اے خیر کا ارادہ رکھنے والے! آگے بڑھ
خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس)
مسجد حرام کے امام وخطیب فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر سعود بن ابراہیم الشریم
جمعۃ المبارک 2 رمضان المبارک 1439ھ بمطابق 18 مئی 2018
ترجمہ: عاطف الیاس
بشکریہ: کتاب حکمت ویب
منتخب اقتباس:
الحمد للہ! وہی عزت والا اور معاف فرمانے والا ہے۔ وہی طاقتور، واحد اور سب پر غالب ہے۔ وہی رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات لانے والا ہے۔ ساری بھلائی اسی کے ہاتھ میں اور تمام معاملات اسی کی طرف لوٹتے ہیں۔ وہ جو چاہتا ہے، پیدا کر تا ہے اور جسے چاہتا ہے منتخب فرماتا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے چنیدہ رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغام الٰہی احسن انداز میں پہنچایا، امانت ادا فرمائی اور فرمان برداری اور استغفار پر قائم رہے۔ اللہ کی رحمتیں، اور سلامتیاں ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ اہل بیت پر۔ مہاجرین وانصار پر، ان کے راستے پر چلنے والوں اور قیامت تک ان کے طریقے پر عمل کرنے والوں پر۔
بعدازاں!
بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے اور بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے۔ ایجاد کردہ عبادتیں بد ترین کام ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم کی طرف لے کر جاتی ہے۔
اے لوگو! میں اپنے آپ کو اور آپ سب کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ تقویٰ ہی مومن کا حقیقی سرمایہ ہے اور یہی پریشان لوگوں کی رہنمائی کرنے والا ہے۔ جو اسے تھامے رکھتا ہے وہ کامیاب ہو جاتا ہے اور جو اس سے دور ہو جاتا ہے اسے گھاٹا اٹھانا پڑتا ہے۔ یہ اللہ کے عذاب سے بچانے والی بہترین چیز ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’سُنو! جو اللہ کے دوست ہیں، جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقویٰ کا رویہ اختیار کیا، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے ‘‘
(یونس: 62-63)
اللہ کے بندو!
زمانہ چکی کی طرح گھوم رہا ہے۔ رات گزرتی ہے تو دن آ جاتا ہے مگر لوگ مختلف رویوں کے حامل ہیں۔ کسی کو دنیا کی فکر کم اور کسی کو زیادہ ہے۔ کوئی محنت کرتا ہے اور کوئی بس سویا ہی رہتا ہے۔ کوئی اسے سنجیدگی سے لیتا ہے اور کوئی اسے تفریح سمجھتا ہے۔ ہر کوئی اپنے نفس کا سودا کرتا ہے، کوئی تو اسے کامیاب کر لیتا ہے اور کوئی اسے ہلاک کر دیتا ہے۔
سعادت مند وہی ہے جو خیر کی بہار میں بہترین کمائی کر لیتا ہے، جو خوب محنت کرتا ہے اور عبادت میں کوئی کمی نہیں چھوڑتا۔ خیر کی بہار، نیکیاں کمانے اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا بہترین موقع ہے۔ اس سے فائدہ اٹھا نے کا موقع انہی لوگوں کو ملتا ہے جو واقعی سنجیدہ اور محنت کش ہیں۔ سست اور بے ہمت لوگ ایسے مواقع سے محروم رہتے ہیں۔
لہٰذا انسان کے ہاتھ میں صرف وہ لمحے ہوتے ہیں جنہوں وہ اس وقت جی رہا ہوتا ہے۔
تو اے بھلائی کا ارادہ رکھنے والے! آگے بڑھ! اور اے برائی کا ارادہ رکھنے والے! اب تو رک جا!
لوگوں کے دل بھی دوسری چیزوں کی طرح مختلف چیزوں کا اثر لیتے ہیں۔ کبھی یہ لوہے کی طرح زنگ آلود ہو جاتے ہیں۔ کبھی جانور کے تھن کی طرح خشک ہو جاتے ہیں اور کبھی کھیتی کی طرح سوکھ جاتے ہیں۔ پھر انہیں کسی ایسے محرک کی ضرورت ہوتی جو ان کا زنگ اتار دے، ان کی خشکی دور کر دے اور انہیں پھر سے تر کر دے۔
رمضان المبارک کا مہینہ دلوں کا پاکیزہ کرنے اور ان میں عبادت کا جوش وجذبہ پیدا کرنے کا بہترین موقع ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے، جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں‘‘
(البقرۃ: 185)
یہ مہینہ، نیکی، روزہ، نماز، رحمت اور باہمی مودت کا مہینہ ہے۔ یہ شہوات نفس کو لگام دینے کا مہینہ ہے، یہ نفس کو نیکی کی طرف لانے کا مہینہ ہے۔ نفس کو کمال کے فریب سے نکالنے کا مہینہ ہے، کمال کا گمان ایسی رکاوٹ ہے کہ جو انسان کو سنہری موقعوں سے فائدہ اٹھانے سے روکتی ہے۔ اس کی وجہ سے انسان حلال اور بے فائدہ چیزوں کے جھنجھٹ گھر جاتا ہے۔ پھر وہ اسی میں اپنا سارا وقت لگانے لگتا ہے اور انہی کو اپنا سرمایہ سمجھنے لگتا ہے۔ اس کی وجہ سے وہ خیر اور بھلائی کے بہت سے شاندار مواقع کو گنوا بیٹھتا ہے۔ پھر وہ اپنی خواہشات، سستی اور کاہلی کا غلام بن کر رہ جاتا ہے۔
سنو! رمضان تقویٰ کے لباس سے مزین ہونے کا موقع ہے۔ کوئی شخص رمضان المبارک کی برکتوں سے بےنیاز تو نہیں ہے۔
جی ہاں! اللہ کے بندو! ہم اپنے اموال اور اولاد میں ایسے مصروف ہو چکے ہیں کہ ہمارے پاس اپنے دلوں کو پاکیزہ کرنے اور ان میں خیر اور بھلائی کا جذبہ پیدا کرنے کا وقت ہی نہیں رہا۔ بعض دلوں میں سختی آ گئی ہے۔ ایسے دلوں کو نرم کرنے کے لیے رمضان المبارک کی رحمتیں کافی ہیں۔ بعض لوگوں کے مال میں بے برکتی ہے۔ انہیں بڑھانے اور ان میں برکت پیدا کرنے کے لیے رمضان کی برکتیں کافی ہیں۔ بعض زبانوں میں سختی آ گئی ہے۔ ایسی زبانوں کو اچھے بول کا عادی بنانے کے لیے رمضان المبارک کی عطائیں کافی ہیں۔ بعض جسموں میں سستی ہے۔ انہیں ہمت وطاقت دینے کے لیے رمضان المبارک کی عظمتیں بہت ہیں۔
یہ ماہ تقویٰ کی تربیت دینے والا ایک مکمل کورس ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیروؤں پر فرض کیے گئے تھے اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی‘‘
(البقرۃ: 183)
غیرت مند مسلمان کو یہ دیکھ کر انتہائی دکھ اور افسوس ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ اس مہینے میں بھی ویسی ہی زندگی گزارتے رہتے ہیں جیسی وہ عام طور پر گزارتے ہیں جس کا محرک عادت اور روٹین ہوتی ہے۔ جو عبادت کی روح اور فرمان برداری کے جذبے سے بالکل خالی ہوتی ہے۔ ایسے لوگ بھول جاتے ہیں کہ یہ بابرکت مہینہ نفس کو تربیت دینے کا بہترین موقع ہے۔
یہ مہینہ ہمیں اللہ کے حقوق یاد دلاتا ہے۔ اس کی اکثر مجلسوں سے ایمانی جذبات کی مہک آتی ہے۔ لوگ عبادت، نیک اعمال اور تلاوت میں مصروف نظر آتے ہیں اور اس طرح وہ اپنے آپ کو تبدیل کرنے کے لیے تیار کر لیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی ان کا حال بدل دیتا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی‘‘
(الرعد: 11)
اے بھلائی کا ارادہ رکھنے والے! آگے بڑھ! اور اے برائی کا ارادہ رکھنے والے! اب تو رک جا!
جو مسلمان رمضان کو قرآن کے بغیر گزارنا چاہتا ہے اس کی مثال اس شخص جیسی ہے جو پانی اور ہوا کے بغیر زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ بعض مسلمانوں کا قرآن کریم سے تعلق بڑا ہی سطحی ہوتا ہے۔ وہ اسے بس اپنی زبانوں کے اوپر سے گزراتے ہیں۔ انہیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ انہوں کیا پڑھا ہے، انہیں کچھ سمجھ نہیں ہوتی کہ انہوں نے کیا تلاوت کی ہے۔ تلاوت کے دوران ان کی نظر سورت کے آخر پر ہوتی ہے کہ کب یہ سورت ختم ہو گی۔ ان پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان صادق آتا ہے کہ:
’’ان میں ایک دوسرا گروہ امّیوں کا ہے، جو کتاب کا تو علم رکھتے نہیں، بس اپنی بے بنیاد امیدوں اور آرزوؤں کو لیے بیٹھے ہیں اور محض وہم و گمان پر چلے جا رہے ہیں‘‘
(البقرۃ: 78)
یعنی وہ قرآن کریم کی تلاوت اس طرح کرتے ہیں کہ اس کا اثر ان کے گلے سے نیچے نہیں جاتا۔ اسے بہترین لہر اور شاندار آواز میں پڑھنے پر ساری توجہ لگا دیتے ہیں اور یوں وہ قرات کی روانی اور تدبر سے محروم رہ جاتے ہیں۔
رمضان المبارک کے دن نفس کو پاکیزہ کرنے کا بہترین موقع ہیں، رات تک انہیں خوب پاکیزہ کر لیجیے تاکہ وہ تدبر قرآن کے لیے تیار ہو جائیں۔ رات کی تلاوت میں تدبر بہتر انداز میں کیا جا سکتا ہے۔ دن کے وقت انسان روزے سے ہوتا ہے جس سے دل کو پاکیزگی ملتی ہے اور رات کے وقت وہ قیام میں مصروف ہوتا ہے جس سے دل میں نیکی کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’درحقیقت رات کا اٹھنا نفس پر قابو پانے کے لیے بہت کارگر اور قرآن ٹھیک پڑھنے کے لیے زیادہ موزوں ہے‘‘
(المزمل: 6)
ہر انسان کو چاہیے کہ وہ اس موقع سے ضرور فائدہ اٹھائے۔ اہل علاقہ میں سے جتنے حاجت مندوں، یتیموں اور بیواؤں کے آنسو پونچھے جا سکیں انہیں پونچھنے میں ذرہ برابر بھی تامل نہیں کرے۔ ان کا فاقہ ختم کرنے اور ان کی مصیبت دور کرنے میں کنجوسی نہ کرے۔
اس معاملے میں کنجوسی سے بچو، کیونکہ کنجوسی ایسی برائی ہے کہ جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگی ہے، حالانکہ وہ تو سب سے بڑے سخی تھے کہ جن کے بارے میں آتا ہے کہ وہ رمضان المبارک میں لوگوں کے لیے تیز ہوا سے بھی زیادہ فائدہ مند ہوتے تھے۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے کہ جب بھی کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے کبھی نا نہیں کی۔
خرچ کرنے سے صرف مسکین ہی کو فائدہ نہیں ہوتا بلکہ خرچ کرنے والوں کو خود بھی اس کا بہت فائدہ ہوتا ہے۔ فرمانِ نبوی ہے:
صدقہ کرنے والے اور بخیل کی مثال ان دو لوگوں کی طرح ہے جو سینے سے گردن تک لوہے کا لباس پہنے ہوئے ہیں، جب سخی خرچ کرنا چاہتا ہے تو وہ لباس کھل جاتا ہے یا اس کے جسم پر کشادہ ہوجاتا ہے اور بخیل جب خرچ کرنا چاہتا ہے تو اس کے لباس کی ہر کڑی اپنی جگہ پر جم جاتی ہے۔ وہ بار بار اسے کھولنا چاہتا ہے مگر وہ کشادہ نہیں ہوتا۔ اسے امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
یاد رکھیے! شیطان پر سب سے زیادہ سخت گزرنے والا، اس کی چالوں کو ناکام بنانے والا اور اس سب سے بڑھ کر اس کا وسوسہ دور کرنے والا کام وہ صدقہ ہے جسے مستحقین تک پہنچا کر انسان یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ خواہشات نفس پر، شیطان پر اور اس کے ڈراوے پر غالب آ گیا ہے۔ شیطان تو انسانوں فقر وفاقہ سے خوف زدہ کرتا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’مگر شیطان کے سارے وعدے بجز فریب کے اور کچھ نہیں ہیں‘‘
(النساء: 120)
اسی طرح فرمایا:
’’شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور شرمناک طرز عمل اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے، مگر اللہ تمہیں اپنی بخشش اور فضل کی امید دلاتا ہے اللہ بڑا فراخ دست اور دانا ہے‘‘
(البقرۃ: 268)
اے بھلائی کا اردہ رکھنے والے! آگے بڑھ اور اے برائی کا ارادہ رکھنے والے! اب تو رک جا!
اے اللہ! ہم تجھ سے جو خیر مانگتے ہیں، وہ ہمیں عطا فرما! جو نہیں مانگتے وہ بھی ہمیں عطا فرما! اور جو بھلائی ہمارے علم، عمل اور امید سے بالا تر ہے یا اللہ! تو وہ بھی ہمیں عطا فرما!
’’پاک ہے تیرا رب، عزت کا مالک، اُن تمام باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں۔ اور سلام ہے مرسلین پر۔ اور ساری تعریف اللہ ربّ العالمین ہی کے لیے ہے‘‘
(الصافات: 180-182)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں