یہی وہ آبگینے ہیں


یہی وہ آبگینے ہیں
شاعر:احسن عزیز شہید


ذرا دھیرے سے تم چلنا
 کہ یہ تو آبگینے ہیں
 یہی وہ آبگینے ہیں
کبھی ہو پیاس کی شدت تو یہ پانی پلاتے ہیں
کبھی سورج کی ہو حدت تو یہ سایہ بناتے ہیں
یہ ہیں آنگن کے تارے جو ہمیشہ جگمگاتے ہیں
مکاں کو گھر بناتے ہیں
انہی میں وہ قرینے ہیں
کہ یہ تو آبگینے ہیں
یہی وہ آبگینے ہیں
کہ جو گھر بھر کی زینت بھی
یہی آنکھوں کی ٹھنڈک 
یہی فرحت بھی، یہی راحت بھی
انہی سے رونق محفل
انہی سے حرمت محمل
بھری شاداب دنیا میں
یہی سرسبز اک حاصل
یہی جنت کے زینے ہیں
کہ ہیں یہ ماں
یہی بیٹی، یہی بہنا
یہی ہیں ہاتھ کا گہنا
محاذوں پر جو نکلو تو
 کبھی پیروں کی بیڑی بھی ___
بنیں پسلی سے ہیں یہ
 اس لیے تھوری ٹیڑھی بھی
مگر تم توڑ مت دینا
انہیں مستور ہی رکھنا
کہ عصمت کے نگینے ہیں
 کہ یہ تو آبگینے ہیں
کبھی سوچا بھی ہے تم نے
یہ کتنا دکھ اٹھاتی ہیں
 تمہاری زندگی کو کس طرح شاداں بناتی ہیں
تمہاری راہ کے کانٹے
یہ چن لیتی ہیں پلکوں سے
سفر آساں بناتی ہیں
سنور جایئں اگر
 اک نسل کا ایماں بناتی ہیں
پھر ان معصوم کلیوں کو
 یہی بصری
یہی سفیاں بناتی ہیں


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں