مطالعہ سورہ یوسف
"مستقبل کی جھلک، ماضی کی سمجھ" ۔۔۔ حصہ اول
وَكَذَٰلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ وَيُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَعَلَىٰ آلِ يَعْقُوبَ كَمَا أَتَمَّهَا عَلَىٰ أَبَوَيْكَ مِن قَبْلُ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
"اور ایسا ہی ہوگا (جیسا تو نے خواب میں دیکھا ہے کہ) تیرا رب تجھے (اپنے کام کے لیے) منتخب کرے گا اور تجھے باتوں کی تہہ تک پہنچنا سکھائے گا اور تیرے اوپر اور آل یعقوبؑ پر اپنی نعمت اسی طرح پوری کرے گا جس طرح اس سے پہلے وہ تیرے بزرگوں، ابراہیمؑ اور اسحاقؑ پر کر چکا ہے، یقیناً تیرا رب علیم اور حکیم ہے"
یہاں پر ہم واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ اس آیت کے دو حصے ہیں ایک مستقبل کا جس میں اللہ تعالیٰ بات کررہے ہیں کہ وہ تمہیں چنیں گے تمہارے اوپر اپنی نعمت تمام کریں گے، آل یعقوب پر اپنی نعمت تمام کریں گے۔ یہ سب ابھی مستقبل میں ہونا ہے اور ساتھ ہی ماضی کی بات کردی کہ جس طرح اللہ تعالی نے تمہارے بزرگوں حضرت اسحاق علیہ السلام (دادا) اور حضرت ابراہیم علیہ السلام (پردادا) پر اپنی نعمت تمام کی لیکن دونوں حصوں میں بات اللہ تعالی کے فضل کی ہے کہ اللہ نے تمہیں چن لیا تمہارے اوپر اپنی نعمت تمام کی - پچھلی آیت میں وارننگ دی کہ اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے مت کرنا وہ تمہارے خلاف کوئی منصوبہ کریں گے بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے اور ابھی مستقبل کے بارے میں امید دلائی جارہی ہے کہ اللہ نے تمہیں چن لیا ہے۔ یہاں پر منفی بات کے بعد ایک مثبت بات کیوں لائی گئی؟ اچھی خبر کو گھر والوں کے ساتھ شئیر کرنا آسان ہوتا ہے کیونکہ یہ آپ کو پرامید بناتی ہے، آپ کو اعتماد دیتی ہے اور قرآن حقائق کو نظر میں رکھ کر انسان کو پرامید بناتا ہے۔
صرف بری خبر سنا دینا کہ تمہارے بھائی تمہارے دشمن ہیں وہ کبھی بھی تمہارے خلاف کچھ بھی کر سکتے ہیں، انسان کو مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل سکتا ہے۔ اور صرف مثبت خبر بتانا انسان کو حقائق سے غافل کر دیتا ہے اور حد سے زیادہ پراعتماد بنا دیتا ہے۔
لیکن قرآن ان دونوں چیزوں کو ساتھ لے کر چلتا ہے امید بھی دلاتا ہے اور خطرات سے بھی آگاہ کرتا ہے کہ اپنے سامنے خطرہ دیکھ کر اس سے بچنے کے لئے کچھ تدبیر بھی کرو۔ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے وہ تمہارے بھائیوں کو تمہارے خلاف کر دے گا، تو دوسری طرف تمہارے ساتھ تمہارا رب ہے جس نے تمہیں چن لیا ہے اور یہی شیطان اور رب کی لڑائی آدم کے زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ حضرت یعقوب یہاں پر حضرت یوسف علیہ السلام کو اسی طرح دونوں طریقوں سے سمجھا رہے ہیں تمہارے بھائی تمہارے دشمن ہیں ماحول سازگار نہیں ہیں۔ لیکن اللہ تعالی نے تمہیں ایک خاص مقصد کے لیے چن لیا ہے تو تمہیں مایوس نہیں ہونا اور یہی طریقہ ہمیں اپنے بچوں کی تربیت میں استعمال کرنا چاہیے انکو زندگی کے روشن اور تاریک دونوں پہلوؤں کے بارے میں بتانا ہے اللہ تعالی ہمیں اس کی توفیق عطا کریں۔ آمین۔
اب آیت کی طرف چلتے ہیں آیت کا پہلا لفظ 'کذالک' ہے یعنی اسی طرح چن لیا تمہیں تمہارے رب نے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس طرح؟ عزیز مصر جب ایک غلام کو خرید کر اپنے گھر لے جا رہا تھا تو اس نے چند ہی گھنٹوں میں جان لیا کہ یہ بچہ بہت خاص ہے اور گھر لا کر اپنی بیوی کو حکم دے رہا تھا اسے عزت سے رکھو کہ شاید ہم اسے اپنی اولاد بنا لیں وہ یہ ایک ایسے غلام کے بارے میں کہہ رہا تھا جسے اس نے ابھی خریدا تھا اسی طرح حضرت یعقوب علیہ اسلام جو کہ آپ کے حقیقی والد تھے بچپن سے آپ کو جانتے تھے کیا وہ آپ کی صلاحیتوں سے واقف نہیں ہوں گے وہ بچپن سے جانتے تھے کہ میرے بارہ بچوں میں سے یہ بچہ سب سے زیادہ محنتی اور لگن سے کام کرنے والا ہے۔ یہ باقی سب سے مختلف اور ان سے خاص ہے۔ خواب آنے سے پہلے بھی وہ یہ سب جانتے تھے لیکن آپ نے کبھی اس کو احساس نہ دلایا کہ کہیں وہ ان کے پیار میں بگڑ نہ جائے۔ دوسری طرف حضرت یوسف علیہ السلام انتہائی عاجز پسند تھے اپنے بھائیوں کی تمام تر خودغرضی کے باوجود آپ ان سے اچھے تعلقات استوار رکھنا چاہتے تھے اور اسی وجہ سے شاید کہ آپ اپنے بھائیوں سے اپنے خواب کا تذکرہ کر دیتے لیکن آپ کے والد نے آپ کو منع کردیا اپنا خواب اپنے بھائیوں کو مت سنانا۔
آپ کے والد کو احساس تھا کہ اللہ تعالی آپ کو بھی اپنے لئے چنیں گے لیکن پہلی وحی کس طرح کی ہوگی یہ اندازہ نہ تھا تو جب حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والد کو اپنا خواب سنایا تو آپ کو اندازہ ہوا کہ یوں اس طرح آپ کے رب نے حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے لیے چن لیا ہے۔
یہ خواب حقیقت میں ایک وحی کی شکل ہی تھا۔ یوں حضرت یوسف علیہ السلام پر وحی کا آغاز ہوا اور آپ کو نبوت عطا کر دی گئی۔ لیکن خواب کا ذکر آیت نمبر چار میں ہے اور ہم آیت نمبر چھ پر ہیں۔ اس لفظ کذالک میں کچھ اور بھی چھپا ہوا ہے جس کا اشارہ آیت نمبر پانچ میں دیا ہوا ہے حضرت یعقوب علیہ السلام جانتے تھے یہ خواب اپنے ساتھ بہت ساری مشکلات بھی لے کر آئے گا حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائیوں کے درمیان تنازعہ کا باعث بنے گا جس میں سب سے زیادہ متاثر حضرت یوسف علیہ السلام ہی ہوں گے اس لیے آپ اپنے بیٹے کو ایک ہمت دلا رہے ہیں کہ جتنی بھی مشکلات جتنی بھی مصیبتیں اس راستے میں آئیں یہ یاد رکھنا کہ اللہ نے تمہیں چن لیا ہے اس کام کے لیے جو صرف تم کر سکتے ہو وہ کوئی اور نہیں کرسکتا۔ تیسرا مطلب جو اس لفظ میں چھپا ہوا ہے وہ حضرت یوسف علیہ السلام کی صلاحیتوں اور عاجزی سے متعلق ہے آپ جس طرح اپنے والد سے اپنے خواب کا نپے تلے الفاظ میں تذکرہ کر رہے تھے اور خود کو اتنے بلند مقام پر رکھتے ہوئے ہچکچا رہے تھے جہاں پر باقی سب آپ کو سجدہ کر رہے تھے۔ آپ کی اس عاجزی کے پیش نظر حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا کہ یوں اس طرح اللہ تعالی نے تمہاری اس عاجزی کے بدلے میں تمہیں چن لیا ہے۔
عربی میں چننے کے لئے تین لفظ آتے ہیں
اختیار ، اصطفی اور اجتبی
اختیار ہوتا ہے کسی کو اس کی اچھائی یا اس میں موجود خیر کی وجہ سے اسے چننا استخارہ کا لفظ اسی سے نکلا ہے۔
اصطفی ہوتا ہے کسی کو اس کے خالص پن کی وجہ سے چن لینا اور اس طرح اپنی مرضی کرنا کہ کوئی سوال کرنے کا بھی اختیار نہ رکھے جس طرح آپ ایک مارکیٹ میں جاتے ہیں اپنے لئے بلو کلر کی ٹی شرٹ خریدتے ہیں کوئی آپ سے پوچھتا ہے کہ سرخ رنگ کی شرٹ کیوں نہیں لی تو آپ کہتے ہیں میری مرضی بالکل اسی طرح اللہ تعالی کی مرضی کہ وحی کے لئے کس فرشتے کو چنتے ہیں کوئی اللہ تعالی کی مرضی پر سوال نہیں کر سکتا۔
اور تیسرا لفظ اجتبی کا مطلب کسی کو کسی خاص مقصد کے لئے اس کی قابلیت کی بنا پر چن لینا یہ لفظ جبوہ سے نکلا ہے جو عربوں میں ٹیکس لینے کے لئے استعمال ہوتا ہے ٹیکس وہی دے سکتے ہیں جو کہ اس کی استطاعت رکھتے ہیں تو کسی کو ایسے مقصد کے لئے چننا جس میں اس مقصد کو کرنے کی صلاحیت ہو۔
یہاں پر حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹے کو اسی لفظ کے ذریعہ بتا رہے ہیں کہ اللہ تعالی نے تمہارے اندر قابلیت دیکھی ہے عاجزی دیکھی ہے جو مشکلات اس راہ میں آنے والی ہے ان مشکلات سے نپٹنے کی صلاحیت دیکھی ہے اس لیے اللہ تعالی نے تمہیں اس مقصد کے لیے چن لیا ہے۔ یہاں آپ اپنے بچے کو غرور میں مبتلا کر سکتے ہیں اسے یہ کہہ کر کہ تمہارے اندر وہ کام کرنے کی صلاحیت ہے جو کسی اور میں نہیں ہے بچے کے دل میں ایک فاخرانہ قسم کے جذبات پیدا ہوں گے کہ میں سب سے اعلی ہوں میرے جیسا کوئی نہیں میں جہاں بھی جاؤں گا ہمیشہ کامیاب ہوگا لیکن حضرت یعقوب علیہ السلام یہاں پر اپنے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کو یاد کروا رہے ہیں کی تمہیں تمہارے مالک نے چنا ہے اور تم اس کے غلام ہو اور غلام کا کام کیا ہوتا ہے عاجزی کرنا سبحان اللہ۔ حضرت یعقوب یہاں پر ایک بچے کو سکھا رہے ہیں کہ تمہارے اندر ایک خاص ٹیلنٹ ہے اور تم نے اس ٹیلنٹ کے ساتھ عاجز رہنا ہے۔ تم اپنے اس ٹیلنٹ کی وجہ سے خاص نہیں ہو بلکہ اگر تم اپنے اس مقصد کو پورا کرتے ہو جس کے لیے تمہیں چنا گیا ہے تو وہ مقصد تمہیں خاص بنائے گا۔ اگر تم اس مقصد کو پورا نہیں کروگے تو تم اپنے ٹیلنٹ کو ضائع کر رہے ہو جس طرح آج کل زیادہ تر بچے کر رہے ہیں اگر آپ اپنے بچے کو خدا کے آگے عاجز ہونا نہیں سکھاتے تو آپ ناکام ہیں۔
یوں حضرت یوسف علیہ السلام اپنے بیٹے کو سکھاتے ہیں کہ میں زندگی میں ہر جگہ تمہارے اوپر چیک نہیں رکھوں گا لیکن تمہارا رب تمہارا اصل مالک ہمیشہ تمہارا نگران ہوگا یہ آیت نمبر6 ان سب والدین کے لئے ہے جن کی اولاد دوسرے ملک میں غیر مسلموں میں ان کی نگرانی کے بغیر زندگی گزار رہی ہے کہ چند الفاظ میں اپنی اولاد کی تربیت کیسے کرنی ہے ان کو خدا کے آگے عاجز پسند کیسے بنانا ہے اور ان کے دلوں میں تقوی کیسے پیدا کرنا ہے اور ان سب بچوں کے لئے بھی ہے جو کسی دوسرے ملک میں لے جا کر غلام بنائے جاتے ہیں حضرت یوسف اس مقام پر پہنچ کر بھی یہ سوچ رہے تھے کہ میرے خدا نے مجھے کسی مقصد کے لیے چنا ہے اس غلامی کا بھی میرے مشن میں کوئی نہ کوئی مقصد ہے اور ان کی جگہ اگر کوئی اور اغوا کیا جاتا کنویں میں پھینکا جاتا اور پھر غلام بنا لیا جاتا کیا وہ اس قدر مثبت سوچ سکتا تھا؟
حضرت یوسف کے اندر یہ سوچ ان کے والد اور ان کے رب پر یقین نے ڈالی تھی۔
جاری ہے ۔۔۔۔
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں