مطالعہ سورہ یوسف
احسن القصص -- حصہ دوم
اب ہم آیت کے اگلے حصے کی طرف جاتے ہیں پہلے ہم نے پڑھا کہ
اللہ نے اس قرآن کو عربی میں نازل کیا.
اب وہ ارشاد فرما رہے ہیں کہ اس نے اس میں خود قصہ سنایا اور بہترین انداز میں قصہ سنایا. یہ اس چیز کی طرف اشارہ ہے کہ اس نے اس قصہ کو بیان کرنے کے لیے عربی زبان کا استعمال کیا . کیونکہ یہ الفاظ کا وسیع ذخیرہ رکھتی ہے. تو اللہ نے اس وسیع ترین زبان کو وسیع ترین اور بہترین طریقے سے اس قصے کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا.
اب ہم احسن القصص پر غور کرتے ہیں
"قصص" کا مطلب ہے "بیان کرنا" یہ اسکی مصدر شکل ہے.اب اسکا ترجمہ کرنے کے تین طریقے ہیں
1: ترجمہ
احسن المقصوص .....یعنی یہ کہانی تمام کہانیوں میں سے بہترین ہے.
2. ترجمہ
ہم نے اس کو تمام طریقوں میں سے بہترین طریقے سے بیان کیا ہے
3. تر جمہ
ہم تمہیں قصوں میں سے بہترین قصہ سناتے ہیں.
سب سے پہلے ترجمہ 1 پر غور کرتے ہیں.
یہ قصہ جو ہم بیان کر رہے ہیں یہ تمام قصوں میں سے بہترین ہے.
وضاحت :اللہ تمام کہانیوں کا تخلیق کار ہے. حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک جتنے بھی انسان آئے ہیں. ہر ایک کی ایک کہانی ہے. یہاں تک کہ ہم میں سے بھی ہر ایک کی ایک کہانی ہے. ہر دن،ہر سال ایک کہانی ہے
اسی طرح تاریخی واقعات ہیں تو تاریخ ایک انسان کی زندگی کو بیان نہیں کرتی بلکہ ایک خطے کے واقعات کو زیر قلم لاتی ہے. یا ایک قوم کے بڑے بڑے اور قابل ذکر واقعات کو بیان کرتے ہے. کہ کون کس پر فتح حاصل کر سکا یا فلاں عظیم عمارتی شاہکار کس طرح وجود میں آیا. کس طرح کسی سلطنت نے ترقی پائی، اور کیسے کوئی سلطنت زوال کا شکار ہوئی. تو تاریخ ان تمام واقعات پر زور دیتی ہے وہ کسی بھی انسان کی ذاتی زندگی کا احاطہ نہیں کرتی. چلیں اگر اس بات کو بھی مان لیا جائے کہ تاریخ انسان کی زندگی کو زیر بحث لاتی ہے. جیسا کہ مختلف بادشاہوں کی تاریخ، مگر پھر بھی وہ اس کی زندگی کے بہت سے پہلو بیان کرنے سے قا صر ہے . جیسے کہ اس کی ذاتی زندگی کی بہت سے باتیں کہ وہ صبح اپنے بچوں سے کیا باتیں کرتا ہو گا. یا اس کا پسندیدہ مشغلہ کیا ہو گا. تو آپ اس بادشاہ کے متعلق تاریخی اعتبار سے بہت سی چیزیں نہیں جان سکتے. آپ فقط اتنا جان سکتے ہیں کہ بادشاہ نے فلاں حکم صادر کیا. وہ کونسی جنگ جیتا اور وہ کونسی جنگ ہارا. تو آپ اس بادشاہ کے متعلق صرف عوامی حقائق جان سکتے ہیں.
مگر اللہ ذاتی اور عوامی دونوں راز سے آشنا ہے. تو اللہ نے ان تما م کہانیوں میں سے (چاہے وہ کسی کی ذاتی ہو، جسے کسی نے بیان نہ کیا ہو، یا وہ عمومی ہوں) کچھ واقعات کو چن لیا ہے. جو کہ جب اللہ اپنے طریقے سے بیان کرتا ہے تو وہ تمام انسانیت کے لیے روز آخرت تک رہنمائی کا وسیلہ ہے.
تو تمام پیدا کئے گئے انسانوں کی تمام کہانیوں میں سے کچھ کہانیاں اس نے چنیں. جیسا کہ حضرت موسیٰ کی زندگی، اصحاب کہف کے واقعات!
ایک بار کسی نے مجھ سے پوچھا کہ قرآن حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کو زیر بحث لاتا ہے جب کہ اس وقت دنیا میں اور بھی واقعات رونما ہو رہے تھے. تو قرآن نے ان تمام واقعات کو درج کیوں نہیں کیا؟ تو ان تمام سوالات کا اس آیت میں جواب ہے. کہ قرآن کوئی تاریخی کتاب نہیں کہ اللہ اس میں تمام ادوار.، تمام خطوں اور تمام لوگوں کے واقعات بتاتا. بلکہ اللہ نے ہمیں صرف ان واقعات کے بارے میں بتایا ہے. جن کو وہ چاہتا ہے کہ ہم روز محشر تک یاد رکھیں.
اور اس کے باوجود کہ اس نے ان تمام واقعات کو چنا اس نے ان تمام واقعات اور کہانیوں کے صرف کچھ پہلو ہمارے اوپر کھولے جن کو وہ ہمارے پر بیان کرنا چاہتا ہے.
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کے حضرت نوح علیہ السلام 950 سے 1000 سال تک زندہ رہے.
چلیں فرض کرتے ہیں کے ہر سال کو بیان کرنے کے لیے ایک صفحہ مختص کرتے ہیں. حالانکہ ایک سال کے لیے ایک صفحہ بہت کم ہے. بلکہ ایک دن کو بھی ایک صفحہ پر بیان کرنا بے حد مشکل ہے. مگر پھر بھی اگر ایک سال کو ایک صفحہ پر بیان کیا جائے تو یہ 950 سے 1000 صفحات بنتے ہیں تو کیا اللہ نے حضرت نوح کے قصہ کو 950 یا 1000 صفحات میں بیان کیا. ہرگز نہیں
یہ مجھے تیسرے ترجمہ کی طرف لے کر جاتا ہے.
پہلا ترجمہ تھا. "تمام کہانیوں میں سے بہترین کہانی"
یعنی تمام انسانوں کی کہانی میں سے نوح علیہ السلام کو چنا.
نمبر 3:
جبکہ تیسرا ترجمہ تھا کہ "کہانی میں سے بہترین"
یعنی ان تمام 1000 سالوں میں سےاور ان بے شمار باتوں میں سے جو انہوں نے مختلف نسلوں کے ساتھ کیں. اللہ نے ان تمام لمحات میں سے کچھ لمحے، کچھ باتیں چن لیں، اور فیصلہ کیا کہ وہ ان کو قرآن میں شامل کرے گا.
تو اس کو اس نے "احسن القصص" کا نام دیا. کہ اللہ نے جو قرآن میں بیان کیا وہ مختلف چنے ہوئے واقعات میں سے بہترین قصے ہیں. جو کہ انسانیت کی رہنمائی کرتے ہیں.
مختصراً یہ کہ اس نے تمام انسانیت میں سے بہت کم لوگوں کو چنا اور پھر ان کی کہانی میں سے بہت مختصر حصے کو چنا. اور ان مختصر قصوں کو چنا. کیونکہ وہ چھوٹا سا عرصہ باقی تمام زندگی کے سفر پر بھاری ہے. اور زیادہ ہدایت آموز ہے.
درمیانی ترجمہ.... نمبر 2:
بہترین طریقہ جس میں کسی کہانی کو بتایا جا سکتا ہے.
دراصل اللہ جو بھی چیز ہمیں جس طرح بیان کرتا ہے. اس کو اس سے زیادہ بہتر انداز میں بیان نہیں کیا جاسکتا. اور نہ ہی اس کو انسانیت کی ہدایت کے لیے اس سے زیادہ اچھے طریقے سے واضح کیا جا سکتا ہے. اور یہی قرآن کا حقیقی مقصد ہے. تو اب جب بھی آپ قرآن میں سے کوئی آیت یا حرف پڑھ رہے ہوں تو ایک بار رکیں اور سوچیں. کہ اللہ نے اسے ہمارے اوپر کیوں بیان کیا.
کوئی بھی آیت، کوئی بھی لفظ غیر ضروری نہیں. اور نہ ہی اس کا ہدایت کے سوا کوئی اور مقصد ہے. نہ ہی کوئی آیت قرآن سے لطف اندوز ہونے کی غرض سے بنائی گئی ہے. ہر چیز ہدایت کے بنیادی مقصد کو پورا کرنے کے لیے بنائی گئی ہے.
فرق:
تو یہ احسن القصص کے مختلف تناظر تھے. اب ان سے کیا فرق پڑتا ہے، یہ دیکھتے ہیں۔
اگر ہم اس قصے کا موازنہ قدیم کتابوں سے کریں، جیسے کہ ہمیں علم ہے کہ دوسری الہامی کتب میں بھی قصہ یوسف علیہ السلام کا ذکر آ چکا ہے. اور آپ اس آیت کا ترجمہ ان کے سامنے یوں کریں
"کہ یہ قصہ بہترین قصوں میں سے ایک ہے."
تو ان کا جواب ہو گا شکریہ یہ بتانے کے لیے مگر ہم اس بارے میں اس سے پہلے سے جانتے ہیں.
اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوا کہ آیات کا صرف حرفی ترجمہ اور مطلب ہی اہم نہیں بلکہ اس آیت سے جڑے ہر پہلو کو سمجھنا ضروری ہے.
اس سے "احسن القصص" کے اس دوسرے ترجمے کہ اہمیت سامنے آتی ہے کہ ہم نے جو طریقہ اس کو سمجھانے کے لیے استعمال کیا وہ بہترین تھا. یعنی جو اس کتاب میں سمجھانے اور بیان کرنے کا طریقہ ہے وہ دوسرے کتا بوں سے مختلف ہے.
احسن....... خوبصورت
احسن کا مطلب صرف بہترین ہی نہیں بلکہ خوبصورت ترین بھی ہے. جیسا کہ یہ " حسن و جمال" کے معنی میں استعمال ہوتا ہے. جس کا مطلب ہے سب سے خوبصورت.
تو آپ اس واقعہ سے اس کتاب میں بہترین طریقے سے علم حاصل کر سکتے ہیں، یہ واقعہ آپ کے ذہن کو اس سمت میں سوچنے میں مجبور کر دے گا جس میں آپ نے پہلے کبھی نہیں سوچا. انہی واقعات میں آپ ایسے بہت سے پہلو دیکھیں گے جو آپ نے پہلے کبھی نہیں دیکھے.
بِمَا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ هَٰذَا الْقُرْآنَ
بھیجا ہے ہم نے تمہاری طرف یہ قرآن
اللہ تعالیٰ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہے ہیں کہ تم کو یہ قصہ جس طرح سنایا گیا یہ طریقہ صرف قرآن کے لیے مخصوص ہے.
تو اب ہمیں یہ سوچنا ہے کہ قرآن میں یہ قصہ کس طرح باقی کتابوں کے قصے سے مختلف ہے؟
بیت سی چیزیں ہیں جو قرآن کو سب سے مختلف بناتی ہیں. مگر اس کیس میں بہت سی چیزیں ہیں جو لفظ "قصص" سے جڑی ہوئی ہیں. قصص کا لغوی معنی "مرحلہ وار" ہے.
اس کی مثال اسی سورت میں بھی ہے. جب حضرت یوسف علیہ السلام کو بطور غلام فروخت کیا گیا.
سورہ یوسف 20،21،22،23 میں مرحلہ وار کہانی کو بیان کرنے کی ترتیب ملتی ہے. جیسا کہ آیت نمبر 21 میں ہے کہ
انہوں نے ان کو (حضرت یوسف علیہ السلام) کو بہت ہی کم داموں میں فروخت کیا
اس سے اگلی آیت میں ان کا شاہ مصر کے گھر میں ہونے کا ذکر ہے
جبکہ اس سے اگلی آیت میں ان کی بلوغت کا اور اس سے اگلی آیت میں ان کے پر شباب ہو جانے کا ذکر ہے.
تو محض ان 4 آیات میں حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی کے 10 سال سے بھی زیادہ بیان کر دی گئی ہے. تو یہ بتدریج مر حلہ وار قصہ کو بیان کرنے کی مثال ہے.
کہ پہلے مرحلے پر وہ بچے ہیں، پھر اگلا مرحلے جب وہ ٹین ایجر ہیں. اور پھر جب وہ اپنے شباب پر پہنچ گئے تب کا ذکر ہے.
تو اس کو بیان کرنے والی ذات اللہ کی ہے، وہ بہترین کہانی گو ہے. دراصل یہ کہانی کو بیان کرنے کا طریقہ ہے جو اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ سامعین یا قارئین کی کس قدر دلچسپی ہو گی. یہ قصہ گو کی خوبی ہے کہ وہ کہانی کو کتنا سنسنی خیز بناتا ہے.
جیسا کہ پہلے جس استاد کا ذکر کیا تھا. جب وہ اپنا مطلوبہ سوال نہ سن سکا تو اس نے کہا"تم سب یہ اللہ کہ گھر میں بیٹھ کر کیسے کہہ سکتے ہو. سب سے بہترین قصہ حضرت یوسف کا ہے" سو بچوں کی اس واقعہ میں دلچسپی نہیں پیدا ہو سکی.
اس سے یہ بات بھی سمجھ آتی ہے کہ اللہ صرف یہی نہیں سکھا رہا کہ ہمیں کون کون سے واقعات پر غور کرنا ہے بلکہ وہ ہمیں یہ بھی بتارہا یے کہ کن کن چیزوں کو پر غور نہیں کرنا ہے۔ اس لیے اس نے بہت ہی منتخب واقعات ہم پر آشکار کیے ہیں.
جیسا کہ
* ہمیں اس وزیر کا نام نہیں پتا جس نے ان کو خریدا؟
* ہمیں اس عورت کے نام کا علم نہیں جس نے ان کو اپنی طرف راغب کیا؟ نہ ہی ہم اس کی عمر کے بارے جانتے ہیں.
* حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے انہیں کنوئیں میں پھینکا. مگر قرآن نے ہمیں ان کے نام نہیں بتائے.
قران میں اس منظر کے لیے "ان کے بھائی" اور "ان میں سے ایک" کی لغت استعمال ہوئی ہے.
تو اللہ اس واقعہ سے ہماری تربیت کر رہے ہیں کہ کن چیزوں پر ہمیں غور کرنا ہے، کن پر ہم نے غور نہیں کرنا. کچھ چیزوں ہماری توجہ کے قابل نہیں ہوتیں، ضروری نہیں ہوتیں، اللہ ان کو آپ کو نہیں بتارہا تو چھوڑ دیں ان کو۔ ان کا نا پتا لگنا ہی ہمارے لئے بہتر یے۔ ورنہ اللہ ہمارے بتادیتا۔
کیونکہ اللہ بہترین استاد ہے، اس واقعہ کا علم سب سے ذیادہ اللہ کو ہے اور اللہ سے ذیادہ اس چیز پر کوئی قدرت نہیں رکھتا کہ کس واقعہ کی باریکیوں کو کتنا مخفی رکھنا ہے اور کتنا ظاہر کرنا ہے.
تو اللہ نے کہانی کے ان مرحلوں کے درمیان جو سال اور واقعات چھوڑے بہت ہی دلچسپ ہو سکتے ہیں. مگر وہ یقینی طور پر ہدایت کا ذریعہ نہیں تھے. لہٰذا اللہ نے ان کو چھوڑ دیا. تو پورا قرآن اس طرح اللہ تعالیٰ کے طریقہ تعلیم کی مثالوں سے بھرا پڑا ہے.
کسی سورت میں کسی واقعہ کا ایک منظر ہے. کسی سورت میں اس کی بقیہ کہانی ہے. بہت سے واقعات زمانے کی ترتیب کے بغیر بھی ہیں. تو اس نے جس طرح چاہا اور جو چاہا ہمیں سکھایا.
وہ چاہتا تو سورۃ موسیٰ بنا کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ساری کہانی اسی میں رقم کر دیتا. اگر وہ چاہتا تو حضرت اباہیم علیہ السلام کی کہانی ساری کی ساری سورہ ابراہیم میں بیان کر دیتا. مگر اس نے ایسا نہیں کیا. بلکہ سورہ بقرہ اور قرآن کے دوسرے مقامات میں حضرت ابراہیم کی کہانی کا ذیادہ ذکر ہے.
قرآن کا مقصد کہانی سنانا نہیں بلکہ ہدایت ہے. ہر سورت کا ایک مقصد ہےاور ہر سورت میں ہدایت کے اسباق ہیں جو کہ جو کہ دوسری سورتوں سے مختلف ہیں. اور ہر واقعہ میں ہدایت کے کچھ موتی ہیں جو کہ کسی ایک سورت کے اسباق سے ملتے جلتے ہیں. تو اللہ نے بیت ترتیب کے ساتھ مختلف واقعات کو مختلف سورتوں میں شامل کیا.
مگر اللہ نے اس سورت کے بارے میں فیصلہ کیا کہ اس سورت سے ہدایت کا مقصد صرف ایک ہی قصے سے حاصل کیا جائے. لہذا سورہ یوسف میں قصہ یوسف سے مرکزی رہنمائی کا حصول ہے اور یہی اس کی خاصیت ہے.
اب ہم اس کے آخری حصے میں آتے ہیں.
وَإِن كُنتَ مِن قَبْلِهِ لَمِنَ الْغَافِلِينَ
اگرچہ تم تھے اس سے پہلے بے خبروں میں
یعنی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول ہو رہا تھا اور وہ ا س کو بیان کر رہے تھے. تو اس سے قبل وہ اس قصے سے لا علم تھے.
اگر کسی کو کوئی چیز بیان کرنی ہو تو اسے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ اس نے کیا کہنا ہے مگر:
اس وقت جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورہ یوسف سنا رہے تھے وہ اس سے قبل اس کو نہیں جانتے تھے. اور یہ اس چیز کی تصدیق کرتا ہے کہ یہ قرآن براہ راست اللہ عزوجل کی طرف سے نازل ہو رہا ہے. تو جب وحی نازل ہوئی تو درحقیقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کے یہ الفاظ خود کو پہلی مرتبہ سنا رہے تھے. آپ اس سے اندازہ لگائیں کے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتہائے شوق کا کیا عالم ہو گا جب وہ اس سورت سے پہلی مرتبہ قصہ یوسف کا فہم حاصل کررہے ہوں گے.
ایک آخری بات یہ کہ یہ سورت آپ کو تب عطا کی گئی جب جب آپ اپنی زندگی کے مشکل ترین ادوار سے گزر رہے تھے.
اس سال جس سال کو آپ نے عام الحزن کہا۔
جس سال آپ کے قریبی ترین شخصیات یعنی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور آپ کے چچا ابوطالب وفات پا گئے. اور مکہ کے لوگ جو حضرت ابو طالب کی وجہ سے آپ ص پر ظلم وزیادتی کرنے سے باز رہتے تھے. آپ کو مزید تنگ کرنے لگے.
تو اس مشکل دور میں اللہ نے فیصلہ کیا کہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ سورت عطا کریں گے. جس کی عربی لغت "اسف" یعنی" دکھ " ہے.
تو حضرت یوسف کی کہانی میں حضرت یوسف علیہ السلام شروع میں غمگین اور دکھوں میں رہے مگر اختتام تک وہ پر سکون اور خوش تھے. تو اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حوصلہ دے رہے ہیں کہ آپ کی مشکلات کے بعد بھی آسانیاں ہیں۔
جاری ہے ۔۔۔
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں