تعارف سورہ یوسف --- حصہ-3


تعارف سورہ یوسف --- حصہ-3


السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 

کل میں نے یہ وضاحت کرنے کی کوشش کی تھی کہ حضرت موسی علیہ السلام کی نبوت کی جڑیں ان کے آباواجداد حضرت یوسف علیہ السلام سے ملتی ہیں۔
سو میں اس بات سے شروع کرنا چاہتا ہوں جس کا ایک تاریخی پہلو ہے اور اس کا ذکر قرآن میں بھی ہوا ہے۔
میں نے پچھلی بار سورہ غافر جس کو سورہ مؤمن بھی کہتے ہیں اس کا حوالہ دیا تھا سورہ نمبر 40 آیت نمبر 34

ولقد جاءكم يوسف من قبل بالبينات
یہ صرف آیت کا ایک حصہ ہے

یہاں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ

ترجمہ
اور اس سے پہلے تمہارے پاس (حضرت) یوسف دلیلیں لے کر آئے

یہاں کچھ باتیں ہیں:

پہلی بات تو واضح ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے فرعون کی عدالت میں حضرت یوسف علیہ سلام کا ذکر کیا اور ان کا حوالہ دیا۔ اس سے ہمیں یہ پتہ چلا کہ فرعون حضرت یوسف علیہ السلام کو جانتے ہیں اور ان کی میراث کو بھی مگر حضرت موسی علیہ السلام نے یہاں بات ختم نہیں کی بلکہ یہ بھی کہا کہ حضرت یوسف علیہ السلام واضح دلائل کے ساتھ آئے تھے
یہاں پر سوال یہ بنتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ سلام کن دلائل کے ساتھ آئے تھے؟ اور دلیل اسی وقت دی جاتی ہے جب کوئی معاملہ درپیش ہو
تو یہ بات واضح ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کچھ ثابت کرنا چاہتے تھے اس وقت کے فرعون سے، اس وقت کے بادشاہ سے۔
تو کیا ثابت کرنا چاہتے تھے؟
جو باتیں ہمیں قرآن سے ملتی ہیں اور بائبل کی کتابوں میں بھی اس کے شواہد موجود ہیں وہ یہ کہ حضرت یوسف علیہ السلام اللہ کے حکم سے خوابوں کی تعبیر کرتے تھے
اور جو بادشاہ نے خواب دیکھا تھا جسے ہر کوئی یہ سمجھا تھا کہ یہ سب بکواس ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں اس کی تعبیر حضرت یوسف علیہ السلام نے کی، کیسے؟ ہم تفصیل سے آگے پڑھیں گے۔

تو انہوں نے جو بادشاہ کے خواب کی تعبیر کی اس کی بنا پر سیاسی اور معاشی پالیسیاں بنائی گئی۔

یہ بات اس بات کی شاہد ہے کہ حضرت یوسف علیہ سلام کو ان باتوں کی خبر تھی جسے عام انسان نہیں جانتا تھا کہ وہ ایک اعلی طاقت سے جڑے ہوئے ہیں، وہ اللہ کے نبی ہیں

تو یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ حضرت یوسف علیہ سلام کی تعبیر کی وجہ سے مصر کو ایک دفعہ بچایا گیا تھا اور دوسری طرف حضرت موسی علیہ السلام فرعون کے دربار میں یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ مصریوں سیدھے ھو جاو ورنہ پھر مشکل میں آ جاؤ گے اور یہاں پر ایک دلچسپ بات بتاتا چلوں کہ پانی کہ تحفظ نے مصر کو بچایا تھا اور پانی کی تباہی سے ہی فرعون غرق ہوا حضرت موسی علیہ السلام کے واقعے میں۔

یہاں پر اللہ تعالی ہمیں یہ سبق دینا چاہ رہے ہیں کہ ایک چیز نعمت بھی ہو سکتی ہے اگر ہماری نیت ٹھیک ہو اور وہی چیز ہماری تباہی کا سبب بن سکتی ہے اگر ہماری نیت خراب ہو۔

آپ ہوا کو ہی دیکھ لیں اس میں ہم سانس لیتے ہیں اور یہی ہوا طوفان بن کر ہماری تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔ یہی ہوا ہے جو بادلوں کو بھی لے کر آتی ہے ہے اور یہی ہوا ہے جو وائرس بھی لے کر آتی ہے جو ہمیں ایک دوسرے سے لگتا ہے۔
ہوا بس ہوا ہی ہے مگر ایک جگہ پر وہ رحمت ہے اور ایک جگہ پر وہ زحمت۔

شاید ہمیں یہی سبق دیا جا رہا ہے

تو آج میں ان دو میراث کا موازنہ کرنے جا رہا ہوں، حضرت یوسف اور حضرت موسی علیہما السلام کی میراث کا۔
یہ آج کی نشست میں تو ممکن ہی نہیں ہے کہ ختم ہو۔ اور میں اس میں کوئی جلدی بھی نہیں کرنا چاہ رہا میں اپنا وقت اس کے سیاق میں زیادہ لگاؤں گا چاہے کہ ہم لوگ رمضان میں داخل ہو جائے

چلیں ان کا مجموعی طور پر موازنہ دیکھتے ہیں۔ یوسف علیہ السلام نے اپنا سفر مصر کے باہر سے شروع کیا کنعان کے علاقہ سے اور پھر اپنے اہل و عیال سمیت مصر میں آباد ہوئے۔

جبکہ دوسری طرف حضرت موسی علیہ السلام کا سفر مصر سے ہی شروع ہوتا ہے اور جب واقعہ کام اختتام ہوتا ہے ہے تو انھیں مصر سے باہر جانا پڑتا ہے۔ تو ایک کی زندگی مصر کے باہر سے شروع ہوتی ہے اور مصر کے اندر ختم ہوتی ہے اور دوسرے کی زندگی مصر کے اندر سے شروع ہوتی ہے اور اس کا اختتام مصر کے باہر ہوتا ہے۔

اور اس میں اللہ تعالی بنی اسرائیل کی تاریخ بتا رہے ہیں کہ بنی اسرائیل مصر میں کیسے آباد ہوئے اور پھر وہاں سے کیسے نکلے۔
ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ، ایک مثال سے سمجھاتا ہوں کہ جس طرح ایک شخص کو کسی ملک کی شہریت مل جاتی ہے تو اپنے اہل و عیال کو لے کر وہاں آباد ہو جاتا ہے

بالکل یہی معاملہ حضرت یوسف علیہ سلام کے ساتھ رہا کہ انہیں ایک سرکاری نوکری ملی اس کی وجہ سے انہوں نے اپنے اہل وعیال کو مصر بلالیا اور وہی آباد ہوگئے۔

اب اس دور میں کوئی سرکار یا کوئی آئین ہوتا نہیں تھا بادشاہ خود ایک آئین ہوتا تھا۔ ہم اس سورت میں بھی پڑھیں گے "في دین الملک" یعنی بادشاہ کے آئین میں۔ قرآن نے اسی طرح مخاطب کیا ہے

تو حضرت یوسف علیہ السلام کے معاملے میں بادشاہ ہی سب کچھ تھا جس کی وجہ سے وہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ مصر میں آباد ہوگئے۔
اس کے برعکس حضرت موسی علیہ السلام کو اللہ تعالی نے حکم دیا تھا کہ تم پتی کر دیئے جاؤ گے اس لیے رات میں نکلنا کیونکہ فرعون اور اس کی قوم تمہارا پیچھا کریں گے۔
إنكم متبعون

فرعون میں اپنی فوج کے سامنے بڑی لمبی تقریر کی جسے قرآن میں اس طرح نقل کیا گیا ہے

ان هؤلاء لشرذمه قليلون
وانهم لنا لغائظون
وانا لجميع حاضرون

مفہوم آیت:

ایک چھوٹے سے گروپ نے ہمیں بہت ناراض کیا ہے۔ اور اس بار ہم ہر احتیاطی تدابیر جو کرسکتے ہیں کریں گے

دوسرے لفظوں میں اس نے یہ پکا ارادہ کر لیا تھا کہ اس نے بنی اسرائیل میں سے کسی کو نہیں چھوڑنا چاہے مرد ہو عورت ہو یا بچہ اس نے بنی اسرائیل کی نسل کشی کا فیصلہ کر لیا تھا
اس واقعے سے ایک رات پہلے جب اللہ تعالی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پیغام دے رہے ہیں کہ رات کے وقت مصر سے نکلنا۔

اس کے برعکس یوسف علیہ السلام کے قصے میں کس بنیاد پر اسرائیلی ایک بادشاہ کی مہربانی سے مصر میں آباد ہو رہے ہیں، اور دوسری طرف بادشاہ کے غیض و غضب سے مصر چھوڑ کے جا رہے ہیں

اس کا تیسرا موازنہ یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو مصر کو بچانے والا سمجھا جارہا ہے اسی لئے تو وہ سرکاری عہدے پر فائز تھے کہ انہوں نے مصر کی معیشت تباہ ہونے سے بچائی تھی جبکہ دوسری طرف حضرت موسی علیہ السلام کو مصر کے آئین کا خطرہ سمجھا جا رہا تھا۔

قرآن میں اس کا بڑا خوبصورت نقشہ کھینچا ہے

انى أخاف أن يبدل دينكم أو أن يظهر في الأرض الفساد
مفهوم:
مجھے خطرہ ہے کہ یہ کہیں تمہارا دین بدل دے یا کہیں ملک میں انتشار پھیلاۓ

ایک طرف حضرت یوسف علیہ السلام کو ملک کا نجات دہندہ سمجھا جا رہا تھا تو دوسری طرف حضرت موسی علیہ السلام قومی سلامتی کے لئے خطرہ۔
ایک طرف حضرت یوسف علیہ السلام سرکاری آدمی تو دوسری طرف موسی علیہ السلام سرکار کے لیے خطرہ
قابل ذکر بات یہاں پر یہ ہے کہ دونوں کے دونوں اللہ کے نبی تھے، دونوں اللہ سبحان و تعالی کے ہدایت یافتہ بندے جو ہمارے لئے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں اسی وجہ سے ان کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔

اللہ سبحانہ و تعالی ہمیں یہاں پر کیا سبق دینا چاہ رہے ہیں؟

یہاں پر ہمیں یہ نصیحت ملتی ہے کہ کبھی کبھی حالات ہمارے حق میں نہیں ہوتے مگر پھر بھی ہمیں ان سے گزرنا پڑتا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام شام ایک سرکاری عہدے پر فائز ہوتے ہوئے بھی دین کی دعوت دیتے تھے کیونکہ مصر کے بادشاہ تھے اور ان کی قوم مسلمان نہیں تھی۔ تو اللہ سبحانہ وتعالی جب بھی اور جو بھی آپ کو موقع دیں اس موقع سے ضرور فائدہ اٹھائیں۔ اور اللہ کے دین کو پھیلائیں جب بھی آپ کو موقع ملے۔ آپ حضرت یوسف علیہ السلام کی جیل کی زندگی دیکھیں یا ان کا سرکاری عہدہ دونوں میں انہوں نے دین کی دعوت دی ہے۔

جبکہ دوسری طرف فرعون، حضرت موسی علیہ السلام کے خلاف تھا مگر پھر بھی انہوں نے دین کی دعوت اس کے دربار میں دی
تو یہاں پر اللہ تعالی یہ دکھا رہے ہیں کہ دو متضاد واقعات اور مختلف کردار ہیں مگر پھر بھی اللہ کے دین کا کام جاری و ساری ہے۔
چلیں ایک اور موازنہ دیکھتے ہیں
اور یہ تو بڑا ہی قابل ذکر ہے۔
حضرت یوسف علیہ وسلم کنعان کے رہنے والے تھے اور بکریاں چراتے تھے
اور بعد میں وہ مصر کے اندر بڑے عہدے پر فائز رہے
جبکہ حضرت موسی علیہ السلام کی کہانی مختلف ہے انہوں نے فرعون کے محل میں میں آنکھ کھولی اور بعد میں اپنی جان بچا کر مدین پہنچے اور آخر میں بکریاں چرائیں۔ تو یہاں پر معاملہ الٹ ہے

یہاں اللہ سبحانہ و تعالی کا ہمیں بات سمجھانے کا طریقہ ہے کہ آپ کی معاشی ترقی اور سماجی حیثیت کا اللہ کے قریب اور دور ہونے کا کوئی تعلق نہیں
یعنی اگر آپ معاشرے میں اونچا مقام رکھتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں نہیں کہ آپ اللہ تعالی کے قریب ہیں، اور کسی شخص کا مقام معاشرے میں اتنا اونچا نہ ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دور ہے۔
دونوں نبی دونوں اللہ تعالی کے برگزیدہ بندے مگر دونوں کی زندگی ایک دوسرے سے بہت مختلف اسی لیئے ہمیں دوسروں کی زندگی کو دیکھ کر یہ نہیں کہنا چاہیے کہ اس کی اتنی اچھی زندگی کیوں ہے اور میری کیوں نہیں؟
ہمیں ظاہری طور پر دوسرے کی نعمت نظر آرہی ہوتی ہے مگر وہ کن آزمائش سے گزر رہا ہوتا ہے ہمیں نہیں معلوم۔ کبھی کبھی ہم کو دوسرے کی آزمائش نظر نہیں آتی ہے مگر اس کی نعمت ہم دیکھ سکتے ہیں۔
اور اکثر ہمارے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے کہ ہمیں اپنی آزمائشیں نظر آرہی ہوتی ہیں مگر ہم اپنی نعمت پر نظر نہیں ڈالتے جو اللہ نے ہمیں عطا کی ہیں۔ ہمیں اس طرح بننا ہے کہ ہم اس کی نعمتوں تو کا شکر کریں ہی کریں اور اس کی آزمائش پر صبر بھی کریں۔
اللہ تعالی ہماری آزمائشوں میں ہماری مدد فرمائے۔ آمین

جاری ہے۔۔۔

تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں