سے نکالتا اور مکہ کے سنگ ریزوں پر کمر کے بل لٹا کر بلال رضی اللہ عنہ کے سینے پر بھاری پتھر رکھنے کا حکم دے دیتا اور کہتا: "توں موت تک اسی طرح سزا جھیلتا رہے گا، یا توں محمد پہ ایمان سے انکار کر دے" امیہ یہ بھی کہتا تھا کہ: "او ذلیل غلام! تیری وجہ سے ہم پر کیا نحوست آن پڑی ہے! اگر توں نے ہمارے معبودوں کا اچھے لفظوں میں تذکرہ نہ کیا تو میں تمہیں دیگر غلاموں کیلیے نشان عبرت بنا دوں گا" امیہ کی ان دھمکیوں پہ بلال رضی اللہ عنہ بڑی جرأت اور پامردی سے کہتے ہیں: "میر ا رب اللہ ہے، وہ ایک ہے، وہ ایک ہے۔ اگر میرے علم میں تمہارے لیے اس سے بھی ناگوار کوئی جملہ ہوتا تو میں وہ بھی کہہ دیتا"

جب جان سوزی اور اذیت ناکی اپنی انتہا کو پہنچی تو آسانی بھی آ گئی، چنانچہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے انہیں خرید کر رضائے الہی کےلیے آزاد کر دیا، آپ کے اسی عمل کے متعلق اللہ تعالی کا یہ فرمان نازل ہوا:
 {وَسَيُجَنَّبُهَا الْأَتْقَى (17) الَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّى (18) وَمَا لِأَحَدٍ عِنْدَهُ مِنْ نِعْمَةٍ تُجْزَى (19) إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلَى (20) وَلَسَوْفَ يَرْضَى}
 اور جو بڑا پرہیز گار ہوگا اسے جہنم سے دور رکھا جائے گا [17]جس نے پاک ہونے کےلیے اپنا مال دیا [18] اس پر کسی کا کوئی احسان نہ تھا جس کا وہ بدلہ چکاتا [19]وہ صرف اپنے بلند و بالا پروردگار کی رضا کےلیے دیتا ہے[20] اور یقیناً عنقریب وہ اس سے راضی ہو جائے گا۔[الليل: 17 - 21]

اس کے بعد دن گزرتے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں سمیت مدینہ ہجرت کر جاتے ہیں اور بلال رضی اللہ عنہ بھی ہجرت کر کے مدینہ پہنچ جاتے ہیں تو سیدنا بلال اسلام کے مؤذن قرار پائے۔

پھر جب مکہ فتح ہو گیا اور بلال رضی اللہ عنہ کعبہ کی چھت پہ چڑھ کر کلمہ توحید کی صدا بلند کرتے ہیں تو قریب ہی وہ جگہ بھی تھی جہاں بلال کو انہی کلمات کی وجہ سے جھلساتی دھوپ میں سزائیں دی جاتی تھیں ، پھر سب کے سامنے بہ بانگ دہل بلال یہ صدا لگاتے ہیں: "الله أكبر الله أكبر. أشهد أن لا إله إلا الله. أشهد أن محمدا رسول الله." بلال کے یہ بول سن کر بلال کے دشمنوں کا غصہ جوبن پہ آ جاتا ہے اور کچھ تو یہ کہنے پہ مجبور ہو جاتے ہیں: "اللہ نے میرے باپ پہ کرم فرمایا کہ بلال کے منہ سے یہ الفاظ سننے سے پہلے ہی وہ مر گیا "

بلال رضی اللہ عنہ کو اتنا بلند مقام و مرتبہ اسلام میں بہت سی تکلیفوں ،آزمائشوں ، صبر اور جد و جہد کے بعد ہی کہیں جا کر ملا، 
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ}
 اے ایمان والو! صبر کرو، ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرو اور مورچوں میں ڈٹے رہو، اور اللہ سے ڈرو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ۔ [آل عمران: 200]

اللہ کے بندو!

اللہ تعالی مہلت تو دیتا ہے لیکن غفلت نہیں برتتا، اللہ تعالی ظالم کو مہلت دئیے جاتا ہے لیکن جب پکڑتا ہے تو اسے خلاصی کا موقع نہیں دیتا
 {وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِأَنْفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُوا إِثْمًا وَلَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ} 
کافر لوگ ہرگز یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ ہم جو انہیں ڈھیل دے رہے ہیں، یہ ان کے حق میں بہتر ہے، ہم تو صرف اس لیے ڈھیل دیتے ہیں کہ جتنے زیادہ سے زیادہ گناہ کر سکتے ہیں کر لیں اور ان کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہوگا [آل عمران: 178]

چنانچہ مکہ میں مسلمانوں کو ابتدائے اسلام میں جو بھی تکالیف اور آزمائشیں آئیں یہ سب ایک نئی نسل تیار کرنے کےلیے تھیں؛ تا کہ اللہ تعالی بعد میں انہی کو زمام کار تھمائے اور انہیں فاتح بنائے، نیز اچھے اور برے لوگوں میں فرق کر دیا جائے۔

اور یہ مختصر سا دورانیہ تھا کہ جس کے بعد اللہ تعالی نے مظلوم و مقہور لوگوں پر احسان فرمایا جنہیں زمین پر کمزور سمجھ لیا گیا تھا للہ تعالی نے انہیں حکمران بنا دیا اور انہیں زمین کا وارث بنا کر زمین کا کنٹرول انہی کو دے دیا۔

اللہ کے بندو!

اللہ تعالی کے ہاں فضیلت اور مقام کا معیار عمل ہے، نسب یا عہدہ، یا مال و جاہ معیار نہیں ہے، لوگ بالکل اسی طرح برابر ہیں جیسے کنگھی کے دندانے برابر ہوتے ہیں، تم سب کے سب آدم سے پیدا ہوئے ہو اور آدم مٹی سے پیدا ہوا ہے، کسی بھی عربی کو عجمی پہ تقوی کے بنا کوئی فضیلت نہیں، 
{يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ} 
لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے ہی پیدا کیا ہے، اور ہم نے تمہیں اقوام اور قبائل میں تعارف کیلیے بنایا، بیشک اللہ کے ہاں تم میں سے معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔[الحجرات: 13]

لَعَمْرُكَ مَا الْإِنْسَانُ إِلَّا بِدِيْنِهِ

فَلَا تَتْرُكِ التَّقْوَى اِتَّكَالًا عَلَى النَّسَبِ

تجھے عمر دینے والے کی قسم! انسان دین کے بنا کچھ نہیں، اس لیے نسب پر تکیہ کر کے تقوی کا دامن مت چھوڑو

فَقَدْ رَفَعَ الْإِسْلَامُ سَلْمَانَ فَارِسٍ

وَقَدْ وَقَعَ الشِّرْكُ النَّسِيْبُ أَبَا لَهَبٍ

کیونکہ اسلام نے سلمان فارسی کو [تقوی کی بنا پر ہی] بلند فرمایا، اور شرک نے بلند نسب والے ابو لہب کو گرا دیا

کتنے ہی ایسے غیر معروف متقی لوگ ہیں جن کی کوئی پرواہ نہیں کرتا انہیں دروازوں سے دھتکار دیا جاتا ہے، حالانکہ اللہ تعالی اور اس کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا، اگر وہ اللہ تعالی پر قسم ڈال دے تو اللہ تعالی اس کی قسم پوری فرما دے۔

مشرکین کو اس وقت بہت تکلیف ہوئی جب انہوں نے کعبہ کی چھت سے بلال رضی اللہ عنہ کی آواز میں اذان سنی، ایک طرف بلال کی آواز مشرکوں کو ناگوار گزرتی تھی تو دوسری جانب مسلمانوں کے دلوں کو بھی موہ لیتی تھی، مسلمان بلال رضی اللہ عنہ کی اذان سننے کے مشتاق رہتے تھے، چنانچہ جب بلال رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخصت ہو جانے کے بعد اذان دیتے تو اپنے جذبات بے قابو کر بیٹھتے ، اور پھوٹ پھوٹ کر رو دیتے، آپ پر غشی طاری ہو جاتی اور لوگوں کو بھی جذباتی کر دیتے تھے، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد میں پورا مدینہ ہی گونج اٹھتا تھا۔

اسی طرح جب عمر رضی اللہ عنہ شام تشریف لائے اور بیت المقدس فتح ہو گیا، تو آپ نے بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دینے کا حکم دیا، اس پر بلال کہنے لگے: "امیر المؤمنین! میں نے ارادہ کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کےلیے اذان نہیں دوں گا، لیکن چونکہ آپ نے مجھے حکم دیا ہے تو صرف اس ایک نماز کے لیے اذان دوں گا، پھر جب بلال نے اذان دی اور صحابہ کرام نے بلال رضی اللہ عنہ کی اذان سنی تو پھوٹ پھوٹ کر رو دئیے"

کیونکہ بلال نے انہیں ان کے حبیب اور ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک یاد دلوا دی تھی، اسی یاد نے ان کے ایمان میں ہیجان پیدا کر دیا تھا ۔ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ان صحابہ کرام کی نجات کا باعث بنے تھے اس لیے آپ سے محبت بھی دلی تھی، ان کا قلبی لگاؤ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا، ان کے جذبات آپ کے تذکرے کے اسیر تھے، آپ کی محبت سودائے قلب میں شامل ہو کر دلوں پر براجمان تھی۔

مسلم اقوام!

صبر آسودگی کی کنجی ہے، جنت کو ناگوار چیزوں سے گھیر دیا گیا ہے، جبکہ جہنم کو شہوتوں سے گھیر دیا گیا ہے۔

اللہ تعالی اپنے دین کی ضرورت مدد فرمائے گا جیسے اللہ تعالی نے مکہ میں کمزور لوگوں کی مدد فرمائی تھی، جس طرح اللہ تعالی نے فتح مکہ سے پہلے اور بعد میں اپنے اولیا کی مدد فرمائی، اور پھر
{وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ (4) بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ [5] وَعْدَ اللَّهِ لَا يُخْلِفُ اللَّهُ وَعْدَهُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ}
 اس دن مومن خوش ہو جائیں گے [4] اللہ کی مدد سے، اللہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے اور وہی سب پر غالب، نہایت رحم والا ہے[5] یہ اللہ کا وعدہ ہے ، اور اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں فرماتا، لیکن بہت سے لوگ جانتے ہی نہیں ہیں۔ [الروم: 4-6]



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں