تعارف سورہ یوسف ۔۔ حصہ-2
عیسائیت مذہب کے مطابق عیسی علیہ السلام صرف بنی اسرائیل کے لئے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لئے آئے تھے، جبکہ بائبل میں واضح طور پر لکھا ہے کہ وہ بنی اسرائیل کے لئے نبی بن کر آئے تھے، اور قرآن بھی یہی کہتا ہے۔ قرآن میں وہ 'اے لوگو،' کہہ کر مخاطب نہیں کرتے بلکہ 'یا بنی اسرائیل' کہتے ہیں۔ جس سے صاف واضح ہے کہ وہ بنی اسرائیل کے لئے بھیجے گئے نبی تھے۔
اس خیال کو صحیح طرح جانچنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم بنی اسرائیل کے باقی انبیاء کے واقعات پڑھیں، اور ان میں سے ایک نبی ہیں یوسف علیہ السلام ۔۔۔ اور یوسف علیہ السلام کا قصہ ہمیں بتاتا ہے کہ کس طرح وہ اپنے آبائی شہر سے مصر تک پہنچے، اور وہاں جا کر ان لوگوں کے نبی بنے۔ یعنی وہ بھی بنی اسرائیل کے نبی بن کر آئے تھے۔
اللہ کی آیات ہر چیز کو واضح کردیتی ہیں۔ لیکن کچھ لوگ باقی ہر چیز چھوڑ کر آیت یا قصے کا ایک حصہ نکال کر اس سے اپنی پسند کا مطلب نکال لیتے ہیں۔ ایسا کرنے سےاللہ کی آیات ہرگزنہیں بدلتیں، حقیقت نہیں بدلتی۔ یہ کام بس عیسائی ہی نہیں بلکہ اکثر مسلمان بھی کرتے ہیں، اپنے کسی خیال یا نکتے کو ثابت کرنے کے لئے آیات کو بغیر سیاق و سباق کے استعمال کرتے ہیں۔ پتا ہے اس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ آپ اپنے خیال کو اللہ کے کلام یا اللہ کی بات سے اعلی سمجھتے ہیں، اور اپنے خیال کو سپورٹ یا مضبوط کرنے کے لئے اللہ کی آیات کا سہارا لے رہے ہیں۔ جبکہ حقیقت میں اللہ کی آیات کے سامنے آپ کی رائے یا آپ کے آئیڈیاز کم درجے کے ہیں۔ اللہ کے کلام، اللہ کے احکام سے اوپر کچھ بھی نہیں ہے۔ آپ بالکل عاجز اور بغیر کسی ججمنٹ کے آئیں، اور اللہ کا کلام آپ کو ہر چیز کا آئیڈیا اور جواب دے، آپ اپنے آئیڈیاز لے کر نا آئیں۔
اب میں آپ کو ایک مزے کی بات بتاتا ہوں۔ سورہ القصص میں اللہ بتاتے ہیں کہ جب موسی علیہ السلام نے فرعون کو دعوت حق دیا تو اس نے کچھ جوابات دیے، جن میں اس کا ایک فقرہ بہت دلچسپ ہے۔ وہ کہتا ہے موسی تم جو یہ خدا کی باتیں کرتے ہو یہ ہم نے یا ہمارے باپ دادا نے کبھی نہیں سنی۔ جبکہ سورہ یوسف میں ہمیں اتنی تفصیل سے پتا چلتا ہے کہ یوسف علیہ السلام نے تاج پہننے کے بعد تحت پر بیٹھ کر اللہ کا پیغام دیا تھا، لیکن پھر فرعون کیوں کہہ رہا کہ اس کے باپ دادا نے بھی یہ اللہ کا تصور کبھی نہیں سنا؟
موسی علیہ السلام نے جب مصر میں ایک آدمی کا قتل کیا تھا، تو پولیس کا ایک آدمی تھا جو موسی کا دوست تھا، اس نے موسی علیہ السلام سے کہا تھا کہ آپ شہر چھوڑ جائیں ورنہ یہ لوگ آپ کو قتل کردیں گے۔ بعد میں یہ مسلمان ہو گیا تھا لیکن اس نے کسی پر یہ ظاہر نہیں کیا تھا۔ بعد میں یہی پولیس پروموٹ ہوکر فرعون کے دربار میں آرمی چیف یا کوئی ایسا بلند رتبہ حاصل کرچکا تھا۔
اب ایک اورسورہ ہے، سورہ المؤمن ، یعنی مومن کی سورت۔۔۔ اس میں ایک انسان کی ایک بہت لمبی تقریر ہے، قرآن میں اتنا لمبا مکالمہ کسی نبی کا بھی نہیں ہے۔ موسی علیہ السلام جب فرعون کو دعوت حق دے رہے تھے اور فرعون ان کے حق کو ٹھکرارہا تھا، تب اس کے دربار میں سے ایک آدمی اٹھتا ہے اور حق کی گواہی دیتا ہے۔ قرآن اس کو 'ایک مومن' کہہ کر مینشن کرتا ہے، یہ موسی ؑلیہ السلام کا وہی دوست ہے ۔ اس کے مکالمے کا کچھ حصہ ملاحظہ ہو۔
اور وہ ایمان والا بولا اے میری قوم! مجھے تم پر اگلے گروہوں کے دن کا سا خوف ہے
اور اے میری قوم میں تم پر اس دن سے ڈراتا ہوں جس دن پکار مچے گی
جس دن پیٹھ دے کر بھاگو گے اللہ سے تمہیں کوئی بچانے والا نہیں، اور جسے اللہ گمراہ کرے اس کا کوئی راہ دکھانے والا نہیں،
اور بیشک اس سے پہلے تمہارے پاس یوسف روشن نشانیاں لے کر آئے تو تم ان کے لائے ہوئے سے شک ہی میں رہے، یہاں تک کہ جب انہوں نے انتقال فرمایا تم بولے ہرگز اب اللہ کوئی رسول نہ بھیجے گا اللہ یونہی گمراہ کرتا ہے اسے جو حد سے بڑھنے والا شک لانے والا ہے
دیکھا آپ نے؟ اس مکالمے میں مومن نے یوسف علیہ السلام کا ذکر کیا کہ یوسف تمہارے پاس آیات لے کر آئے تھے مگر تم نے ان کی وفات کے بعد تم کہنے لگے کہ اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔ آیت ۳۴
یہ بندہ ایک پڑھا لکھا انسان تھا جو انکو انکی تاریخ یاد کروارہا تھا۔
یہاں میں نے ایک پوائنٹ نکالا، جس سے سب لوگ مکمل متفق نہیں، لیکن مجھے یہی لگتا ہےکہ یوسف علیہ السلام نے وفات سے پہلے اپنے لوگوں کو بتایا تھا کہ تم لوگوں میں اللہ ایک اور نبی بھیجے گا۔۔۔۔ اور پھر اتنے وقت کے بعد فرعون کے دربار میں ایک مومن اہل مصر کو یوسف علیہ السلام یا د کرواتا ہے۔ سو میرے نزدیک موسی علیہ السلام اور یوسف علیہ السلام کے درمیان ایک گہرا تعلق ہے،۔ ایسے تعلق، ایسے کنیکشن جو بہت واضح نہیں ہیں، جو گہرائی میں جاکر ملتے ہیں۔ یہ میں نے خود دریافت کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے میں نے اس بار سورہ یوسف کو گہرائی میں جاکر پڑھانے کا سوچا ہے.
جاری ہے۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں