خطبہ جمعہ مسجد نبوی
ترجمہ: شفقت الرحمان مغل
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ نے23-محرم الحرام-1439 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں"اللہ کا صفاتی نام السلام اور اس کے تقاضے" کے عنوان پر ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے کہا کہ السلام اللہ تعالی کا نام ہے اور اس میں اللہ تعالی کی ہمہ قسم کے نقائص ، شرکاء، ہمسر سے سلامتی کا معنی ہے، اللہ تعالی سے سلامتی مانگنا اسم مبارک کا تقاضا ہے، اللہ تعالی نے انبیائے کرام سمیت اپنے بندوں پر سلامتی نال فرمائی اور ہم سب نماز میں سب کیلیے سلامتی طلب بھی کرتے ہیں، اسی نام کی نسبت سے ہم ایک دوسرے کو سلام کرتے ہیں۔
خطبے سے منتخب اقتباس پیش ہے:
مسلمانو!
اللہ تعالی کے نام بہترین ہیں اور اسی کی صفات اعلی ترین ہیں، کائنات اور شرعی احکام میں موجود نشانیاں اسی بات کی گواہ ہیں، اللہ تعالی کے تمام اسما و صفات مخلوق سے بندگی اور عبادت کا تقاضا بھی بالکل اسی طرح کرتے ہیں جیسے اللہ تعالی کے خالق ہونے اور پیدا کرنے کے متقاضی ہیں، نیز ہر نام اور صفت کی مخصوص بندگی بھی ہے جس پر ایمان رکھنا اور جاننا لازمی جزو ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ}
اللہ کے اچھے اچھے نام ہیں، اللہ کو ان کے ذریعے پکارو اور ان لوگوں کو مسترد کر دو جو اللہ کے ناموں میں کج روی اختیار کرتے ہیں، انہیں ان کے عملوں کا عنقریب بدلا دیا جائے گا۔[الأعراف: 180]
اللہ تعالی کے انہی ناموں میں "اَلسَّلَامُ" بھی شامل ہے، یہ ایک ایسا نام ہے جس میں تمام صفات بھی سمو جاتی ہیں، یہ نام اللہ تعالی کے تقدس اور پاکیزگی پر دلالت کرتا ہے، یہ اللہ تعالی کی بے عیبی ظاہر کرتا ہے، نیز ہر ایسی بات سے اللہ تعالی کی بلندی عیاں کرتا ہے جو اللہ تعالی کے جلال، کمال اور عظمت کے منافی ہے۔
"اَلسَّلَامُ" یہ بھی بتلاتا ہے کہ اللہ تعالی ہمہ قسم کی معذوری سے سلامت ہے، کسی بھی کمی سے منزّہ ہے، لہذا وہ ہر عیب اور نقص سے سلامت ہے؛ کیونکہ اس کی ذات، اس کے نام ، اس کی صفات اور افعال سب کچھ کمال درجے کے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
{هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ}
وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں وہی بادشاہ، نہایت پاک، سب عیبوں سے سلامت، امن دینے والا، نگہبان، غالب، زور آور، بڑائی والا ہے، اور اللہ ان چیزوں سے پاک ہے جنہیں وہ اس کا شریک بناتے ہیں۔ [الحشر: 23]
لہذا ذات باری تعالی بیوی اور بچوں سے سلامت ہے، وہ کسی بھی قسم کے مماثل، ہم سر، ہم نام اور ہم پلہ سے سلامت ہے، وہ ہمہ قسم کے شریک اور ساتھی سے سلامت ہے، اللہ سبحانہ و تعالی کی زندگی موت، اونگھ اور نیند سے سلامت ہے، وہ اپنی مخلوقات کو قائم دائم رکھنے والا ہے، وہ تھکاوٹ، ناچاری اور اکتاہٹ سے بھی سلامت ہے، اس کا علم بھی جہالت اور بھول چوک سے سلامت ہے، اس کا کلام بھی مبنی بر عدل اور سچ ہے، اس کا کلام جھوٹ اور ظلم سے سلامت ہے، اس کی تمام تر صفات کسی بھی ایسی چیز سے سلامت ہیں جو کمال کے منافی ہو، یا صفات میں نقص کا شائبہ پیدا کریں۔
تو جس طرح ذات باری تعالی اور اس کے اسما و صفات سلامت اور سلامتی والے ہیں تو ہمہ قسم کی امن و سلامتی بھی اسی کی جانب سے ہوتی ہے، اسی سے سلامتی مانگی جاتی ہے، اگر کوئی شخص کسی اور سے سلامتی کا طلب گار ہو تو خالی ہاتھ لوٹے گا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس نام مبارک کے تمام تقاضوں کو پورا کرتے تھے جیسے کہ آپ ﷺ فرض نماز سے سلام پھیرتے تو فرماتے:
(اَللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ، تَبَارَكْتَ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ
[یا اللہ! تو ہی سلامتی والا ہے اور تیری طرف سے ہی سلامتی آتی ہے، اے ذو الجلال والاکرام ! تو ہی بابرکت ذات ہے]) مسلم
پھر چونکہ اللہ تعالی خود سلامتی والا ہے اور اسی کی جانب سے سلامتی ملتی ہے تو یہ کہنا جائز نہیں کہ: "اللہ تعالی پر سلامتی ہو"؛ اس لیے کہ: (اللہ تعالی بذات خود سلامتی والا ہے) بخاری
اللہ تعالی نے اپنے انبیائے کرام اور رسولوں کو سلام بھیجا؛ کیونکہ رسولوں کی دعوت ہر قسم کے عیب اور نقص سے سلامت تھی، فرمانِ باری تعالی ہے:
{سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ (180) وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ}
ان کی باتوں سے تیرا رب العزت پروردگار پاک ہے [180] اور سلام ہو رسولوں پر [الصافات: 180، 181]
اللہ تعالی نے اپنے نیک بندوں کیلیے بھی سلامتی لکھ دی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَى} آپ کہہ دیں: تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں، اور اللہ کے چنیدہ لوگوں پر سلامتی ہو۔ [النمل: 59]
اللہ تعالی نے تمام مومنوں کو ہمارے نبی ﷺ پر سلام پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا}
اے ایمان والو تم اس [نبی ] پر درود و سلام پڑھو۔[الأحزاب: 56]
ہر نمازی بھی اپنے تشہد میں نبی ﷺ سمیت تمام نیک لوگوں پر سلام بھیجتے ہوئے کہتا ہے:
(اَلسَّلَامَ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، اَلسَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِيْنَ
[اللہ تعالی کی سلامتی ، رحمت اور برکتیں ہوں آپ پر اے نبی، سلامتی ہو ہم پر اور اللہ کے تمام نیک بندوں پر])
اللہ تعالی نے اپنے بندوں کیلیے دین بھی وہی مقرر فرمایا ہے جس میں ہدایت اور سلامتی ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ}
بیشک اللہ تعالی کے ہاں دین؛ اسلام ہے[آل عمران: 19]
اسی دین کی اتباع میں دنیا و آخرت کی سلامتی ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى}
اور متبعین ہدایت پر سلامتی ہو ۔[طہ: 47] پھر ا س دین کے پیروکاروں کا آخری ٹھکانہ بھی سلامتی والا گھر ہے یعنی جنت ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى دَارِ السَّلَامِ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ}
اور اللہ تعالی سلامتی والے گھر کی جانب دعوت دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے کہ صراط مستقیم کی رہنمائی کرتا ہے۔[يونس: 25]
اسلام نے جانوروں اور چوپاؤں کے تحفظ اور سلامتی کی ضمانت بھی دی چنانچہ (ایک عورت بلی کی وجہ سے جہنم میں گئی) متفق علیہ ۔ اور دوسری طرف : (ایک زانی عورت نے کتے کو پانی پلایا تو اسے بخش دیا گیا) متفق علیہ
مسلمان کو مخلوق میں قولی اور فعلی ہر اعتبار سے سلامتی کا پیغام پھیلانے کا حکم ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دیگر مسلمان سلامت رہیں) بخاری
سلام کرنا بھی اسلام کا شعار ہے، سلام کہتے ہوئے مسلمان اللہ تعالی کا نام ذکر کرتا ہے اور اللہ تعالی سے ہی سلامتی طلب کرتا ہے، ساتھ میں مخاطب کے ساتھ یہ معاہدہ بھی کرتا ہے اسے کسی قسم کی تکلیف اور اذیت نہیں پہنچائے گا۔
سلام حقیقت میں باہمی الفت اور محبت پیدا کرنے کی کنجی ہے، سلام عام ہونے پر مسلمانوں میں باہمی الفت بڑھے گی، مسلمانوں کا امتیازی شعار ظاہر ہو گا، آپس میں ایک دوسرے پر اعتماد بڑھے گا ، بلکہ سلام کرنے سے ایک دوسرے کی عزت اور تعلق میں بھی مضبوطی آئے گی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (یہودی تم سے اتنا حسد کسی چیز پہ نہیں کرتے جتنا تم سے سلام اور آمین کہنے پر کرتے ہیں) ابن ماجہ
اسلام نے سلام میں پہل کرنے کی ترغیب بھی دی : (بیشک اللہ تعالی کے ہاں قریب ترین وہی ہے جو اسلام میں پہل کرے) ابو داود
اللہ تعالی نے سلام کا جواب انہی الفاظ میں دینے یا ان سے بھی اچھے الفاظ میں دینے کا حکم دیا اور فرمایا:
{وَإِذَا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا}
جب کوئی شخص تمہیں سلام کہے تو تم اس سے بہتر اس کے سلام کا جواب دو یا کم از کم وہی کلمہ کہہ دو [النساء: 86]
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: " اچھے الفاظ میں جواب دینا مستحب ہے، جبکہ انہی الفاظ میں جواب دینا فرض ہے"
سلام کرنے والے کیلیے دس تا تیس نیکیاں لکھی جاتی ہیں، " ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا: السلام علیکم تو آپ نے اس کے سلام کا جواب دیا اور وہ بیٹھ گیا" پھر آپ نے فرمایا: (دس نیکیاں) ، " پھر ایک اور آدمی آیا اور اس نے کہا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ ، تو آپ نے اس کے سلام کا جواب دیا اور وہ بھی بیٹھ گیا" اس پر آپ نے فرمایا: (بیس نیکیاں) ، " پھر تیسرا آدمی آیا اور اس نے کہا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ، تو آپ نے اس کا بھی جواب دیا اور وہ آدمی بھی بیٹھ گیا" اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تیس نیکیاں) ابو داود
سلام کرنا اور پھر سلام کا جواب دینا مسلمانوں کے باہمی حقوق میں سے ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (مسلمان کے مسلمان پر چھ حقوق ہیں، انہی میں آپ نے فرمایا: جب ایک مسلمان دوسرے کو ملے تو سلام کہے) مسلم۔ جبکہ بخاری کی روایت میں ہے کہ: (سلام کا جواب بھی دے)
ایمان کی تکمیل اور حالات کی بہتری باہمی محبت سے ہو گی[اور باہمی محبت سلام سے پیدا ہوتی ہے]، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم اس وقت تک جنت میں نہیں جا سکتے جب تک ایمان نہ لے آؤ، اور ایمان اس وقت تک نہیں لا سکتے جب تک تم باہمی محبت نہ کرنے لگو، کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتلاؤں جب تو اسے کرنے لوگو تو آپس میں محبت بھی کرنے لگے گو؟ تم آپس میں سلام عام کرو) مسلم
اللہ تعالی کی طرف سے روزِ قیامت مومنین کا شعار بھی سلام ہی ہو گا، فرمانِ باری تعالی ہے:
{تَحِيَّتُهُمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَهُ سَلَامٌ}
جس دن وہ اللہ سے ملیں گے ان کا تحفہ سلام ہوگا [الأحزاب: 44]
اللہ تعالی کے اسما و صفات سے متعلق علم اعلی ترین علم ہے، اسی کی بنا پر اللہ تعالی سے محبت، اللہ تعالی کی عظمت، امید اور خشیت پیدا ہوتی ہے، جس قدر انسان کا اللہ تعالی کے بارے میں علم زیادہ ہو گا وہ اللہ تعالی کی جانب اتنا ہی متوجہ ہو گا، اللہ تعالی کے احکامات اور نواہی کی پاسداری کرے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ بندگی کی تمام تر صورتیں اللہ تعالی کے اسما و صفات کے تقاضے ہی ہیں۔ انتہا درجے کی سعادت مندی اور راہِ الہی میں بلند مقام پانے کا یہی ذریعہ ہے، اللہ تعالی کو اپنے اسما و صفات بہت پسند ہیں، اللہ تعالی پسند فرماتا ہے کہ اس کی مخلوق میں اسما و صفات کے اثرات رونما ہوں۔
یہ بات جان لو کہ اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا:
{إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا}
اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو۔ [الأحزاب: 56]
تم عظمت والے جلیل القدر اللہ کا ذکر کرو تو وہ بھی تمہیں یاد رکھے گا، اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ تمہیں اور زیادہ دے گا، یقیناً اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے ، تم جو بھی کرتے ہو اللہ تعالی جانتا ہے ۔
جزاك الله خيرا كثيرا احسن الجزاء
جواب دیںحذف کریںیہ سارا ایک خطبہ ہی ہے؟
میں نے اس لئے پوچھا ہے کہ جو میں نے سنا وہ کم تھا لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ مکمل نہ ہو
جی یہ سارا ایک ہی ہے بلکہ میں نے بھی پورا نہیں شائع کیا
حذف کریںاللہ آپ کو سدا صحتمند خوش اور خوشحال رکھے اور آپ کے گھر کی رونقوں میں اضافہ فرمائے ۔ آمین ثم آمیں یا رب العالمین
جواب دیںحذف کریںتاکہ میری پوتیاں پوتے آپ کے نیک بچوں سے ھدائت پاتے رہیں
میں نے عربی میں دِڈیو دیکھی سُنی ہے