اسماء الحسنیٰ کورس از نمرہ احمد
سبق نمبر : 1
"الرحمن"
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہم پناہ مانگتے ہیں اللہ کی دھتکارے ہوئے شیطان سے۔
شروع اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔
"الرحمن"
الرحمن کا لفظ فعلان کے وزن پہ ہے۔ سادہ الفاظ میں اس بات کا مطلب یہ ہے کہ عربی میں الفاظ کے وزن ہوتے ہیں۔ جسے انگریزی میں ہم اگر کسی ورب کے آخر میں ”ای ڈی" لگا دیں تو اس میں ماضی میں کر چکنے کا معنی شامل ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی عربی میں ہم الفاظ کا وزن دیکھتے ہیں۔ یہ وزن ماضی کا ہے، حال کا ہے، فائل کا ہے یا مفعول کا۔
ایسے ہی ہر لفظ اپنے وزن کے مطابق مطلب دیتا ہے۔ جیسے ایک لفظ ہے قتل۔ اگر اس کو فاعل کے وزن پر لائیں تو بنے گا قاتل۔ اگر مفعول کے وزن پر لائیں تو بنے گا مقتول۔ دونوں صورتوں میں معنی بدل گیا۔ اب آپ نے جب بھی وزن کے بارے میں پڑھنا ہے تو یاد رکھنا ہے کہ وزن جاننا ضروری ہے لفظ کو سمجھنے کے لیے۔ یہ واحد تکنیکی بات تھی جو ہم اس کورس میں کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سب کچھ آسان اور سادہ زبان میں ہو گا ان شاء اللہ۔
رحمن کا لفظ فعلان کے وزن پہ ہے۔ یہ مبالغے کا صیغہ ہے۔ یعنی بہت بہت زیادہ ہونے کا صیغہ۔ اس پہ اترنے والے الفاظ میں بہت زیادہ ہونے کا معنی پایا جاتا ہے۔
رحمن نکلا ہے رحم سے۔ رحم کیا ہوتا ہے؟ اگر آپ کو اللہ تعالی کے نام رحمن کا مطلب جاننا ہے تو آپ کو الفاظ کا تعاقب کرنا ہو گا۔ کہ رحم کے لفظ کا اصل مطلب ہے کیا۔ ہم رحم کا لفظ روز مرہ گفتگو میں استعمال کرتے ہیں۔ لیکن کیا ہم رحم کے اصل معنی سے واقف ہیں؟
کیا ہم جانتے ہیں کہ رحمن ہوتا کون ہے؟ شاید نہیں۔ کیونکہ ہمارے پاس اللہ کو جاننے کا وقت ہی کون ہے؟ شاید نمی نہیں ہے۔
اس کورس میں ہم گناہ ثواب کی باتیں نہیں پڑھنے جار ہے۔ کیا حرام ہے کیا حلال۔ کچھ بھی نہیں۔ نہ جنت نہ جہنم۔ اس کورس میں ہم صرف اللہ تعالی کے بارے میں جانیں گے۔ ہمیں اللہ تعالی کی ذات کو جاننا ہے تو اس کے ناموں کے معنی جانتے ہوں گے تاکہ ہمیں معلوم ہو سکے کہ وہ ہے کون۔ وہ جس کے آگے ہم پانچ دفعہ جھکتے ہیں ایک دن میں اور وہ جس کو ہم اپنا مالک مانتے ہیں وہ اصل میں ہے کون؟ وہ جس سے ہم دعا مانگتے ہیں اور دعا قبول نہ ہونے پہ اس سے ناراض ہو جاتے ہیں، وہ رب ہے کون؟
رحمان کا لفظ نکلا ہے رحم سے۔ رحم کہتے ہیں ماں کی کوکھ کو۔ وہاں جہاں ایک بچہ جنم لیتا ہے۔ بہن بھائیوں کو رحم کے رشتے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ان کا آپس کا تعلق ماں کے رحم کے ایک ہونے سے بنا ہوتا ہے۔ اسی طرح رحم کہتے ہیں خونی رشتوں کو۔
یہ معافی دینے اور ہمدردی دکھانے کو بھی کہتے ہیں۔ کسی کو چھوڑ دینا۔ سخت غصہ ہونے کے باوجود اس کو جانے دینا۔ معاف کر دینا۔ رحم اچھی قسمت اور نعمتوں کو بھی کہتے ہیں۔ کسی پہ رحم کرنا یعنی اس کو بہت اچھی ہمتیں عطا کرنا۔
رحمان مبالغے کا صیغہ ہے۔ یعنی وہ ذات جس میں بہت بہت رحم پایا جائے۔ بہت معافی اور بہت عمتیں عطا کرنے کی خوبی پائی جائے۔
رحمن وہ نام ہے جو ہمیشہ اللہ تعالی کے لیے ہی آتا ہے۔ الرحمن۔ وہ جو بہت بہت مہربان بہت بہت رحم کرنے والا ہے۔
اور ہم کیا سمجھتے ہیں اللہ تعالی کون ہے؟ آپ جو اس وقت یہ سبق پڑھ رہے ہیں، آپ کے نزدیک اللہ تعالی کون ہے؟
ہم نے اللہ کو ایک ایسا استاد سمجھ لیا ہے نعوذ باللہ جو ہر منٹ ہمارے نمبر کاٹنے کے لیے تیار ہے۔ بس اسے حرام حلال کی پرواہ ہے۔ وہ بس یہی دیکھتا ہے کہ ہم نے گناہ کیا اور وہ ہماری ساری نیکیوں پر کانٹا پھیر دیتا ہے۔ ہم نے اللہ تعالی کو اپنے جیسا سمجھا ہوا ہے۔ ذرا سی بات پہ سب کچھ ملیا میٹ کر دینے والا۔ ہم کتنے آرام سے کہہ دیتے ہیں کہ اللہ ہم سے ناراض ہے کیونکہ ہمیں یقین ہوتا ہے کہ اللہ ایک غصہ کرنے والا، ہر وقت ہمارے گناہوں پہ نظر رکھنے والا حج ہے۔ ہم اللہ میں خود کو دیکھتے ہیں۔ ایسے انسان ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی ایسا نہیں ہوتا۔
اللہ تعالی کون ہے؟
اللہ تعالی میرا اور آپ کا رب ہے۔ وہ جس کے اندر بہت بہت رحم ہے۔ اس رحم اور محبت کی وجہ سے اس نے آپ کو جب دنیا میں بھیجا تو اس نے آپ کو دو انسانوں کے حوالے کر کے ان کا نام ماں باپ رکھا۔ جس اللہ سے آپ اب واقف ہوئے ہیں وہ آپ کے ساتھ آپ کی پیدائش سے بھی پہلے سے ہے۔ وہ ازل سے آپ کے ساتھ ہے۔ آپ تب سے اس کی نگاہ میں ہیں۔ وہ آپ کی ساری کہانی کا گواہ ہے۔
آپ کیسے بڑے ہوگئے؟ کیونکہ وہ اللہ ساتھ تھا۔ اس نے ایک پلان کے تحت آپ کو ماں باپ کے حوالے کیا اور پھر ان کے دل میں آپ کے لیے محبت ڈالی۔ نہ ڈالی ہوتی تو کون رکھتا ہے کسی کا خیال؟ اور یہ آپ کو لگتا ہے کہ آپ بڑے ہو گئے ہیں۔ اس نے آپ کو جیسا بنایا تھا، آپ ویسے ہی ہیں۔ ایک کمزور وجود جس کو اپنا اچھا برا نہیں معلوم۔
آپ کو کیا لگتا ہے؟ آپ کو کیا لگتا ہے آپ ایک گناہ کر کے آئیں گے اور اللہ تعالی آپ سے نفرت کرے گا؟ بس اب آپ دھتکارے ہوئے ہو گئے؟ نہیں۔ آپ کا رب آپ سے نفرت نہیں کرتا نہ اس نے آپ کو چھوڑ رکھا ہے۔ اس کے نزدیک آپ ایک کمزور انسان ہیں۔ وہ آپ کے گناہ دیکھ رہا ہے لیکن وہ آپ کی کوشش بھی دیکھتا ہے۔ آپ اس سے بار بار وعدہ کرتے ہیں، ایک بری عادت چھوڑنے کا، ایک غلط انسان کو زندگی سے نکالنے کا، ایک نیک عادت ڈالنے کا، ایک بت توڑنے کا، آپ اس سے بار بار وعدے کر کے پھر ڈھے جاتے ہیں۔ اگر وہ صرف حج ہوتا تو آپ کا رزلٹ دیکھتا۔ اینڈ رزلٹ۔ لیکن وہ رحمان ہے۔
اس میں اتنا رحم بھرا ہے کہ وہ آپ کی نیت اور کوشش دونوں دیکھتا ہے۔ پھر کیا ہو گیا جو آپ بار بار بار جاتے ہیں؟ اس کا نام ہی رحمان ہے۔ وہ جو سب کچھ دیکھنے کے باوجود نظر انداز کر دیتا ہے۔ وہ جو ہر چیز معاف کر دیتا ہے۔ سب کے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
اللہ رحمان ہے۔ بہت مہربان۔ اس جیسا کوئی نہیں ہے۔ وہی ہے جو ہر گناہ کے باجود معافی دیتا ہے۔ وہی ہے جو ہر نافرمانی کے باوجود نعمت دیتا ہے۔ یہ شیطان ہے جو ہمیں ایک گناہ کے بعد کہتا ہے کہ چلو بھئی تم اللہ کے بندوں کی لسٹ سے آؤٹ ہو گئے ہو اب کیا کرو گے روزے رکھ کے؟ نماز پڑھ کے ؟ سب کچھ چھوڑ دو۔ اور آپ چھوڑ دیتے ہیں؟ کیوں؟ اللہ نے تو نہیں کہا آپ اب اس کے بندے نہیں رہے۔ اس نے تو نہیں دھتکارا آپ کو ۔ کیا بجلی گری آپ پہ ؟ کیا زمین پھٹ گئی؟ کیا اس کا عذاب آگیا؟ نہیں۔ آپ نے ایک گناہ کیا۔ جو کہ نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن ہو گیا۔ اب کیا اس کا گلٹ لے کر بیٹھے رہیں گے؟ نماز روزہ صدقہ سب چھوڑ دیں گے کہ بھئی ہم منافق ہوں گے اگر اب بھی نماز پڑھی۔ یہ شیطان کا بہرکا وہ ہے۔ ہوشیار ہو جائیں۔
گناہ ہوا تو معافی مانگیں اور کوئی نیکی کریں۔ یہ اللہ کے بندوں کا وطیرہ ہے۔ گناہ سب سے ہوتے ہیں۔ نکل آئیں اس مینٹیسی سے کہ نیک مسلمان پرفیکٹ مسلمان کو کہتے ہیں۔ نہیں۔ کوئی اسکالر ہو یا مولوی، سب گناہ کرتے ہیں۔ مومن وہ ہے جس کو اپنے گناہ کا گلٹ ہو، وہ تو بہ کرے اور کوئی نیکی کرڈالے۔ نیکیاں گناہوں کو مٹاتی ہیں۔
اپنے رب کی طرف واپس آجائیں۔ نیکی کریں اور اس سے معافی مانگ لیں کیونکہ وہ رحمان ہے۔ اس کی رحمت اور معافی آپ کے لیے ہی ہے۔ ان شاء اللہ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں