مطالعہ سورہ یوسف "خواب" ۔۔۔ حصہ اول


مطالعہ سورہ یوسف
"خواب" ۔۔۔ حصہ اول



آیت نمبر چار میں یوسف علیہ السلام کے قصے کا آغاز ہوتا ہے۔ آیت نمبر چار اور اس سے اگلی تین آیات میں ان کے قصے کا پہلا سین بیان ہوا ہے۔

"جس وقت یوسف نے اپنے باپ سے کہا اے باپ میں نے گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کو خواب میں دیکھا کہ وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔ "

قصے کا آغاز ڈائریکٹلی ان کے نام اور خواب سے ہوتا ہے۔ اس سے پہلے یوسف علیہ السلام کا کوئی تعارف نہیں کروایا گیا کہ وہ کون تھے۔

نبی کریم صل اللہ علیہ والہ وسلم کو جب یہ آیات وحی کی جارہی تھیں تو وہ بھی اس قصے کو پہلی مرتبہ سن رہے تھے۔

اس سورت کے نزول کے کچھ عرصے بعد ہی نبی کریم صل اللہ علیہ والہ وسلم معراج پہ تشریف لے گئے تھے جہاں وہ ہر نبی سے ملے تھے، یوسف علیہ السلام سے بھی۔

یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ گفتگو کا آغاز یعقوب علیہ السلام نے نہیں بلکہ یوسف علیہ السلام نے کیا تھا۔ وہ ان کے پاس آئے تھے اپنا خواب سنانے۔
اس سے ہم سیکھتے ہیں کہ والدین اور اولاد کے درمیان کس طرح کا تعلق ہونا چاہیے ہے۔ خاص طور پہ والد کے ساتھ۔ ایک بچہ اتنا کمفرٹیبل ہونا چاہیے کہ وہ اپنے والدین سے کسی بھی طرح کی بات شیئر کر سکے۔ ایسا نا ہو کہ وہ بیٹھ کر سوچتا رہے کہ اگر میں نے یہ بات ان سے کی تو وہ ناراض ہوں گے، یا مجھ پہ یقین نہیں کریں گے، یا سنیں گے ہی نہیں۔ یہ ایک صحت مند رشتہ نہیں ہوتا۔ والدین کو ایسا رشتہ قائم کرنا چاہیے کہ اولاد خود ان سے بات کرنا یا شیئر کرنا پسند کریں، انہیں یقین ہو کہ ہمارے والدین ہمیں سنیں گے، اور ان سے بہتر کوئی نہیں سن سکتا۔
لیکن عموما کیا ہوتا ہے؟
بچہ بات کر رہا ہوتا ہے اور والدین کی ان کی طرف توجہ ہی نہیں ہوتی۔
اور خاص طور پہ چھوٹے بچوں کو تو عادت ہوتی ہے زیادہ بولنے کی۔ اگر آپ کے بچے ہیں تو آپ کو اندازہ ہوگا جب آپ انہیں سکول سے پک کرتے ہیں تو گھر تک سارا رستہ وہ کچھ نہ کچھ بولتے ہوئے گزارتے ہیں۔ وہ سارے دن کی قصے کہانیاں آپ کو سنا رہے ہوتے ہیں مگر آپ کی توجہ ان کی طرف ذرا بھی نہیں ہوتی۔ اور ان کو پتا ہوتا ہے کہ آپ توجہ نہیں دے رہے، سن نہیں رہے مگر وہ پھر بھی بولتے چلے جاتے ہیں کیونکہ وہ آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔

بہت دفعہ اولاد والدین سے گفتگو کرنا چاہتی ہے، مگر والدین یا فون میں مصروف ہوتے ہیں یا کسی اور کام میں۔
ہر بچہ عمر کے ایک ایسے حصے سے گزرتا ہے جہاں وہ چاہتا ہے کہ اسے توجہ دی جائے۔ جو باتیں وہ کر رہے ہوتے ہیں اس کے پیچھے کچھ چھپا ہوتا ہے اور آپ وہ تب ہی جان سکتے ہیں جب آپ اپنی اولاد کو توجہ دیں گے۔

اگر کوئی بچہ مختلف طریقے سے ایکٹ کر رہا ہے جبکہ عام طور پہ وہ ویسا نہیں کرتا، بدتمیزی نہیں کرتا، غصہ نہیں کرتا، پر اچانک سے کرنے لگ گیا ہے، اس کے رویے میں فرق آرہا ہے تو اس کا مطلب ہے اس سب کے پیچھے کچھ چل رہا ہے، کوئی بات ہے۔ ان سے پوچھیں کہ کیا ہوا ہے، آج ایسا کیا ہوا جو وہ ایسے ری ایکٹ کر رہے ہیں۔ کیا کسی نے کچھ کہا ہے؟ سکول میں کچھ ہوا ہے؟
اتنا کمفرٹ زون بنائیں کہ وہ خود آکر آپ سے بات کریں۔ آپ کو انویسٹی گیٹر بننے کی ضرورت نہیں بلکہ انہیں کمفرٹیبل کریں۔

اور اولاد کو بھی چاہیے کہ وہ والدین سے بات کرے۔ یہ مت سوچیں کہ "ایک دفعہ میں نے ان سے بات کی تھی تو انہوں نے میری سنی نہیں، اس لیے مجھے یقین ہے وہ کبھی بھی نہیں سنیں گے
ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ کبھی بھی نہ سنیں۔ اگر ایک دفعہ ایسا ہوچکا ہے تو اس کا بالکل یہ مطلب نہیں کہ آپ ان سے بات کرنا چھوڑدیں، بلکہ انہیں بتائیں کہ آپ کو ایسا محسوس ہوا ہے۔ آپ کا حق ہے کہ آپ والدین سے بات کریں، انہیں سنوائیں۔

ایک وقت آتا ہے جب آپ کے بچوں کو دوسرے لوگ مل جائیں گے بات کرنے کے لیے اور پھر آپ کی ان سے گفتگو ختم ہوجائے گی۔ وہ فون پہ سارا وقت ان سے تو بات کرلیں گے مگر آپ کے لیے خاموش ہوجائیں گے۔

جب وہ چھوٹے تھے تو آپ کی توجہ کے طلبگار تھے، آپ کی توجہ کے لیے کوشش کرتے تھے لیکن جیسے ان کی عمر بڑھتی جاتی ہے وہ نئے دوست بنانے لگ جاتے ہیں اور پھر آپ ان سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں پر وہ نہیں کرتے، پھر آپ ان کی توجہ کے لیے کوشش کرتے ہیں۔ یہ سب کے ساتھ ہوتا ہے اور یہ ہوگا۔

خیرکم خیرکم من اھلہ
تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے ساتھ بہترین ہے۔

ہم باہر تو مہذب طریقے سے رہتے ہیں مگر اپنے گھر والوں کے ساتھ ہمارا رویہ بالکل الگ ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

یوسف علیہ السلام محبت اور احترام کے ساتھ اپنی خواب سنا رہے تھے، اور یعقوب علیہ السلام اسی محبت اور احترام سے سن رہے تھے۔

والدین کیا کریں کہ وہ اپنے بچوں سے ریلیٹ کر سکیں؟

صرف اس بات پہ غور مت کریں کہ ویڈیو گیم کھیلنا ان کا شوق ہے، بلکہ آپ کو پتا ہونا چاہیے کہ وہ کس طرح کی گیمز کھیل رہے ہیں۔ آپ کو پتا ہونا چاہیے کہ وہ کون سا ٹی وی شو دیکھ رہے ہیں۔ بلکہ آپ ان کے ساتھ دیکھا کریں۔ ان کی ایکٹی ویٹی میں حصہ لیا کریں۔ جو وہ کرتے ہیں وہ ان کے ساتھ کیا کریں۔ اور نہ صرف ان کے کاموں میں دلچسپی لیں بلکہ انہیں اپنے شوق اپنے کام میں بھی شامل کریں۔ آپ گیس بھروانے جارہے ہیں انہیں ساتھ لے کر جائیں۔
ایکسپیریئنس چیزوں سے زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ اپنی پیرنٹنگ بس اس تک محدود مت رکھیں کہ آپ نے انہیں کھانے کو کچھ لا دیا، یا کھلونے، کپڑے خرید دیے، یہ چیزیں وہ آج سے سال بعد یا پانچ سال بعد یاد بھی نہیں رکھیں گے۔ انہیں نہیں یاد رہے گا کہ آپ نے انہیں عید پہ کیا تحفہ دیا تھا۔ یاد رہے گا تو وہ وقت وہ میموری جو آپ نے ان کے ساتھ شیئر کی ہوگی۔ انہیں اپنے ساتھ باہر لے کر جائیں، ان سے دوستی کریں۔

آپ خود یاد کرنے کی کوشش کریں کیا آپ کو یاد ہے بچپن میں آپ کو کب کونسا تحفہ ملا تھا؟ نہیں۔ مگر کیا وہ وقت بھولتا ہے جو آپ نے ان کے ساتھ گزارا جس میں آپ بہت خوش تھے انکے ساتھ؟
یاد ہوگا تو یہ سب کہ ایک دن ابا نے گاڑی چلانا سکھائی تھی، یا امی نے کچھ بنانا سکھایا تھا۔
ایکسپیریئنس شیئر کرنے سے جو تعلق قائم ہوتا ہے وہ عام طریقوں سے نہیں ہوسکتا۔ وہ ان باتوں سے نہیں ہوگا کہ "کیسے ہو، آج کیا کیا؟" اور اس کے بعد وہ سارا دن اپنے کمرے میں اور آپ اپنے کمرے میں۔
پھر ایک دن آپ اپنی اولاد کو کسی شیخ پاس لے جاتے ہیں کہ "شیخ، میرا بیٹا بہت اچھا ہے مگر یہ مجھ سے بات نہیں کرتا۔" یہ طریقہ غلط ہے۔ شیخ کے پاس ایسی کوئی تسبیح نہیں ہوتی جس کو پڑھ کہ دم کرنے سے وہ ٹھیک ہوجائے گا۔ یہ آپ ہی کرسکتے ہیں۔ یہ کمیونیکیشن گیپ کی وجہ سے ہے۔ اس گیپ کو پُرکریں۔

یہ آیت ہمیں سکھا رہی ہے کہ ہمیں اپنی اولاد کے لیے ایسا ماحول قائم کرنا چاہیے کہ وہ خود ہم سے بات کرنا چاہے۔ وہ خود آکر ہم سے اپنا خواب بیان کرے، اپنی بات شیئر کرے۔

یوسف علیہ السلام نے اپنے والد سے کہا: اِذْ قَالَ يُوْسُفُ لِاَبِيْهِ يَآ اَبَتِ

قرآن میں ایک لفظ بھی اضافی نہیں ہے۔ اللہ چاہتا تو بس اتنا کہہ کر بات بیان کردیتا کہ یوسف نے کہا : "ابا میں نے گیارہ ستارے دیکھے۔۔۔۔"
اتنی سی بات سے سب کو سمجھ میں آجاتا۔ لیکن اللہ نے کیا فرمایا؟ "کہ یوسف نے اپنے باپ سے کہا کہ میرے ابو میں نے گیارہ ستارے دیکھے۔۔۔۔" ابو کا لفظ یہاں اضافی ہے ، ہے نا؟
پر نہیں۔ اللہ بتانا چاہ رہا ہے کہ یوسف اور یعقوب علیہ السلام کے درمیان کیسا تعلق تھا کہ یوسف نے اتنی محبت اور احترام سے اپنے ابو کو پکارا۔
یہاں ہم سب کے لیے سبق ہے کہ ہم اپنی اولاد کے لیے وہ دوست بنیں جس کے پاس وہ ہر بات کے لیے آئیں۔ ہم ان کی سپورٹ بنیں، وہ تحفظ کے لیے ہمارے پاس آئیں۔
لیکن آج معاشرے میں یہ اصول بن چکا ہے کہ باپ بس پےچیک، گروسریز، ڈاکٹر پاس لے جانے کے لیے ہے۔ یہ کر کے والد سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے۔ بس ہوم ورک کا پوچھ لیا، مارکس کا پوچھ لیا۔ اور بس۔ اس کے علاوہ وہ کوئی ذمہ داری نہیں لیتے۔

یوسف علیہ السلام نے خواب میں گیارہ ستارے دیکھے، اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ستاروں کے ساتھ صرف چاند نظر آتا۔ مگر انہوں نے سورج بھی دیکھا۔
اور آیت میں ان تینوں کا آرڈر بھی مختلف ہے۔ ستاروں کے فورا بعد چاند کا کہنے کے بجائے، سورج کا کہا گیا۔

"میں نے گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کو خواب میں دیکھا"

اس سے پتا لگتا ہے کہ یوسف علیہ السلام کنفیوز تھے، پریشان تھے اس خواب کی وجہ سے، اور انہیں معلوم تھا کہ خواب میں جو ستارے سورج چاند نظر آرہا تھا وہ اصل میں یہ نہیں بلکہ کسی اور طرف اشارہ ہے۔
اور انہیں اس بات کا بھی اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ ان کی فیملی کی بات ہورہی ہے۔

ستارے رات کے آسمان کی خوبصورتی کا باعث ہیں۔ وہ ہدایت اور کمفرٹ کا ذریعہ بھی ہوسکتے ہیں، کیونکہ ستاروں کے ذریعے لوگ سفر کرتے رہے ہیں۔
اور یہ صرف سفر کی حد تک محدود ہے۔
ہمارا تعلق اپنے بہن بھائیوں سے بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ وہ زندگی میں ہر جگہ ساتھ نہیں ہوتے، کمفرٹ اور ہدایت کے لیے ہمارے نزدیک رہتے ہیں۔
اور انہیں چاہیے بھی کہ وہ ہماری زندگی میں خوبصورتی کا عنصر بنے رہیں۔
ہمیشہ ساتھ نہیں رہتے، مگر ضرورت کے وقت موجود ہوتے ہیں۔
لیکن سورج اور چاند ہماری زندگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ ہماری زندگی کے لیے ضروری ہیں۔

زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ اور چاند زمین کے گرد گھومتا ہے۔ ہم سورج کے گرد گھوم رہے ہیں اور چاند ہمارے گرد گھوم رہا ہے۔

ایک وقت ہوتا ہے جب ہم اپنے ماں باپ کے پاس ان کی توجہ کے لیے دوڑتے ہیں۔ پھر ایک وقت آتا ہے جب وہ ہم پہ انحصار کرنے لگ جاتے ہیں۔ پر اس وقت بھی فائدہ ہمارا ہی ہوتا ہے۔

جا ری ہے ۔۔۔۔


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں