فاصلے


فاصلے
از سیما آفتاب

کچھ سال پہلے نمرہ احمد کے مشہور نال "جنت کے پتے" کی ایک سطر نے مجھے اپنی نظم "فاصلہ" لکھنے پر آمادہ کیا، اور اب اس وبا کے دور میں جہاں ہر کوئی پریشان ہے، فکرمند ہے وہیں کچھ لوگوں کے لئے یہ وائرس خود احتسابی کا بھی باعث بنا ہے۔ ہمیں ہماری غلطیوں، کوتاہیوں کے سلسلے میں بیدار کرنے سبب بنا ہے۔

اسی سوچ میں اپنی نظم  نظر سے گزری تو مجھے کچھ ادھوری محسوس ہوئی اور میں نے اس کو مکمل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور میری اس نظم کو اپنی آواز و انداز سے مزین کیا ہے میری پیاری دوست سدرہ احمد نے، جن کی نظم (تب اور اب) میں نے گزشتہ دنوں اپنے بلاگ پر بھی پوسٹ کی تھی۔ جزاک اللہ خیرا سدرہ 

ویڈیو لنک: خدا اور تم 

نظم پیش خدمت ہے:


کبھی گر یہ لگے تم کو
تمہارے اور خدا کے درمیاں
ہیں حائل فاصلے کچھ یوں 
کہ تم جتنی بھی شدت سے پکارو
وہ نہیں سنتا
سمجھ لینا اسی لمحے
کہ یہ سب فاصلے پیدا کیے کس نے
خدا تو اپنے بندوں سے
کبھی دوری نہیں رکھتا
رگ جاں سے بھی نزدیک تر
بندے سے رہتا ہے

یہ ہم بندے ہی اپنی سرکشی میں
خدا کو بھول جاتے ہیں
مگر وہ مہرباں ہستی
صفت رحمان ہے جس کی
وہ کہتا ہے میرے بندو
میری رحمت سے تم ہرگز
کبھی مایوس مت ہونا
کسی پستی میں گر جاؤ
گناہوں سے لتھڑ جاؤ
میری رحمت سے تم ہرگز
کبھی مایوس مت ہونا
کبھی نادم جو ہو جاؤ
پشیمانی میں گھر جاؤ
مجھے ناراض جو پاؤ
ہمیشہ یہ یقیں رکھنا
کہ پلٹے جو میری جانب
کرے توبہ گناہوں سے
درست اعمال جو کرلے
تو اس کے سب گناہوں کو
میں بے شک معاف کردوں گا
بھٹک کر پھر پلٹ آنا
میری رحمت کی چادر میں
مگر مایوس مت ہونا 

چلو پھر سے پلٹ جائیں
سرِ تسلیم خم کرلیں
مٹا دیں فاصلے سارے
رہے نہ درمیاں دوری
خدا اور اس کے بندے میں

دعاؤں کی طالب
سیما آفتاب


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

1 تبصرہ: