مضبوط ایمان کی علامت۔۔۔۔ خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس) 25 مئی 2018


مضبوط ایمان کی علامات
مسجد حرام کے امام وخطیب فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر فیصل بن جمیل غزاوی
ترجمہ: عاطف الیاس
بشکریہ: دلیل ویب

منتخب اقتباس:

الحمد للہ! حمد وثنا اللہ ہی کے لیے ہے۔ اسی نے اپنے بندوں کو خیر کی بہاریں نصیب فرما کر معافی اور بخشش کا موقع عطا فرمایا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ و احد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس کی عطائیں بے شمار اور احسانات بے انتہا ہیں۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے، رسول اور تمام انسانوں کے سردار ہیں۔ آپ ﷺ سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے اور پرہیز گار ہیں۔ بھلائی کے کاموں میں سبقت لیجانے والے اور نیکی کے مواقع سے بہترین فائدہ اٹھا نے والے ہیں۔ اللہ کی رحمتیں ہوں آپ ﷺ پر، آپ ﷺ کے اہل بیت پر، عزت وہمت والے صحابہ کرام پر اور ان کے نقش قدم پر چلنے والوں اور ان کا طریقہ اپنانے والوں پر۔

اے مسلمانو!
دین اسلام قوت، عزت اور کرامت کا دین ہے اور اللہ تعالیٰ کو بھی کمزور مومن کی نسبت طاقتور مومن زیادہ پسند ہے۔
ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کمزور مومن کی نسبت طاقتور مومن کو زیادہ پسند فرماتا ہے، تاہم دونوں ہی میں خیر موجود ہے۔ اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
اس حدیث میں طاقت سے مراد ایمان، علم اور فرمان برداری کی طاقت ہے۔ نفس اور ارادے کی طاقت ہے۔ اگر انسان کی جسمانی طاقت نیکی میں اس کی مدد گار ہو تو ہی اسے حقیقی طاقت تصور کی جا سکتا ہے۔
امام نووی  فرماتے ہیں: اس طاقت سے مراد پختہ عزم اور ارادہ اور آخرت کے معاملات میں پیش قدمی کا جذبہ ہے۔ چنانچہ طاقتور مومن جہاد میں آگے بڑھ کر لڑنے والا بھی ہوتا ہے، جہاد کے لیے نکلنے میں بھی توانا ہوتا ہے اور جہاد میں شامل ہونے کی تڑپ بھی رکھتا ہے۔ اسی طرح امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں بھی بلند ہمت والا ہو گا اور تمام طرح کی اذیتوں پر صبر کرنے والا ہوتا ہے۔ نماز، روزہ، اذکار اور دیگر عبادات میں بھی زیادہ توانا اور مستقبل مزاج ہوتا ہے۔

سیدہ عائشہ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات کے وقت سو جاتے۔ جب پہلی اذان کا وقت ہوتا تو تیزی سے اٹھتے۔ اس کی شرح میں امام نووی  فرماتے ہیں کہ تیزی سے اٹھنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ عبادت کا پورا اہتمام کرتے اور اس کے لیے مکمل توانائی کے ساتھ اٹھتے۔ یہی مفہوم اس حدیث کا بھی ہے کہ ’’کمزور مومن کی نسبت اللہ تعالیٰ کو طاقتور مومن زیادہ پسند ہے۔‘‘

اے بھائیو!
صحیح عقیدہ کبھی ختم نہ ہونے والا سرمایہ ہے۔ یہ ہمیشہ توانا ، پر عزم اور پر ہمت رہنے، مشکلات سے نمٹنے اور آزمائشوں کا مقابلہ کرنے میں بہتری معاون ہے۔ جب ایمان دلوں میں راسخ ہو جاتا ہے تو اس کا اثر انسان کے جسم اور اخلاق میں نظر آنے لگتا ہے۔ پھر جب انسان بولتا ہے تو مکمل یقین کے ساتھ بولتا ہے اور جب کوئی کام کرتا ہے پورے اعتماد سے کرتا ہے اور جب کسی طرف چلتا ہے تو اس کا ہدف اور منزل واضح اور متعین ہوتی ہے۔
حقیقی مومن ان چیزوں سے دور رہتا ہے جو دین اسلام کی روح سے درست نہیں ہیں۔ وہ اپنی خواہشات کے پیچھے نہیں چلتا۔ غیر اللہ کے سامنے نہیں جھکتا۔ اپنے جیسی مخلوق کا غلام نہیں بنتا اور اپنی خواہشات کے پیچھے نہیں چلتا۔

اللہ کے بندو! یہ مہینہ عزم وہمت اور طاقت کا مہینہ ہے۔ یہ قربانیوں اور فتوحات کا مہینہ ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ غزوہ بدر میں مسلمانوں نے اسی ماہ میں فتح پا کر دلیری اور بہادری کی شاندار مثال رقم کی تھی۔ جب مسلمان صرف تین سو تھے اور انہوں نے ایک ہزار مشرکوں کا مقابلہ کر دکھایا۔ یہ فتح اہل اسلام کی سب سے بڑی اور اپنی نوعیت کی پہلی فتح تھی۔ جب مسلمان میدان جنگ میں گئے تھے تو پورے ایمانی جذبے اور مکمل یقین کے ساتھ گئے تھے اور پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعے بھی ان کی نصرت اور مدد فرمائی اور وہ اپنے دشمن پر غالب ہو گئے۔

یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ جنگ کے وقت اہل ایمان کے پاس کون سی ایسی طاقت تھی کہ جس کی بدولت وہ کافروں پر غلبہ پانے میں کامیاب ہو گئے؟
وہ عقیدے، اخلاق اور روح کی وہ طاقت لے کر میدان جنگ میں گئے تھے جس سے کافر محروم تھے۔ چنانچہ مشرکین کو بد ترین شکست کا سامنا ہوا اور قرآن کریم نے اسے شاندار مثال کے طور پر بیان کیا تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ ایمانی طاقت جسمانی طاقت سے زیادہ کارگر ہے۔

کیا اگر وہ بزدل بن کر ان جنگوں میں حصہ لیتے اور ان کے جذبات ایمان سے معمور نہ ہوتے، بلکہ ان پر شہوات نفس کی حکمرانی ہوتی اور وہ خواہشات کے غلام ہوتے، شیطان کے پیروکار ہوتے، تو کیا پھر بھی انہیں اتنی ہی کامیابی مل پاتی؟
نہیں! ہر گز نہیں! یہ روزہ جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرض کیا ہے، اس کے ذریعے مسلمان کو دو قسم کی قوت ملتی ہے۔ ایک صحت اور تندرستی کی قوت اور دوسری روحانی قوت۔ روزہ انسان کو بہت سی مہلک بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے اور اسے روحانی پاکیزگی نصیب ہوتی ہے اور یہ روحانی پاکیزگی صحت کی نسبت زیادہ اہم ہے۔

اے بھائیو!
طاقتور مسلمان رمضان کے دوران فضائل کمانے اور نیک اعمال کا ذخیرہ کرنے کا اہتمام کرتا ہے۔ وہ چیزیں اسے مصروف نہیں کرتیں جن میں دوسرے لوگ مصروف رہتے ہیں۔ وہ تفریحی پروگراموں کو دیکھنے میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتا ہے جن سے رمضان کی روحانیت ختم ہو جاتی ہے اور اس کا روح پرور ماحول خراب ہو جاتا ہے۔  ایسے لوگ آگے بڑھنے اور اوقات کا فائدہ اٹھانے سے قاصر ہوتے ہیں۔
اگر انسان خیر کی بہاروں میں اور رحمت ومغفرت کے شاندار مواقع سے گزرتا ہوا بھی غفلت کا شکار رہے تو پھر اس کی زندگی میں کیا خیر ہو سکتی ہے؟

ابن قیّم  فرماتے ہیں: انسان میں دینی فضائل، نافع علوم اور اعمال صالحہ میں غفلت برتنے سے بری چیز کوئی نہیں ہو سکتی۔ ایسے لوگ ایسے غیر منظم اور بے قیمت لوگ ہوتے ہیں جو معاشرے کو گندا کرتے ہیں اور قیمتیں بڑھاتے ہیں۔ وہ جیتے ہیں تو ناقابل تعریف زندگی جیتے ہیں اور مرتے ہیں تو ان کی کوئی کمی محسوس نہیں کرتا۔ ان کی موت میں لوگوں اور قوموں کی راحت ہے۔ نہ ان پر آسمان روتا ہے اور نہ زمین ان سے اداس ہوتی ہے۔

اے مسلمانو!
رمضان کے اس بابرکت مہینے میں ہمیں یہ اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کچھ چاہتا ہے اور لوگ ہم سے کچھ اور ہی چاہتے ہیں ۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’ہاں، اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر دور نکل جاؤ‘‘
(النساء: 27)

یعنی وہ اللہ ہی ہے جو تمہیں معاف کرنا چاہتا ہے اور تمہاری خطائیں مٹانا چاہتا ہے، جبکہ خواہشات کے پیروکار تمہیں دین سے کہیں دور لے جانا چاہتے ہیں، گناہوں کی طرف دھکیل کر خطائیں کرانا چاہتے ہیں۔ وہ تمہیں گمراہ کرنا چاہتے ہیں۔
اللہ ہمیں ہدایت عطا فرمائے! بہت سے لوگ اللہ تعالیٰ کی پکار کو بس پشت ڈال چکے ہیں۔ انہیں اللہ کی مراد کی کوئی فکر نہیں۔ شہوات اور خواہشات کے پیچھے چل پڑے ہیں۔ رمضان کے چند دنوں میں بھی وہ بھلائی اور خیر سے محروم ہیں۔ یہ دن کبھی لوٹ کر نہ آئیں گے بلکہ ان سے فائدہ نہ اٹھانا حسرت اور ندامت کا باعث بنے گا۔ رمضان تو ہمیں طاقتور بننا سکھاتا ہے۔ بلندی ہمتی سکھاتا ہے۔ ہمیں اپنی خواہشات کے سامنے اتنا کمزور نہیں ہونا چاہیے۔ مخلوق کے سامنے جھکنا نہیں چاہیے۔ گمراہ کن افکار کے داعیوں کے پیچھے نہیں چلنا چاہیے۔ اپنے عقائد، اصول ومبادی سے نہیں ہٹنا چاہیے۔ جس چیز میں ہمارے دین اور دنیا کا فائدہ ہو ان چیزوں میں اپنا وقت لگانا چاہیے۔

طاقتور مومن کو بہت سی علامات سے پہچانا جاتا ہے، ان علامات کے ذریعے اس کی شخصیت کا کمال ظاہر ہوتا ہے۔ جیسا کہ بھلائی کے کاموں میں پیش قدمی کرنا، عبادات میں محنت کرنا، نیکیاں کمانے کی کوشش کرنا اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے مواقع سے فائدہ اٹھانا۔ مومن کی جسمانی طاقت اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے وقف ہوتی ہے۔

اسی طرح طاقتور مومن کی علامت یہ بھی ہے کہ وہ قوی الارادہ اور بلند ہمت ہوتا ہے۔ وہ نہ کبھی کمزور ہوتا ہے اور نہ کٹنے ٹیکتا ہے۔ بلکہ وہ آزمائیشوں کے وقت دلیری سے پہچانا جاتا ہے، مشکل اوقات میں ثابت قدمی سے جانا جاتا ہے۔ اس کے قدم کبھی متزلزل نہیں ہوتے۔ اس پر جتنا بھی سخت وقت آ جائے، بھر حال وہ ثابت قدم رہتا ہے۔ عربی شعر کا ترجمہ ہے کہ
اگر میں بیمار ہو جاتا ہوں تو میرا صبر تو بیمار نہیں ہوتا، 
اور اگر مجھے بخار ہو جاتا ہے تو میرے عزم کو تو بخار نہیں ہوتا۔

اسی طرح مومن کی طاقت کی علامت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے نفس پر قابو پانے والا ہوتا ہے۔ خاص طور پر جذبات سے بھر پور اور مشکل مواقع پر۔ نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے: طاقتور وہ نہیں ہے جو دوسرے کو کُشتی میں ہرا دیتا ہے، بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھتا ہے۔ اسے امام بخاری اور امام مسلم نے سیدنا ابو ہریرہ سے روایت کیا ہے۔
یعنی طاقتور وہ نہیں ہے کہ جو لڑائی کے وقت دوسروں کو ہرا دیتا ہے۔ بلکہ حقیقی طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو پا لیتا ہے۔

اے مسلمانو!
ہدایت پانے کے لیے ہمیں اپنے نفس اور اپنی خواہشات کے خلاف جہاد کرنا ہو گا۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے، اور یقیناً اللہ نیکو کاروں ہی کے ساتھ ہے‘‘
(العنکبوت: 69)
فضالہ بن عبید بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجاہد وہ ہے جو اللہ کی فرمان برداری میں اپنے نفس سے جہاد کرتا ہے اور مہاجر وہ ہے جو گناہوں اور غلطیوں کو چھوڑ دیتا ہے۔ اسے امام احمد اور امام ابن حبّان اور دیگر علمائے حدیث نے روایت کیا ہے۔

ابن رجب رحمتہ اللہ علیہ  فرماتے ہیں: نفس کے ساتھ جہاد کرنے میں صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو شیطان اور نفس کے ساتھ جہاد میں صبر کام لیتا ہے، اسے غلبہ نصیب ہو جاتا ہے، نصرت اور کامیابی مل جاتی ہے۔ پھر وہ اپنے نفس کا مالک بن جاتا ہے اور عزت سے جیتا ہے۔ اسی طرح جو اپنے نفس سے جہاد میں ناکام ہو جاتا ہے وہ مغلوب ہو جاتا ہے، اپنے نفس کا قیدی بن جاتا ہے اور شیطان کے ہاتھوں میں کھیلنے لگتا ہے۔
 عربی شعر کا ترجمہ ہے:
اگر انسان اپنی خواہشات کو قابو میں نہ کامیاب نہ ہو تو اس کی خواہشات اسے وہاں لے جاتی ہیں جہاں عزت والے بھی رسوا ہو جاتے ہیں۔

اے روزہ دارو! اپنے نفس کے ساتھ جہاد میں خوب محنت کرو اور اپنے رب کی فرمان برداری پر قائم رہو۔ اس مہینے کے بقیہ حصے کو غنیمت جانو اور اس کا بھر پور فائدہ اٹھا۔ دیکھو! اب اس کا تیسرا حصہ گزر چکا ہے اور تیسرا حصہ تھوڑا نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہماری مختصر عمر بھی گزر جائے گی۔ تو وقت گزرنے سے پہلے موقع کو غنیمت جانو اور گھاٹا پانے سے پہلے نیکیاں کمانے کی کوشش کر لو۔

اے اللہ! ہمارے روزے اور تہجد قبول فرما! ہمارے گناہوں اور کوتاہیوں کو معاف فرما! اے اللہ! رمضان میں ہمیں کامیابی نصیب فرما! ہمیں قبولیت کے شرف سے نواز دے۔ ہمارے مہینے کو خیر، برکت، نصرت اور امت کی عزت کا مہینہ بنا۔ اے پروردگار عالم! ہمیں ایمان اور اخلاص کے ساتھ روزہ رکھنے والوں میں شامل فرما! ان لوگوں میں شامل فرما جنہیں تو نے بخش دیا ہے اور جس کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دیے ہیں۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں