کامیابی کی سورت ۔۔۔ خطبہ جمعہ مسجد الحرام

خطبہ جمعہ مسجد الحرام
ترجمہ: عاطف الیاس

فضیلۃ الشیخ صالح بن محمد آل طالب  نے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس کا عنوان تھا: ’’سورہ مؤمنون کی چند آیات‘‘، جس میں آپ نے کامیابی کے ان راستوں کا ذکر کیا جو سورہ مؤمنون میں آئے ہیں۔ اس عظیم سورت کی بعض آیات پر بات کی جن پر تدبر کرنے کی ضرورت ہے۔ کامیابی کے طریقوں پر زور دیا۔ چند عبرتناک آیات کا ذکر کیا اور چند نصیحت پر مشتمل آیات اور پھر چند واقعات پر مشتمل آیات پر بات کی۔

خطبے سے منتخب اقتباس پیش ہے:

اللہ تعالیٰ نے اگلوں اور پچھلوں کو پرہیز گاری ہی کی نصیحت فرمائی ہے۔ ’’پہلے جن کو ہم نے کتاب دی تھی انہیں بھی یہی ہدایت کی تھی اور اب تم کو بھی یہی ہدایت کرتے ہیں کہ خدا سے ڈرتے ہوئے کام کرو‘‘ [النساء: 131]۔

بے وقوف وہ ہے کہ جو خواہشات نفس کی پیروی بھی کرتا رہے اور اللہ سے امیدیں بھی لگائے رکھے، جبکہ سمجھدار وہ ہے جو نفس كو قابو کر لے اور موت کے بعد کی زندگی کی تیاری کرے۔
جان رکھو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل تماشا ہے اور آخرت ہمیشہ رہنی کی جگہ ہے۔ ’’جو برائی کرے گا اُس کو اتنا ہی بدلہ ملے گا جتنی اُس نے برائی کی ہو گی اور جو نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن، ایسے سب لوگ جنت میں داخل ہوں گے جہاں اُن کو بے حساب رزق دیا جائے گا‘‘ [غافر: 40]۔

اے مسلمانوں:
اعمال اور اعمال کے نتائج میں بڑا گھرا ربط ہے۔ بھلائی کا انجام بڑا ہی اچھا ہوتا ہے چاہے اس کا حاضر کتنا ہی سنگین ہو اور برائی کا انجام بڑا ہی برا ہوتا ہے چاہے اس کا حاضر کتنا ہی پر فریب ہو۔ لیکن لوگ عام طور پر اپنے حاضر ہی میں مصروف رہتے ہیں اور تمام تر توانائیاں اسی میں صرف دیتے ہیں۔ یوں وہ حق کو نہیں پہچان پاتے۔ غافل ہی اس برائی کے آسان شکار ثابت ہوتے ہیں۔
کتاب اللہ میں ایک سورت ہے جس کا نام ’’کامیابی کی سورت‘‘ ہے۔ مصحف میں اس کا نام سورہ المؤمنون لکھا ہوا ہے۔ یہ سورت دلوں کو آخرت سے جوڑتی ہے اور اہل ایمان کو بہترین انجام کی خوش خبری دیتی ہے۔ کافروں کے لیے تو بڑی تباہی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی ابتدا کامیابی سے کی ہے اور کامیابی پر اسے ختم بھی فرمایا ہے۔ شروع پر اہل ایمان کی کامیابی کا ذکر کیا، فرمایا: ’’یقیناً فلاح پائی ہے ایمان والوں نے‘‘ [المؤمنون:1]، اور آخر میں یہ بتایا کہ کافر کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ فرمایا: ’’کافر کبھی فلاح نہیں پا سکتے‘‘ [المؤمنون:117]، پہلی اور آخری آیت کے درمیان آنے والی آیات میں کامیاب لوگوں کی صفات کا، چند انبیا اور ان کی قوموں کا ذکر کیا اور بتایا کہ کامیاب وہی ہوا جس نے ایمان قبول کیا۔

اسی طرح اس سورت کی آیات میں کامیابی حاصل کرنے کے طریقے بتائے گئے ہیں اور اس کے آخر میں کامیاب ہونے والوں اور جھٹلانے والوں، دونوں کا انجام بتایا گیا ہے۔

اے مسلمانوں:
’’یقیناً فلاح پائی ہے ایمان والوں نے جو: اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔ لغویات سے دور رہتے ہیں۔ زکوٰۃ کے طریقے پر عامل ہوتے ہیں۔ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ سوائے اپنی بیویوں کے اور ان عورتوں کے جو ان کی ملک یمین میں ہوں کہ ان پر (محفوظ نہ رکھنے میں) وہ قابل ملامت نہیں ہیں۔ البتہ جو اُس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں۔ اپنی امانتوں اور اپنے عہد و پیمان کا پاس رکھتے ہیں۔ اور اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں۔ یہی لوگ وہ وارث ہیں۔ جو میراث میں فردوس پائیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے‘‘ [المؤمنون: -1 11]۔

اللہ تعالیٰ نے کامیاب لوگوں کی صفات بیان فرمائیں، جن میں سب سے پہلے نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا ذکر کیا۔ یہ ایسی جوڑی ہے کہ جو کبھی نہیں کھل سکتی۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے کامیاب لوگوں کی صفات میں یہ بھی بیان فرمایا کہ وہ اپنی زبانوں اور شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں۔ یہ بھی ایک جوڑی ہے۔
امام بخاری سیدنا سہل بن سعد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو مجھے اس چیز کی ضمانت دے دے جو اس کے منہ میں ہے اور اس چیز کی کہ جو اس کی ٹانگوں میں ہے، میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں‘‘

آیات میں فضول باتوں سے گریز کرنے کا ذکر آیا ہے جس سے مراد ہر بے فائدہ کلام ہے کہ جس کا کوئی فائدہ نہ ہو۔ ذرا غور کیجیے کہ لوگوں کی باتوں میں فضول باتوں کی مقدار کتنی زیادہ ہوتی ہے۔ خاص طور پر آج کے دور میں کہ جب جدید سوشل میڈیا میں بغیر کسی قاعدے یا ضابطے کے، جو جی میں آئے وہ بیان کرنا ممکن ہو گیا ہے۔ اس سے فضول باتیں عام ہو گئیں، انہیں پھیلانا اور انہیں عام کرنا آسان ہو گیا۔ اس طرح وہ گناہ کہ جو ایک دائرے کے اندر اندر رہتے تھے، اب سب لوگوں کےسامنے آ گئے ہیں اور بہت پھیل گئے ہیں۔ غلطیاں چار دیواری کے اندر ہی رہ جاتی تھیں لیکن غلطیاں اس جگہ ہوتی ہیں کہ جہاں کی چھت اتنی بلند ہے جتنا آسمان! اور اس سے گناہ کرنے والوں کا گناہ بڑھ گیا ہے اور سزائیں سنگین ہو جاتی ہے۔

کامیاب لوگوں کی جو صفات اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں ان میں عقیدہ، اخلاق، عبادات اور معاملات، سب چیزیں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان صفات کے حامل لوگوں ہی سے کامیابی کا وعدہ فرمایا ہے: ’’یہی لوگ وہ وارث ہیں۔ جو میراث میں فردوس پائیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے‘‘ [المؤمنون: 10 ، 11]۔
ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرو تو جنت الفردوس مانگا کرو، یہ جنت کی بلند ترین اور درمیانی جگہ ہے۔ اسی سے جنت کی نہریں بہتی ہیں اور اسی پر رحمٰن کا عرش ہے۔‘‘ اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

اس سورت کے بیچ میں اللہ تعالیٰ ان ہی صفات کا دوبارہ تذکرہ کیا ہے، اور ان کی ایک اور جزا بتائی ہے۔ فرمایا: ’’جو اپنے رب کے خوف سے ڈرے رہتے ہیں۔ جو اپنے رب کی آیات پر ایمان لاتے ہیں۔ جو اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے۔ اور جن کا حال یہ ہے کہ دیتے ہیں جو کچھ بھی دیتے ہیں اور دل اُن کے اس خیال سے کانپتے رہتے ہیں کہ ہمیں اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے۔ بھلائیوں کی طرف دَوڑنے والے اور سبقت کر کے انہیں پا لینے والے تو درحقیقت یہ لوگ ہیں‘‘ [المؤمنون: -57 61]۔

امام ترمذی  نے سیدہ عائشہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کے متعلق دریافت کیا جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور جن کا حال یہ ہے کہ دیتے ہیں جو کچھ بھی دیتے ہیں اور دل اُن کے اس خیال سے کانپتے رہتے ہیں‘‘ [المؤمنون:60] کہ اے اللہ کے رسول! یہ اس آیت میں ان لوگوں کی طرف اشارہ ہے جو شراب نوشی اور چوری کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں! اے بنت صدیق! یہاں ان لوگوں کی طرف اشارہ ہے جو نمازی، روزہ دار اور صدقے دینے والے ہیں، لیکن وہ ڈرتے کہ ان کی یہ عبادتیں قبول نہ ہوں‘‘ ’’بھلائیوں کی طرف دَوڑنے والے اور سبقت کر کے انہیں پا لینے والے تو درحقیقت یہ لوگ ہیں‘‘ [المؤمنون:61]‘‘.

اے مسلمانوں:
اللہ تعالیٰ کامیابی کی سورت، سورۃ المؤمنون میں سب سے پہلے نوح کا واقعہ بیان فرماتے ہیں۔ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے صرف لوگوں کی پیدائش اور تخلیق کا ذکر فرمایا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نوح سے پہلے لوگ توحید ہی پر قائم تھے اور سب سے پہلا شرک نوح کی قوم میں شروع ہوا۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کے واقعے سے آغاز اس لیے کیا کیونکہ اس میں ان تمام تمام لوگوں کے لیے بڑی نشانی ہے جو ان کے بعد آئے تھے۔ فرمانِ الٰہی ہے: ’’اِس قصے میں بڑی نشانیاں ہیں اور آزمائش تو ہم کر کے ہی رہتے ہیں‘‘ [المؤمنون:30]۔

امام ابن مالک  بیان کرتے ہیں: ’’سنت رسول، نوح کی کشتی کی طرح ہے۔ جو اس میں سوار ہو جاتا ہے، وہ کامیاب ہو جاتا ہے اور جو اس میں نہیں بیٹھتا، وہ غرق ہو جاتا ہے۔‘‘

اس سورت میں اللہ تعالیٰ نوح کے واقعے کے بعد ایک اور قوم کا ذکر فرماتا ہے، جن کا نام نہیں لیا جاتا۔ اس کی تشریح میں مفسرین مختلف خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ کیا وہ ہود کی قوم عاد تھے، یا صالح کی قوم ثمود تھے؟ اللہ تعالی نے فرمایا: ’’ان کے بعد ہم نے ایک دوسرے دَور کی قوم اٹھائی۔ پھر اُن میں خود انہی کی قوم کا ایک رسول بھیجا (جس نے انہیں دعوت دی) کہ اللہ کی بندگی کرو، تمہارے لیے اُس کے سوا کوئی اور معبود نہیں ہے، کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟‘‘ [المؤمنون: 31 ، 32]۔
یوں لگتا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام اس لیے نہیں لیا کہ نام کے بغیر ہی عبرت تو حاصل کی جا سکتی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ انبیاء کی پیروی کرنے والے کامیاب لوگوں کا اور انبیاء کو جھٹلانے والوں کا انجام بتایا جائے۔

اے مسلمانوں:
سورہ مؤمنون کی آیات میں فلاح کا راستہ دکھایا گیا ہے اور اس میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کی کرم نوازیاں نظر آتی ہیں۔
اس سورت میں ذکر ہونے والے اسباب فلاح میں سے ایک حلال کمائی بھی ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:’’اے پیغمبرو، کھاؤ پاک چیزیں اور عمل کرو صالح، تم جو کچھ بھی کرتے ہو، میں اس کو خوب جانتا ہوں‘‘ [المؤمنون:51]۔

کامیابی کے اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ قرآن کریم کی آیات پر غور وفکر کیا جائے اور اس پر ایمان لایا جائے۔ اس کے احکام پر عمل کیا جائے۔’’تو کیا اِن لوگوں نے کبھی اِس کلام پر غور نہیں کیا؟ یا وہ کوئی ایسی بات لایا ہے جو کبھی ان کے اسلاف کے پاس نہ آئی تھی؟‘‘ [المؤمنون:68]۔

تو اللہ کی کتاب ہی نور، ہدایت اور رحمت ہے۔’’اے نبیؐ، کہو کہ: یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ اُن سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں‘‘ [يونس: 58]۔

’’حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے جو لو گ اسے مان کر بھلے کام کرنے لگیں انہیں یہ بشارت دیتا ہے کہ ان کے لیے بڑا اجر ہے‘‘ [الاسراء:9]۔

کامیابی کے اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانا جائے، ان پر ایمان لایا جائے، ان کی سنت پر قائم رہا جائے اور سیرت کے واقعات سے سبق حاصل کیا جائے۔ 

’’یا یہ اپنے رسول سے کبھی کے واقف نہ تھے کہ (اَن جانا آدمی ہونے کے باعث) اُس سے بدکتے ہیں؟ یا یہ اس بات کے قائل ہیں کہ وہ مجنون ہے؟ نہیں، بلکہ وہ حق لایا ہے اور حق ہی ان کی اکثریت کو ناگوار ہے‘‘ [المؤمنون: 69 ، 70]۔

یہی دو چیزیں وہ اساس ہیں کہ جن سے پھرنا درست نہیں ہے۔ جن کے بغیر کوئی ہدایت یا فلاح یا کامیابی نہیں۔ کامیابی اور نجات انہیں کے ساتھ جڑے رہنے میں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس حدیث میں ان دنوں چیزوں کا ذکر فرماتے ہیں: فرمایا: ’’میں تمہارے درمیان وہ دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ جن کے ساتھ تم کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔ اللہ کی کتاب اور میری سنت۔‘‘

اس سورت میں ذکر ہونے والے کامیابی کے اسباب میں ایک دعا بھی ہے۔’’تم وہی لوگ تو ہو کہ میرے کچھ بندے جب کہتے تھے کہ اے ہمارے پروردگار، ہم ایمان لائے، ہمیں معاف کر دے، ہم پر رحم کر، تُو سب رحیموں سے اچھا رحیم ہے‘‘ [المؤمنون:109]۔

میں خشوع والے دل سے، اللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان کرنے والی زبان سے اور آنسو بھری آنکھوں سے، آپ کے لیے دعا کرتا ہوں کہ اللہ آپ کو کامیابی کے راستے پر چلائے اور قیامت تک دین اسلام پر ثابت قدمی نصیب فرمائے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں ایک یہ بھی ہے کہ ’’اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر جما دے۔‘‘
دل کی استقامت کی ضرورت فتنوں کے اوقات میں اور حالات کی تبدیلی کے وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

اس سورت میں ذکر ہونے والے کامیابی کے اسباب میں ایک صبر بھی ہے۔’’آج اُن کے اُس صبر کا میں نے یہ پھل دیا ہے کہ وہی کامیاب ہیں‘‘ [المؤمنون:111]۔

کسی شخص کو توفیق الٰہی اور صبر کے بغیر دنیا وآخرت میں کامیابی نہیں مل سکتی۔ صبر اور پختہ ایمان ہی سے دین میں بلند مقام بھی حاصل ہو سکتا ہے۔
اسی لیے عرب کی کہاوتوں میں یہ کہاوت بھی پائی جاتی ہیں کہ: ’’جو صبر کرتا ہے وہی کامیاب ہوتا ہے‘‘

صبر پر مدد کرنے والی چیزوں ایک چیز یہ بھی ہے کہ عاقبت کو مد نظر رکھا جائے اور یہ یقین کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے رکنے میں صبر کرنا اللہ تعالیٰ کے عذاب پر صبر کرنے سے آسان ہے۔ ’’اور صبر کر، اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر کبھی ضائع نہیں کرتا‘‘ [هود: 115]۔

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر سے کام لو، باطل پرستوں کے مقابلہ میں پا مردی دکھاؤ، حق کی خدمت کے لیے کمر بستہ رہو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، امید ہے کہ فلاح پاؤ گے‘‘ [آل عمران: 200]۔

اے اللہ! ہمیں اپنی کتاب پر غور وفکر کرنے کی توفیق عطا فرما! اپنے کلام کو سمجھنے، اپنے احکام پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما اور ہمیں ان اعمال کی توفیق عطا فرما جن سے تو راضی ہوتا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں