تعارف سورہ یوسف ۔۔ حصہ-4
آج ہم دونوں واقعات میں دونوں انبیاء کے والدین کے کردار پر روشنی ڈالیں گے۔
ایک طرف ہم بات کریں گے یوسف علیہ السلام کے والدین کے بارے میں اور دوسری طرف ہم بات کریں گے حضرت موسی علیہ السلام کے والدین کے بارے میں۔
حضرت یوسف علیہ السلام کی کہانی شروع ہوتی ہے ان کے والد سے جب کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کہانی شروع ہوتی ہے ان کی والدہ سے.
سورہ یوسف کی شروعات میں حضرت یعقوب کو کوئی بیرونی خطرہ نہیں تھا،بلکہ ان کو خطرہ ان کے اپنے گھر میں اپنے بیٹوں سے تھا
اسی لیے انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو منع کیا تھا کہ خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کریں۔
اس کے برعکس حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ کو اندرونی خطرہ نہیں تھا کہ ان کے گھر میں کوئی خطرہ ہو بلکہ انہیں بیرونی خطرہ تھا کہ فرعون نے ہر نوزائیدہ بچے کے قتل عام کا حکم دیا ہوا تھا۔
یہاں اللہ تعالی ہمیں یہ سبق دینا چاہ رہے ہیں کہ کبھی کبھی آزمائش باہر سے آتی ہے جو آپ کے اختیار میں نہیں ہوتی اور کبھی آزمائش آپ کے اپنے گھر سے آتی ہے وہ بھی آپ کے اختیار میں نہیں ہوتی۔
کبھی آزمائش بہن بھائیوں کی شکل میں ہوتی ہے کبھی ماں باپ کی شکل میں کبھی اولاد کی شکل میں کبھی عزیز عزیز و اقارب کی شکل میں۔
دونوں صورتوں میں دونوں انبیاء کے والدین اپنے بچوں کو اپنی نگرانی میں رکھنا چاہتے تھے
ان دونوں واقعات میں ایک چیز آپ کے علم میں آئی ہو گی کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ میں میں ان کی والدہ کا ذکر نہیں ہے جبکہ حضرت موسی علیہ السلام کے واقعہ میں ان کے والد کا ذکر نہیں ہے
اس میں اللہ تعالی کی حکمت یہ ہے کہ اس نے سورہ یوسف میں میں والد کا ذکر خاص رکھا ہے جبکہ حضرت موسی علیہ السلام کے واقعے میں والدہ کا ذکر خاص ہے
اور اس طرح الگ الگ رکھنے میں حکمت یہ بھی ہے کہ بچوں کی پرورش میں ماں اور باپ کے کردار کو الگ کرکے سمجھایا جائے
ان انبیاء کے واقعات میں یہ بھی ملتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ سلام کے والد نہیں چاہتے تھے کہ وہ حضرت یوسف کو ان کے بھائیوں کے ساتھ بھیجیں۔ مگر بیٹوں کے زور دینے کی وجہ سے انہوں نے بھیج دیا،
موسی علیہ السلام کا معاملہ بڑا عجیب ہے۔ کوئی ماں اپنے بچے کو پانی میں نہیں چھوڑ سکتی،یہ تو ممکنات میں سے ہی نہیں ہے چاہے کچھ بھی ہوجائے تو یہاں پر اللہ سبحانہ وتعالی کو خود ان کی والدہ کے دل میں یہ بات ڈالنی پڑی کہ بچے کو ٹوکری میں ڈال کر سمندر میں بہا دیں، اور اس کا ذکر قرآن میں ملتا ہے
وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ أُمِّ مُوسَىٰ أَنْ أَرْضِعِيهِ ۖ فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَأَلْقِيهِ فِي الْيَمِّ وَلَا تَخَافِي وَلَا تَحْزَنِي ۖ إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ (7)
ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کو وحی کی کہ اسے دودھ پلاتی ره اور جب تجھے اس کی نسبت کوئی خوف معلوم ہو تو اسے دریا میں بہا دینا اور کوئی ڈر خوف یا رنج غم نہ کرنا، ہم یقیناً اسے تیری طرف لوٹانے والے ہیں اور اسے اپنے پیغمبروں میں بنانے والے ہیں
ایک اور بات یہ بھی ملتی ہے کہ یوسف علیہ السلام کے والد کو جب یہ خبر ملی کے یوسف علیہ سلام کو بھیڑیا کھا گیا ہے تو وہ روئے اور کہا کہ
فصبراٌ جمیل
جبکہ موسی علیہ السلام کی والدہ کو اللہ تعالی نے وحی کے ذریعے سے ان کو قلبی اطمینان دیا تھا جس کی وجہ سے وہ اپنا راز رکھ سکیں جو کہ وہ تقریبا بے نقاب کرنے والی تھیں۔ اور اس کو اللہ تعالی نے قرآن میں نقل کیا ہے
وَأَصْبَحَ فُؤَادُ أُمِّ مُوسَىٰ فَارِغًا ۖ إِن كَادَتْ لَتُبْدِي بِهِ لَوْلَا أَن رَّبَطْنَا عَلَىٰ قَلْبِهَا لِتَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
موسیٰ (علیہ السلام) کی والده کا دل بے قرار ہوگیا، قریب تھیں کہ اس واقعہ کو بالکل ﻇاہر کر دیتیں اگر ہم ان کے دل کو ڈھارس نہ دے دیتے یہ اس لیے کہ وه یقین کرنے والوں میں رہیں
اور موسی علیہ السلام کی والدہ میں اتنی ہمت آنے کی وجہ یہ بھی تھی کہ اللہ تعالی نے ان کو کہہ دیا تھا کہ ہم موسی علیہ السلام کو آپ کی طرف لوٹا دیں گے۔ جبکہ یوسف علیہ السلام کے معاملے میں یعقوب علیہ السلام کو کوئی وحی نہیں کی گئی جبکہ وہ نبی تھے اور موسی علیہ السلام کی والدہ کو وحی کے ذریعے بتایا کہ ہم موسی کو تمہارے پاس لوٹا دیں گے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حضرت یعقوب کو حضرت یوسف علیہ السلام کے لوٹنے کی خبر ملتی اور حضرت موسی علیہ السلام کی خبر نہیں دی جاتی جبکہ اس کا الٹ ہوا یعقوب علیہ السلام کو نبی ہونے کے باوجود خبر نہیں دی گئی جبکہ حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ جو کہ ایک عام اللہ کی بندی تھیں ان کو وحی کی گئی۔
یہ صرف اللہ کی ہی مرضی ہوتی ہے کہ جس کے دل میں بات ڈال دے۔
اللہ چاہیں تو شہد کی مکھی کو بھی وحی کرسکتے ہیں جس کا ذکر بھی قرآن میں ہے
وَأَوْحَىٰ رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ۔۔۔ 16:68
آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی۔۔۔
اسی طرح اللہ تعالی ایک مومن کے دل میں بات ڈال سکتے ہیں۔
اور اسی اطمینان قلب کو اللہ تعالی روک بھی لیتے ہیں چاہے کہ وہ نبی ہوں۔
اگر آپ کو صبر دیکھنا ہے تو یعقوب علیہ سلام کا دیکھیے
اور دلچسپ بات یہ ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو جب اپنے بیٹے کی کی موت کا پتہ چلا تو وہ اتنا روئے کہ ان کی بینائی چلی گئی جس کا قرآن میں بھی زکر ہے
وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ 12:84
ان کی آنکھیں بوجہ رنج وغم کے سفید ہو چکی تھیں
دوسری طرف موسی علیہ السلام کی والدہ تھیں جو کہ کچھ ہی دیر بعد موسیٰ علیہ السلام کو دودھ پلانے کی غرض سے فرعون کے محل میں گیئں اس کا ذکر قرآن میں آیا ہے
كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا
تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور آزرده خاطر نہ ہو
حضرت یوسف علیہ السلام کی کہانی میں حضرت یوسف کو ان کے اہل و عیال کے لیے رزق کا وسیلہ بنایا،
جبکہ حضرت موسی علیہ السلام کے معاملے میں ان کی والدہ ان کے رزق کا وسیلہ بنیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ کبھی کبھی والدین کسی کا وسیلہ بنتے ہیں اور کبھی اولاد رزق کا وسیلہ بنتی ہے
جب حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں ڈالا گیا یا تو اللہ تعالی نے وحی کی کے ایک دن تم اپنے بھائیوں کو یہ بتاؤ گے تم نے کیا کیا۔ بتانا مقصود یہ ہے کہ تمہارا پھر سے سے اتحاد ہوگا۔ جبکہ دوسری طرف موسی علیہ السلام کی والدہ کو وحی کی گئی کہ آپ کو آپ کے بچے سے ملا دیا جائے گا
ایک طرف بچے کو وحی کی گئی والدین سے ملانے کی اور دوسری طرف والدہ کو وحی کی گئی بچے سے ملانے کی۔
جاری ہے۔۔۔
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں