اتحاد بین المسلمین، اسباب اور رکاوٹیں - خطبہ جمعہ مسجد نبوی


 خطبہ جمعہ مسجد نبوی

فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے 09 -محرم الحرام- 1438  کا خطبہ جمعہ  مسجد نبوی میں بعنوان "اتحاد بین المسلمین،،، اسباب اور رکاوٹیں" ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ شریعت مطہرہ مسلمانوں کو باہمی اتفاق اور اتحاد  کی دعوت دیتے ہوئے کسی بھی ایسی سرگرمی سے روکتی ہے جو مسلمانوں میں پھوٹ، منافرت، بغض اور لڑائی جھگڑے کا باعث بنے، اسی لیے شریعت تمام مسلمانوں کو ملت اسلامیہ کے ساتھ وابستگی، حکمران کی اطاعت، اخوت، بھائی چارے اور باہمی تعاون پر زور دیتی ہے، دوسری طرف ظلم ، تذلیل، تحقیر، چوری، ڈاکہ، خیانت اور بدعت سے روکتی ہے۔

خطبے کا منتخب اقتباس پیش ہے:

شریعت مطہرہ نے اتحاد اور اتفاق کا حکم دیا ہے، نیز اختلاف اور گروہ بندی سے روکا ہے؛ تا کہ دین اسلام کو تحفظ ملے۔ اسلام کے بغیر زندگی ممکن ہی نہیں، نیز جنت بھی اسلام پر عمل کر کے ہی ملے گی،  شریعت نے اتحاد کا حکم اس لیے دیا کہ معاشرہ کٹنے پھٹنے سے محفوظ ہو، بے چینی ، تنازعات، بغاوت اور دنگے فساد بپا نہ ہوں۔ باہمی تصادم، جملے بازی، بغض، عناد سے  تحفظ ملے۔ انفرادی اور اجتماعی حقوق محفوظ ہو جائیں اور ضائع ہونے سے بچیں۔ امن، عدل اور استحکام  قائم ہو، ان سب مقاصد کے حصول کے لیے اللہ تعالی نے باہمی اتحاد کا حکم دیا اور اختلاف سے روکا، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ}
 اور اللہ کی  رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو اور اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو اللہ نے تم پر اس وقت کی جب تم  ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ پھر اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی تو تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی بن گئے۔ اور تم تو آگ کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے تھے کہ اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا۔ اللہ تعالی اسی انداز سے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم راہ راست کو پاسکو  [آل عمران: 103]

ایسے ہی فرمایا: 
{وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ}
 نیکی اور تقوی  کے کاموں میں باہمی تعاون کرو، گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون مت کرو۔[المائدة: 2]

اسی طرح فرمایا: 
{وَمَنْ يَعْتَصِمْ بِاللَّهِ فَقَدْ هُدِيَ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ} 
جو بھی اللہ تعالی کو مضبوطی سے تھام لے  تو اس کی صراط مستقیم کی جانب رہنمائی کر دی گئی۔[آل عمران: 101]

ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ایک مؤمن دوسرے مومن کے لیے ایسی عمارت کی مانند ہے جس کا ہر حصہ دوسرے کو مضبوط بناتا ہے، پھر آپ نے اپنی انگلیوں کو پیوست  کر کے دکھایا) بخاری، مسلم

باہمی اتحاد، اتفاق، یگانگت، یکجہتی، ایک دوسرے کا خیال رکھنا اور شفقت کرنا، حق بات پر باہمی مدد کرنا، اختلافات اور لڑائی جھگڑے بھلا کر  یک جان ہو جانے سے ایک ایسا قلعہ وجود میں آتا ہے کہ پورا معاشرہ اس میں محفوظ ہو جاتا ہے، لوگ اسے جائے پناہ بناتے ہیں، سب لوگوں کے لیے یہ پر امن ثابت ہوتا ہے، دین کے لیے قوت اور دنیاوی مفادات  کے تحفظ کا ذریعہ بنتا ہے، گمراہ کن فتنوں سے بچاؤ کا سبب بنتا ہے، بلکہ دشمنوں کی چالوں  اور مکاریوں سے سلامت رہنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

نیز اللہ تعالی نے بھی معاشرے میں مضبوط تعلق اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا حکم دیا ہے۔
 فرمایا: 
{وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ (31) مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ}
 اور مشرکین میں سے مت بنو؛ جنہوں نے اپنے دین الگ الگ کر لیے اور خود گروہوں میں بٹ گئے، اب ہر گروہ اپنے پونجی پر خوش ہے۔[الروم: 31، 32]

اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (مسلمان ، مسلمان کا بھائی ہے، وہ اپنے بھائی پر ظلم نہیں کرتا، اسے رسوا نہیں کرتا، اسے جھٹلاتا نہیں ہے اور اسے حقیر بھی نہیں سمجھتا تمام مسلمانوں پر دیگر مسلمانوں کی جان، مال اور عزت آبرو حرام ہے ) مسلم نے اسے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت  کیا ہے۔

یہ اللہ تعالی کی مسلمانوں پر رحمت ہے کہ  اللہ تعالی نے مسلمانوں کو عمومی قسم کے فتنوں سے آگاہ کیا اور فرمایا:
 {وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ} 
 اور اس فتنے سے بچ جاؤ جو صرف انہی لوگوں کے لئے مخصوص  نہ ہوگا جو تم میں سے ظالم ہوں۔ اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے [الأنفال: 25]
 مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ: یعنی ایسے کسی بھی فتنے کے اسباب سے بھی بچو جو تمہیں اللہ کے عذاب  کا مستحق بنا دے۔

تو جس طرح شریعت مطہرہ نے عمومی فتنوں سے منع کیا اور ان کے نقصانات  کی وجہ سے خبردار کیا بالکل اسی طرح خاص فتنوں سے بھی خبردار کیا جس  سے کسی خاص فرد کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور عوام الناس بھی اس کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں؛ لہذا شریعت نے ہر فرد کو ملت سے دوری اختیار کرنے سے منع فرمایا، چنانچہ ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (جو شخص ملت سے ایک بالشت کے برابر بھی دوری اختیار کرے تو وہ اسلام کا  پٹہ اپنے گلے سے  اتار دیتا ہے) ابو داود

حلال اور حرام ہر طرح سے دنیا کمانے کے لیے لگے رہنا  انسان کے لیے تباہ کن ہے اور اس کے معاشرے پر بھی انتہائی منفی اثرات پڑتے ہیں۔ ایسے ہی کسی کا حق غصب کر کے دنیا کمانا، ان کے حقوق غصب کرنا، ان کا مال لوٹنا ان سب کاموں سے  مسلمانوں کی یکجہتی میں رخنے پڑتے ہیں باہمی تعلقات کمزور ہوتے ہیں۔

ایسے ہی ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (دنیا بڑی سر سبز اور میٹھی ہے، اور اللہ تعالی تمہیں دنیا میں حکمران بنا کر دیکھے گا کہ تم کیسی کارکردگی دکھاتے ہو؟ خبردار! دنیا سے بچو اور عورتوں سے بچو) مسلم

عہد نبوت سے دور آج کے زمانے میں دنیا بہت سے لوگوں کیلیے فتنہ بن چکی ہے، لوگ اسی کے پیچھے لگ کر جھگڑ رہے ہیں، باہمی رابطے اور اخوت کا قیام بھی دنیاوی مفادات  کے لیے ہے، دنیا کیلیے سب اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ دشمنی، قطع تعلقی اور نفرت بھی دنیا کی وجہ سے ہوتی ہے، لوگوں کو قدر منزلت بھی دنیا داری کے اعتبار سے دی جاتی ہے، ان کے ہاں دنیا ہوس سے بڑھ کر کچھ نہیں  اسی لیے اللہ کے لیے محبت کم ہی لوگ کرتے ہیں، ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "اکثر لوگوں کے تعلقات  آج دنیا پر مبنی ہیں، اور اس کا لوگوں کو کو ئی فائدہ نہیں ہو گا" اسے ابن جریر نے روایت کیا ہے۔

دنیا کے فتنے سے بچاؤ کے لیے مسلمان پروردگار کے ہاں دنیا کی قدر و منزلت پہچانے؛ کیونکہ اللہ تعالی سے زیادہ دنیا کی حقیقت کوئی نہیں جانتا، پھر یہ بھی دیکھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں اس دنیا کی قدر کتنی تھی؟ جیسے کہ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اگر اللہ تعالی کے ہاں دنیا کی قدر و قیمت مکھی کے پر کے برابر بھی ہوتی تو اللہ تعالی کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتا) اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور اسے صحیح کہا ہے۔

دنیا سے بے رغبتی   اور زہد لڑائی جھگڑوں اور تنازعات سے بچنے کا بہترین ذریعہ ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (دنیا سے بے رغبت ہو جاؤ  تو اللہ تم سے محبت کرے گا، اور لوگوں کے پاس  جو بھی ہے اس سے بے رغبت ہو جاؤ تو لوگ بھی تم سے محبت کریں گے) ابن ماجہ نے اسے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ اور نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے

تو زہد یہ ہے کہ آپ حرام  سے بے رغبت ہو جائیں اور اسے ترک کر دیں، اللہ تعالی نے آپ کو جتنا دیا ہے اس پر قناعت کریں، اور آخرت کے لیے کام کریں، دنیا کی جانب مائل مت ہوں اور دنیا سے دل مت لگائیں، لوگوں  کی املاک پر نظر رکھنے سے اپنے آپ کو روکیں، اور اللہ تعالی نے لوگوں کو جو کچھ عطا کیا ہے اس پر حسد مت کریں۔

مسلمانو!

اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ معاشرہ محفوظ ہو، ان میں باہمی اتحاد اور طلاطم خیز فتنوں کے سامنے قوی اور ثابت قدم ہو،  ہمارا معاشرہ دشمنوں  کی چالبازیوں کو ملیامیٹ  کرے، ہر شریر کی خرابیوں کو ختم کرے، تو حکمرانوں کی سلف صالحین کے طریقے کے مطابق  خیر خواہی کرے انہیں نصیحت کرے؛ تا کہ ہمیشگی کے ساتھ اللہ تعالی کے فرمان پر عمل ہو:
 {وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى} 
اور نیکی کے کاموں میں باہمی تعاون کرو۔ [المائدة: 2]

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (بیشک اللہ تعالی تمہارے لیے تین چیزیں پسند فرماتا ہے : 1)تم اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہراؤ،  2)اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقہ واریت میں مت پڑو، 3) جسے اللہ تعالی تمہارا حکمران بنا دے اس کی خیر خواہی کرو) مسلم نے اسے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

اسلام نے جن چیزوں سے منع کیا ہے ان میں زبان کی تباہ کاریاں بھی شامل ہیں؛ کیونکہ غلط بات اور غلط تحریر بھی  بسا اوقات صفوں میں انتشار اور اتحاد  کو تار تار کر سکتی ہے، ان سے منافرت پیدا ہو سکتی ہے، ہوس پرستی میں انسان مبتلا ہو سکتا ہے، اور حق بات سے گمراہ  کر سکتی ہے، ان سے اختلافات وسعت پکڑتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو بھی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو وہ اچھی بات کرے یا خاموش ہو جائے ۔) اسے بخاری اور مسلم نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (زبان کو فتنے میں دھکیلنا تلواریں چلنے کی مانند ہے) اسے ابو داود نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر شفقت تھی  کہ فتنے کو بجھانے کا طریقہ بتلا دیا۔

یا اللہ! ہم تجھ سے دعا گو ہیں کہ ہر قسم کے فتنے ختم فرما دے، یا اللہ! مسلمانوں میں موجود ہر قسم کے فتنے ختم فرما دے، یا اللہ! ناقابل برداشت ناگہانی آزمائشوں کا خاتمہ فرما دے، یا رب العالمین!



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں