تعارف سورہ یوسف -- حصہ-8



تعارف سورہ یوسف -- حصہ-8


 آیت نمبر 3 میں لفظ *قصص*آیا ہے جس کے معنی *صرف کہانی* کے نہیں بلکہ اس کے معنی ہیں طریقہ یا کسی کا طریقہ جس کو ہم فالو کر سکیں اس کو یوں سمجھتے ہیں کہ صحرا میں کسی کے قدم ( foot print)
اب ہمیں انہی قدموں کو فالو کرتے ہوئے اس کہانی کو سمجھنا ہے۔ یہ ہے *قصص* کے معنی.

اللہ تعالی نے قرآن میں تمام انبیاء کی کہانی کو بیان کرتے ہوئے لفظ قصص استعمال کیا ہے ان تمام انبیاء کا طریقہ ایک ہی تھا جو اللہ تعالی نے ان کو بتایا تھا. صراط مستقیم کی طرف. ہدایت کی طرف. ان سب کے حالات اور واقعات مختلف تھے لیکن سب کے قدم اپنے رب کی طرف تھے. سیدھے رستے کی طرف اپنی حکمت میں سب ایک جیسے تھے اور سب کا مقصد اللہ تعالی کی رضا کا حصول تھا.
آج ہم دونوں انبیاء کرام کی آزمائش اور تنہائی کے وقت کا موازنہ کریں گے.

»»امتحان
کل کے ہم نے سبق میں دیکھا کہ آخری امتحان جو حضرت یوسف علیہ سلام کا تھا وہ عزیز مصر کی بیوی سے تھا. جبکہ حضرت موسی کی آزمائش اسرائیلی غلام کو بچانے سے کی گئی.

»»گواہی:
سچی یا جھوٹی

یوسف علیہ السلام کی بات کریں تو عزیز مصر کی چال سے بچنے کے لیے جیسے ہی دروازے کی طرف بڑھے تو وہاں عزیزمصر اور اس گھر کا سربراہ موجود تھا۔ اپنے شوہر کو دیکھتے ہی اس نے سارا الزام یوسف علیہ السلام  پر ڈال دیا کہ
"اس شخص کی کیا سزا ہے جو آپ کے خاندان کیلئے بری سوچ رکھے اپنے غلام کو دیکھیں جو میرے ساتھ برا کرنے جارہا تھا کم از کم ایسے بندے کو جیل میں بند کردینا چاہیے یا سخت سزا دینی چاہئے".
مقصد اس کا اپنی غلطی کو چھپانا تھا اس نے صفایاں دینی شروع کر دیں تاکہ سب کی توجہ اپنے گناہ پر سے ہٹا سکے. کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اصل میں گناہ کی طرف وہ مائل کر رہی تھی.
اکثر لوگ ہم سے بھی یہی کرتے ہیں ک اپنے گناہ چھپانے کے لیے سارا الزام سامنے والے پر ڈال دیتے ہیں.

اس کے برعکس حضرت موسی علیہ السلام کی آزمائش دیکھیں: ایک مرتبہ پھر حضرت موسیٰ کے سامنے دو شخص لڑ رہے تھے ان میں سے ایک وہی تھا جسے آپ نے پہلے بچایا تھا.
مگر حضرت موسی نے اس کی مدد کرنے سے انکار کر دیا کہ تم ہمیشہ ہی ایسے جھگڑا کرتے رہتے ہو لیکن جب معاملات سنگین ہوگۓ تو موسیٰ علیہ السلام نے خیال کیا کہ کہیں قتل ہی نہ ہوجائے اس نیت سے اٹھے کہ اب کوئی قتل نہیں کریں گے لیکن قتل ہونے بھی نہیں دیں گے اور جب موسی علیہ السلام اس شخص کی طرف بڑھ رہے اسے بچانے کے لئے تو اس نے سر عام اعلان کیا
"اے موسی کیا تم ایک دفعہ پھر قتل کرو گے جیسے پہلے تم نے کیا تھا "

یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ لوگ سچی اور جھوٹی دونوں قسمیں کھاتے ہیں اپنے آپ کو بچانے کے لئے سچی اور جھوٹی صفائیاں اور گواہیاں دیتے ہیں جیسے عزیز مصر کی بیوی نہ جھوٹی قسم کھائی اور اس اسرائیلی غلام نے سچی بات کہی موسی علیہ السلام کے بارے میں لیکن نیت دونوں کی بری تھی.
غلام یہ چاہتا تھا کہ خود کو بچا کر موسیٰ علیہ السلام کو فوجیوں کے حوالے کردے کیونکہ موسی علیہ السلام قتل کے مرتکب تھے.
ان دونوں صورتوں میں کھائی گئی قسمیں انصاف کے لیے نہیں تھی بلکہ اپنےمفاد کے لئے تھیں.

»»فائدہ اٹھانا.

حضرت یوسف علیہ السلام کی کہانی میں عزیز مصر کی بیوی اپنے مالک ہونے اپنے اثررسوخ کا فائدہ اٹھاتی ہے.
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کہانی میں مجرم اس بات کا فائدہ اٹھاتا ہے کہ وہ اسرائیلی ہے اور موسی علیہ السلام کو اس بات کا احساس دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ ایک مجبور غلام کو قتل کیا جارہا ہے اور یہ دیکھ کر موسی علیہ السلام مدد کے لیے آئے تو اس نے موسی علیہ السلام کے قتل کا اعلان کرکے خود کو بچا لیا؛
موسیٰ علیہ السلام کے احساس کا فائدہ اٹھایا.
اسی طریقے سے لوگ ہمارا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں ہم سے فائدہ لینا چاہتے ہیں کبھی اپنے اثرورسوخ اور طاقت کی وجہ سے ہمیں ان غلط کاموں میں ملوث کرنا چاہتے ہیں جو ہم نہیں کرنا چاہتے. اور کبھی ہماری کسی خطا اسی غلطی کسی کوتاہی کو بیان کرکے ہمارا فائدہ لیتے ہیں ہمارے احساس کا فائدہ اٹھاتے ہیں ہمیں ایسے لوگوں سے بچنا چاہیے کیونکہ ان کا احساس کرکے آخر میں ہمارا ہی نقصان ہوتا ہے۔

»» سچی اور جھوٹی گواہی کی

اب بات کرتے ہیں ثبوت کی۔ حضرت یوسف کے حق میں ان کی "قمیض" ان کا کرتہ اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ سچے ہیں کیونکہ ان کا کرتہ پیچھے کی طرف سے پھٹا ہوا تھا جو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام گناہگار نہیں بلکہ دراصل جھوٹ وہ بول رہی تھی.
اور یہاں ایک مادی ثبوت (material evidence)  پیش کیا گیا.
حضرت موسی علیہ السلام کی کہانی میں ایک گواہ موجود ہے جو ان کے گناہ کا عینی شاہد ( witness testimony) ہے.
اور دونوں طریقے کے ثبوت کو کسی عدالت میں پیش کیا جانا چاہئے نہ کہ خود ہی اسی وقت فیصلہ کر لیا جائے اور کبھی کبھی سارے ثبوت اسی وقت ضائع بھی کردیئے جاتے ہیں. اور انصاف نہیں ملتا. اپنے اپنے مقاصد کے مطابق فیصلہ کرلیا جاتا ہے.

»»راز/ اعلان 

حضرت یوسف علیہ سلام کی معصومیت اور پاکیزگی ثابت ہوچکی تھی لیکن ان کی معصومیت کو چھپا لیا گیا راز بنا دیا گیا
سوائے گھر کے چند لوگوں کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اصل سچ کیا ہے.
جبکہ حضرت موسی علیہ السلام کا گناہ سرعام بتایا گیا اس طریقے سے لوگوں کا اور فوج کا غصہ مزید بڑھ گیا اور وہ چاہتے تھے کہ حضرت موسی علیہ السلام کو قتل کر دیا جائے.
یہ دونوں واقعات ایک دوسرے سے مکمل مختلف ہیں لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ انصاف دونوں جگہ نہیں ملا کیونکہ فیصلے کا اختیار صحیح لوگوں کے ہاتھ میں نہیں تھا.
یوسف علیہ السلام اپنی پاکیزگی کے باوجود بھی جیل میں قید کرلیے گۓ
موسی علیہ السلام کو وہاں کی فوج نے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا.جب کے وہاں کی فوج کو آپ کا معاملہ کسی عدالت میں سپرد کرنا چاہیے تھا.

»»وفاداری /نفرت

حضرت یوسف علیہ السلام اپنے رب اور اپنے مالک دونوں سے وفادار رہے. اور اسی پر قائم رہے.

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نفرت فوجیوں سے پہلے سے تھی کیونکہ وہ سب کا سب دھوکے باز اور corrupt تھے۔
وہ ہمیشہ نا انصافی سے فیصلے کرتے تھے.

»»اپنے عمل کو راز رکھنا /رکھوانا.

یوسف علیہ سلام کو خاموش کروا دیا گیا جب کہ وہ معصوم تھے. اور حقیقت سب کے سامنے تھی.
موسی علیہ السلام نے بھی جب قتل کیا وہ دن کا وقت تھا. اور آس پاس کوئی موجود نہیں تھا تو وہ بھی اپنی غلطی کو چھپانا چاہتے تھے اس کو راز رکھنا چاہتے تھے.
تو یہاں ہم نے(secrecy) راز رکھنے پر غور کیا. گناہ کر کے ان کو چھپانے پر.
اس میں بھی نیت الگ الگ ہے. بادشاہ مصر اپنی عزت کی خاطر یوسف علیہ السلام کو خاموش رہنے کا حکم دیتے ہیں. جبکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ندامت کی وجہ سے اپنا گناہ عام نہیں کرنا چاہتے تھے.

جاری ہے۔۔۔ 


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں