مطالعہ سورہ یوسف "اپنے بھائیوں سے ذکر مت کرنا" ۔۔۔ حصہ دوم


مطالعہ سورہ یوسف
"اپنے بھائیوں سے ذکر مت کرنا" ۔۔۔ حصہ دوم



پھر اس کے بعد کہا
فيكيدوا لك كيدا
مفہوم
یعنی کہ وہ تمہارے خلاف سازش کریں گے

یہ جو لفظ 'لك' ہے خاص اس بات کی طرف نشاندہی کر رہا ہے کہ 'خاص طور سے یہ تمہارے خلاف لازمی سازش کریں گے'

اب ذرا میں تھوڑا آپ سے لفظ 'کید' کے بارے میں بات کر لوں جس کا میں نے سازش یا اسکیم سے ترجمہ کیا ہے۔

جب ہم سازش یا اسکیم کی بات کرتے ہیں تو اس میں سب سے پہلی بات یہ ہوتی ہے کہ یہ خفیہ طور سے کی جاتی ہے دوسرا اس کے مختلف مراحل بھی ہوتے ہیں۔
لفظ کادا کے مختلف مطلب بیان ہوئے ہیں جیسے
جب کسی شخص کو الٹی ہونے والی ہو اور وہ اسے روکے رہے تو اس کیفیت کو کادا بولتے ہیں۔ یا آگ بھڑکنے سے پہلے کی کیفیت کو کادا کہتے ہیں۔

کوئی ایسے ہی نفرت آمیز چیز جو آپ کے اندر پل رہی ہو اور پھر وہ باہر آجائے۔اور آپ کو اس وقت پتہ چلے جب بہت دیر ہوچکی ہو۔

حضرت یعقوب اپنے بیٹے کو یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ کہ تم اگر اپنے بھائیوں کو یہ خواب بتاؤ گے تو وہ تمہارے سامنے تو ہنسیں گے مگر تمہارے پیٹ پیچھے لازمی کوئی سازش رچیں گے جس کی تم کو خبر بھی نہیں ہوگی الا یہ کہ بہت دیر ہو چکی ہو۔

ویسے حضرت یعقوب علیہ السلام کو یہ سب کیسے پتہ تھا تھا کہ ان کے بیٹے اس طرح کی حرکت کرسکتے ہیں؟
ایک جواب تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کو وحی کے ذریعے خبر دی گئی ہو، مگر میری دلیل یہ ہے کہ ان کو یہ سب اس لیے پتا تھا کہ وہ انہیں کی اولاد تھے اور ماں باپ ہی اپنی اولاد کو سب سے زیادہ بہتر جانتے ہیں۔

ان کو معلوم تھا کہ یہ دوغلے قسم کے ہیں وہ صرف آپس میں ہی بات کرتے ہیں انہیں یوسف کی شمولیت پسند نہیں۔
ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ یعقوب علیہ السلام نے حضرت یوسف کی تربیت الگ طریقے پر کی ہوں اور باقی بھائیوں کی تربیت برے انداز سے کی ہو۔ اور قرآن نے حضرت یعقوب علیہ السلام کو ایک مثالی شخصیت، ایک مثالی باپ قرار دیا ہے۔
تو ایسا تو ہر گز نہیں ہوسکتا کہ حضرت یعقوب علیہ سلام نے اپنے اپنے بیٹوں کی تربیت بہت الگ ڈھنگ سے کی ہو اور حضرت یوسف کی الگ طریقے سے۔

حضرت یعقوب علیہ السلام بہت ہی خوبصورت والے اور دوراندیش باپ تھے۔ ان کو یہ تو معلوم تھا کہ ان کے بیٹے جو حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ سازش کریں گے مگر اپنے بیٹے کو یہ بھی سمجھایا کہ یہ کھیل نیا نہیں ہے اور صدیوں سے چلتا رہا ہے۔ اس ہماری فیملی کے ساتھ جو کھیل رہا ہے وہ تمہارے بھائی نہیں، تمہارے بھائیوں کو تو پتہ بھی نہیں کہ وہ اس کھیل کے صرف ایک مہرے ہیں۔ اصل کھیل کھیلنے والا شیطان ابلیس ہے جو کہ بہت عرصے سے یہ کھیل کھیل رہا ہے اور اگر اسے موقع ملے تو وہ میرے اور تمہارے ساتھ بھی کھیلے۔

وہ ہمارے اوپر ہر طرح سے آئے گا وہ ہمارے اوپر بغض، حسد، عداوت دشمنی، کینہ، منفی سوچ، لالچ، مایوسی، یعنی کے ہر قسم کا ہتھیار لے کر آئے گا ہمارا شکار کرنے کے لئے۔
ہاں بظاہر لگتا ہے کہ تمہارے بھائی تمہارے خلاف سازشیں کر رہے ہیں مگر اس کے پیچھے صرف اور صرف شیطان ابلیس ہے.اور اس آیت کا اختتام بھی اسی بات پر ہوتا ہے

إِنَّ الشَّيْطَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوٌّ مُّبِينٌ (5)
بے شک شیطان انسان کا کھلا/واضح دشمن ہے۔

دیکھیں جہاں تک میں نے قرآن میں شیطان کو پڑھا ہے وہ صرف اور صرف یہ چاہتا ہے کہ پوری انسانیت وہی محسوس کرے جو اس نے آدم کی تخلیق کے وقت محسوس کیا تھا تھا وہ حسد وہ بغض وہ عداوت۔
اور اس میں سب شامل ہیں اس میں انبیاء انبیاء کی اولاد صالحین صالحین کی اولاد ہر طرح کا بندہ اس کے اندر شامل ہیں

لَأَقۡعُدَنَّ لَهُمۡ صِرَٲطَكَ ٱلۡمُسۡتَقِيمَ
ترجمہ
میں بھی تیرے سیدھے رستے پر ان (کو گمراہ کرنے) کے لیے بیٹھوں گا۔

حضرت یعقوب علیہ السلام نے سمجھاتے ہوئے اپنے بیٹے کو کہتے ہیں کہ شیطان آج حسد کے روپ میں آیا ہے، کل کو ہوس کی صورت میں آئے گا پھر اس کے بعد لالچ کی صورت میں پھر اس کے بعد بغض اور کینہ کی صورت میں پھر اس کے بعد بھول جانے کی صورت میں۔ وہ اپنا ہر طرح کا پینترا اپنائے گا انسانیت کو گمراہ کرنے کے لیے۔ وہ سیدھی طرف سے بھی آسکتا ہے الٹی طرف سے بھی آسکتا ہے، آگے سے بھی آسکتا ہے اور پیچھے سے بھی آسکتا ہے مگر اصل بات یہ ہے کہ شیطان ہی اصل دشمن ہے۔ تو نفرت جو ہے اپنے شیطان سے کرنی ہے نہ کہ اپنے بھائیوں سے۔ کیوں کہ اللہ کے حکم سے جب تک سانس چل رہی ہے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انسان شیطان کی چالوں کو سمجھ جائے اور اللہ تعالی کی طرف رجوع کرے اور اس سے توبہ کرے۔

اور ایک بات یہ بھی ذہن نشیں کریں کہ دنیا میں کوئی بھی ایسا گھرانہ نہیں ہے جو کہ پیچیدگی ہو یا مسئلہ مسائل سے آزاد ہو۔ہر گھر میں کوئی نہ کوئی مسئلہ رہتا ہے۔ اللہ تعالی نے ہر گھر میں کوئی نہ کوئی ایک ایسا شخص ضرور پیدا کیا ہے جو گھر کے باقی لوگوں سے منفرد ہوگا۔ اسی طرح اللہ تعالی نے ہمیں بنایا ہے۔

اللہ تعالی کا فیصلہ ہے کہ ہم بہت سارے لوگوں کے لیے آزمائش ہوتے ہیں اور بہت سارے لوگ ہمارے لیے آزمائش ہوتے ہیں۔ اور یہ آزمائش کبھی کبھی وقتی طور کے لیے بھی ہوتی ہے اور کبھی کبھی زندگی بھر کے لیے۔
یا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک طرف حضرت یعقوب علیہ سلام ایک نیک بزرگ ہدایت یافتہ نبی اور دوسری طرف ان کی اولاد۔ دور دور تک کہیں بھی مماثلت نظر نہیں آتی۔ مگر یہ اللہ تعالی کی منشا ہے اس نے اسی طرح پیدا کیا ہے۔
جو سبق ہم یہاں سیکھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ہماری زندگی میں بہت سارے لوگ ضروری نہیںکہ ہماری پریشانی کا سبب بنے نے مگر یہ بھی نہیں ہوتا کہ بہت سارے لوگ ہمارے لئے آسانی پیدا کریں۔

لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جو شخص ہمارے لئے یے مشکل کا باعث وہ ہمارا دشمن ہے، مگر ایسا نہیں ہے۔ بلکہ یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ اس چیز کو نہیں سمجھ پا رہے ہیں جو شیطان ان کے ساتھ دشمنی کی چال چل رہا ہے۔
وہ اس چیز کو پہچاننے میں ناکام ہو جاتے ہیں کہ شیطان انسان کو اپنے بغض کے لیے استعمال کر رہا ہے،
اگر ہم کسی ایک اچھے گھرانے سے آرہے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم شیطان کے حملے سے محفوظ ہیں۔

ہم آگے کی بات کل کریں گے جس میں میں دوسرا حصہ بتاؤں گا۔

جاری ہے ۔۔۔۔


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں