مطالعہ سورہ یوسف "خواب" ۔۔۔ حصہ دوم


مطالعہ سورہ یوسف
"خواب" ۔۔۔ حصہ دوم



پچھلے لیکچر میں ہم نے چاند اور سورج کی اہمیت کے متعلق پڑھا تھا کہ ان کا ہونا کتنا اہم ہے ہماری زندگی میں۔ ہم اسی سے وقت معین کرتے ہیں۔ ہماری زندگی اسی کے گرد گھومتی ہے۔

اور یاد رکھیں، یہاں والد اور والدہ کے لیے چاند اور سورج آیا ہے۔

تو معلوم کیا ہوتا ہے؟
آپ کی اپنی اولاد سے کوئی بھی گفتگو غیرضروری نہیں ہوتی۔ آپ نہیں جانتے کہ کون سی گفتگو ان کی زندگی پہ کیسا اثر چھوڑتی ہے۔
یہاں پہ یوسف علیہ السلام ایک خواب سنا رہے تھے۔ کیا وہ جانتے تھے کہ یہ لمحہ ان کی زندگی بدل دے گا؟
تو ہمیں اپنی اولاد کی کسی بھی بات کو غیرضروری سمجھ کر نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ اور یاد رکھیں، خدا سات آسمانوں کے اوپر سے آپ کو دیکھ رہا ہوتا ہے، اس گفتگو کو سن رہا ہوتا ہے۔

اس سے ایک اور بات معلوم ہوتی ہے، جب بچے بات کرتے ہیں، اللہ کو وہ اہم لگتی ہے۔
اس آیت میں ایک بچہ گفتگو کر رہا تھا۔ اللہ نے سنا، اور وہ قرآن کا حصہ ہے۔

بچوں کی بات سننا اہم ہے۔ جو وہ کہتے ہیں وہ اہم ہے۔ اپنی اولاد کے لیے بہترین سامع بننا اہم ہے۔ کیونکہ اللہ نے اسے اہم بنایا ہے۔

اِنِّـى
بےشک میں نے، بغیر شک کے، سچ میں۔

اِنِّـى استعمال ہوتا ہے، شک کو ہٹانے کے لیے۔
یوسف علیہ السلام کہہ رہے تھے کہ میں نے سچ میں ایسا خواب دیکھا، کیونکہ انہیں لگ رہا تھا کہ ایسا دیکھا جانا ممکن نہیں۔ اس لیے وہ اِنِّـى کا استعمال کر رہے تھے۔
ہوسکتا ہے ان کے ذہن میں ہو کہ شاید والد یقین نہ کریں کیونکہ خواب بہت مختلف تھا۔

جب بچے کچھ مختلف اور شاکنگ ایکسپیریئنس کرتے ہیں تو وہ ایسی زبان استعمال کرتے ہیں۔

یوسف علیہ السلام نے خواب سنانے سے قبل یاابتی کہہ کر پہلے محبت اور احترام ظاہر کیا تھی کیونکہ جو آگے وہ کہنے والے تھے انہیں لگ رہا تھا کہ وہ ٹھیک نہیں اور ابا کو برا لگ سکتا ہے۔ تو انہوں نے محبت اور احترام دکھانے کے بعد کہا کہ ایسا سچ میں ہوا ہے۔

اس سے ہمیں یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ بعض اوقات ہمیں کوئی گفتگو اپنے والدین یا شوہر/بیوی یا کسی سے بھی کرنی پڑتی ہے جس کا نتیجہ ہم جانتے ہیں کہ اچھا نہیں ہوگا، ہمیں لگتا ہے کہ یہ بات انہیں اچھی نہیں لگے گی لیکن وہ کرنا ضروری ہوتی ہے۔ اس بات کے لیے آپ کسی اور کے پاس نہیں جاسکتے۔
کیونکہ آپ کے رشتوں میں شفافیت ہونا ضروری ہے، وہ ہوگی تو ہی محبت اور احترام بھی قائم رہے گی۔
رشتوں میں شفافیت سے ہی ہر مشکل کا حل نکلتا ہے۔ اگر دونوں پارٹیز مسئلے کا حل چاہتی ہیں تو دونوں کو ٹرانسپیرنٹ ہو کر بات کرنا ہوگی چاہے کوئی بھی ٹاپک ہو۔

اِنِّـىْ رَاَيْتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَاَيْتُـهُـمْ

"میں نے گیارہ ستارے سورج اور چاند دیکھا، میں نے دیکھا"

یوسف علیہ السلام نے دو دفعہ کہا کہ "میں نے دیکھا" کیوں؟

کیونکہ انہوں نے کچھ ایسا دیکھا تھا جو ستارے چاند اور سورج عام طور پہ نہیں کرتے۔
وہ شاک میں تھے۔ شاک میں خواب بیان کر رہے تھے کہ جانتے ہیں میں نے کیا دیکھا؟ وہ میرے لیے سجدہ کر رہے تھے۔

کیا جب کوئی کسی کے لیے سجدہ کر رہا ہوتا ہے تو اسے ان کے قریب نہیں ہونا چاہیے سجدہ کرنے کے لیے؟ لیکن ستارے سورج اور چاند نزدیک نہیں۔
اسی وجہ سے یوسف علیہ السلام پریشان تھے۔
ہوسکتا ہے انہیں لگ رہا ہو کہ ایک وقت آئے گا جب میں اپنے بھائیوں اور والدین سے دور ہوں گا۔
لیکن کسی طرح وہ میرے نزدیک آجائیں گے اور میرے لیے سجدہ کریں گے۔
تو وہ دور کیوں ہوں گے؟ پھر نزدیک کیسے آئیں گے؟ اور میرے لیے سجدہ کیوں کریں گے؟

یوسف علیہ السلام شاک میں تھے کہ سب میرے لیے سجدہ کریں گے؟ میرے والدین بھی؟ بھائی بھی؟
ان سے بتایا بھی نہیں جا رہا تھا اسلئے سورج اور چاند کی ترتیب بھی بدل دی کنفیوزن میں۔
وہ اس بات پہ پریشان تھے کہ وہ کس لیے مرکز توجہ بن رہے ہیں؟ اور انہیں یہ والد کو بتاتے ہوئے بھی پریشانی ہورہی تھی کہ کہیں ان کو برا نہ لگ جائے۔

میرے حساب سے، یہ میری تھیوری ہے، ممکن ہے ایسا نہ ہو۔ لیکن میرا یہ ماننا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے قبلہ تعمیر کیا جس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ سجدہ صرف اللہ کو کیا جائے۔ کیونکہ جب اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا تو فرمایا: تم اور اسماعیل میرے گھر کو پاک کرو ان کے لیے جو اس کا طواف کریں، اعتکاف کرنے والوں کے لیے، رکوع کرنے والوں کے لیے اور سجدہ کرنے والوں کے لیے۔
تو کعبہ کی تعمیر کیوں کی جارہی تھی؟ کہ تمام انسان اللہ کو سجدہ کریں۔
قرآن پہ ایک جگہ اللہ نے فرمایا ہے: زمین و آسمان میں جو بھی سجدہ کرتا ہے اللہ ہی کے لیے کرتا ہے۔

پھر قرآن میں ہم دیکھتے ہیں ایسے سجدے کی بھی بات ہورہی ہے جو اللہ کے لیے نہیں۔

ا۔ فرشتوں نے آدم علیہ السلام کے لیے کیا۔
ب- ساحر جو موسی علیہ السلام کے آگے سجدے میں جھک گئے تھے۔
ت- یوسف علیہ السلام کو کیا گیا سجدہ

ل الا کے لیے بھی استعمال ہوسکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ساحر موسی علیہ السلام کے قصے میں سجدے میں گر پڑے موسی علیہ السلام کے لیے نہیں بلکہ ان کی وجہ سے۔
وہ اللہ کی طاقت دیکھ کر سجدے میں گر پڑے۔

فرشتوں کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ سجدہ کریں اللہ کے لیے، کیونکہ اللہ نے اتنی اعلی شان شے بنائی تھی۔

پاکستانی اس بات کو آرام سے سمجھ سکتے ہیں۔ جب پاکستان ورلڈ کپ جیت جاتا ہے تو سب سجدے میں گر پڑتے ہیں۔ سجدہ اللہ کے لیے ہوتا ہے، میچ کے لیے نہیں۔

اللہ کی بڑائی، حکمت الہی دیکھ کر سجدے میں جھک جاتے ہیں۔

ایک یہ چیز بھی مانی جاتی ہے کہ قرآن سے پہلے سجدہ تکریم ہوا کرتا تھا۔ لوگ عزت میں سجدہ کردیا کرتے تھے دوسروں کے آگے۔ لیکن مجھے کوئی مستند احادیث اس پہ نہیں ملی، نہ قرآن میں کوئی ایسا ذکر ہے۔

ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کو اسلام کی تعلیم دی تھی اور انہوں نے کعبہ کی تعمیر کی تھی اور یہ سکھایا تھا کہ سجدہ اللہ کو کرنا۔ ایسا ہی ہے نا؟ تو انہوں نے اپنی اولاد سے یہ کیوں نہ کہا کہ تم تکریم کے لیے دوسروں کو بھی سجدہ کرسکتے ہو؟

ابراہیم علیہ السلام نے اسحاق علیہ السلام کو یہی سکھایا۔ اسحاق علیہ السلام نے یعقوب علیہ السلام کو بھی وہی تعلیم دین دی۔ اور یعقوب علیہ السلام نے یوسف کو وہی دین سکھایا۔ تو میرا ماننا ہے سجدہ صرف اللہ ہی کے لیے ہے اور اسی کے لیے کیا گیا۔

آگے ہم پڑھیں گے کہ کس طرح ایک بادشاہ نے بھی ایک خواب دیکھا تھا اور جس کے باعث وہ بہت پریشان تھا۔ اس نے محل کے درباران سے پوچھا جنہیں اس کام کی تنخواہ ملتی تھی، کہ خواب کا معنی سمجھاو۔ جس پر سب نے کہا کہ یہ تو بس خواب ہے۔ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ وہ بادشاہ تھا۔ اور یوسف ایک عام بچے لیکن پھر بھی یعقوب علیہ السلام کا ردعمل ان لوگوں جیسا نہ تھا جنہوں نے بادشاہ کی بات دھیان سے نہ سنی بلکہ یعقوب علیہ السلام کا ردعمل قابل تعریف ہے۔

جاری ہے ۔۔۔۔ 



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں