تعصب سے بچیے۔ خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس)

مسجد حرام کے امام وخطیب فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر صالح بن عبد اللہ بن حمید
جمعۃ المبارک 25 شعبان 1439ھ بمطابق 11 مئی 2018
عنوان: تعصب سے بچیے۔ خطبہ جمعہ بیت اللہ
ترجمہ: عاطف الیاس

منتخب اقتباس:

الحمد للہ! میں شکر گزاوں کی طرح اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کرتا ہوں۔ وہ پاکیزہ ہے، اسی کے لیے ساری تعریف ہے۔ اس کی نعمتوں کو کوئی شمار نہیں کر سکتا۔ اس کی عطائیں فراواں اور نعمتیں بے شمار ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی گواہی کی بدولت میں روزِ جزا نجات کی امید رکھتا ہوں ۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اللہ کی بہترین ثنا اور اس کا بہترین ذکر کرنے والے تھے۔ اللہ کی رحمتیں اور سلامتیاں ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ گھر والوں پر، دین کے سپاہی، روشن پیشانیوں والے مبارک صحابہ پر ، تابعین پر اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے نیک لوگوں پر۔

بعدازاں!
لوگو! میں اپنے آپ کو اور آپ سب کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ اللہ آپ کی نگہبانی فرمائے! اللہ سے ڈرو اور تکلف نہ کرو۔ تکلف یہ ہے کہ جس چیز کا علم نہ ہو اس کے متعلق بھی بات کی جائے، بڑوں کا مقابلہ کیا جائے، ناممکن چیزوں تک پہنچنے کی تمنا رکھی جائے اور غیر متعلقہ امور میں بھی دخل دیا جائے۔ جو غیر متعلقہ چیزوں میں دخل دیتا ہے، اسے ناپسندیدہ چیزوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لا یعنی قسم کی چیزوں میں مصروف رہنا اللہ تعالیٰ کی ناراضی کی علامت ہے۔

دانشمند فرماتے ہیں: رائے ایک دوسرے کے سامنے پیش کرنے کے لیے ہوتی ہے، نہ کہ دوسروں پر مسلط کرنے کے لیے اور نظریے ایک دوسرے کو بتانے کے لیے ہوتے ہیں نہ کہ دوسروں پر لاگو کرنے کے لیے۔
اسی لیے علمائے کرام نے آدابِ اختلاف اور خلافِ آداب میں فرق کیا ہے۔ چنانچہ، اللہ کے بندو! سعادت مند وہ ہے کہ جو قناعت اپنا کر دوسروں سے بے نیاز، تواضع اختیار کر کے غنی اور اچھے اخلاق پر عمل کر کے عظیم بن جائے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’(اے نبیؐ) اِن سے کہہ دو کہ میں اس تبلیغ پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، اور نہ میں بناوٹی لوگوں میں سے ہوں‘‘ (صٰ: 86)

اے مسلمان معاشرے کے لوگو!
ایک خطرناک بیماری، جو انسانوں میں روحِ انسانیت کا خاتمہ کر دیتی ہے، جو لوگوں کو بھی متاثر کرتی اور معاشروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیتی ہے۔ جب یہ پھیل جاتی ہے تو معاشروں میں بڑی تباہی مچاتی ہے اور لوگوں کو خوب نقصان پہنچاتی ہے۔ یہ بیماری کسی پڑھے لکھے اور ان پڑھ میں فرق نہیں کرتی ہے، کسی مہذب اور غیر مہذب کو نہیں جانتی اور نہ کسی دین دار اور غیر دین دار کو پہچانتی ہے۔ یہ تکبر کا ایک بڑا ذریعہ ہے، لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف کرنے اور زمین میں فساد پھیلانے کا راستہ ہے۔
اللہ کے بندو! یہ بیماری تعصب کی بیماری ہے۔ یہ جاہلیت کی رسم ہے اور اسی کا طریقہ ہے۔
تعصب میں مبالغہ آرائی بھی ہوتی ہے اور انتہا پسندی بھی، نفرتیں بھی ہوتی ہیں اور تفرقہ بھی، گمراہی بھی اور بغض بھی۔ اس کی وجہ سے انسان حق، عدل اور حقیقت پسندی کے خلاف جانے والی چیزوں کی پیروی کرنے لگتا ہے۔

حقیقت میں تعصب باہمی تعلقات، افکار اور اقدار پر ضرورت سے زیادہ زور دینے، کسی قسم کی نرمی، سمجھنے سمجھانے کی گنجائش اور نصیحت کی جگہ نہ چھوڑنے کا نتیجہ ہوتا ہے۔

اسلامی معاشرے کے لوگو!
تعصب یہ ہے کہ خواہشات، تعلقات اور دیگر چیزوں کی بنا پر حق کے واضح دلائل دیکھنے کے باوجود اس کا انکار کر دیا جائے۔
تعصب باطل کا دفاع ہے۔ تعصب کرنے والا خود کو ہمیشہ حق پر سمجھتا ہے چاہے اس کے پاس کوئی دلیل یا حجت نہ بھی ہو، اور دوسروں کو ہمیشہ غلط ہی سمجھتا ہے چاہے دلیل اور حجت ان کی تائید ہی کیوں نہ کر رہی ہو۔
ہٹ دھرمی، انفرادیت، ضرورت سے زیادہ سختی، مخالفت اور دوسروں کو قبول کرنے سے انکار، سب تعصب کی پیداوار ہیں اور سب ہی انسان میں نفرت اور بغض پیدا کرتی ہیں۔ ان کی وجہ سے اجتماعیت، بھائی چارہ، مشکلات کے حل، تعمیر، ترقی اور تعاون کے مواقع بے فائدہ ہو جاتے ہیں۔ کسی شخص میں تعصب کے ساتھ ساتھ چشم پوشی، کشادگی اور دوسروں کی عزت کبھی اکٹھی نہیں ہو سکتی۔

دانشور کہتے ہیں: تعصب ایک خفیہ دشمن ہے۔ اکثر لوگوں کو اس کے خطرے کا اندازہ ہی نہیں ہو پاتا۔
عصبیت ایک مہلک نعرہ ہے جو انسان کے دل میں پلتا رہتا ہے۔ اگر معاشرہ اسے قبول کر لے تو چھوٹا اسی پر پلتا ہے، بوڑھا اسی پر مرتا ہے اور معاشرے کے تمام خواتین وحضرات اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ معاشرتی تعلقات پاش پاش کر دیتا ہے، وحدت اور اخوت کی روح کو ختم کر دیتا ہے، منافقت اور تفرقہ پھیلا دیتا ہے، محنتیں ضائع کر دیتا ہے، طاقتور کو کمزور بنا دیتا ہے اور بنا بنایا معاشرہ تباہ وبرباد کر دیتا ہے۔

تعصب لوگوں میں فرق کرنا، طرف داری کرنا اور لوگوں کو مختلف گروہوں میں بانٹنا سکھاتا ہے۔ تعصب عقل اور آنکھ پر ایسی پٹی باندھ دیتا ہے کہ پھر حق پہچاننا ناممکن ہو جاتا ہے، بلکہ حق کی جستجو کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔ پھر اس میں مبتلا شخص کو بھلائی اور برائی کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔
اے مسلمان معاشرے کے لوگو!
تعصب کی بہت سی شکلیں ہیں۔ جن میں دوسروں کو کم تر سمجھنا، ان کی تحقیر کرنا، ان کے حقوق کا اعتراف نہ کرنا شامل ہیں۔
تعصب کی واضح ترین شکلوں میں سے ایک شکل یہ ہے کہ تعلقات کو قابلیت پر ترجیح دی جائے۔ تعصب کبھی تو باتوں میں نظر آتا ہے، کبھی اس سے بڑھ کر تعامل اور قطع تعلقی کی شکل میں بھی دکھائی دیتا ہے، پھر انفرادی اور اجتماعی بائیکاٹ کی شکل اختیار کر سکتا ہے اور پھر مار پیٹ یا، اللہ معاف فرمائے، قتل وغارت تک پہنچ سکتا ہے۔

اللہ کے بندو!
عصبیت پرستی کئی مرتبہ سیاسی نعروں یا عقیدہ کے شعاروں کے پیچھے چھپتی ہے اور کبھی دینی دعووں کی آڑ میں آتی ہے۔ اس کے نتیجے میں فرقہ واریت جنم لیتی ہے اور گروہ بندی وجود میں آتی ہے اور پھر امت بکھر جاتی ہے۔

تعصب کی برائی اور اس کے نقصانات تاریخ کے صفحات میں رقم ہیں۔ تمام انبیاء اور مصلحین کو دعوت کے راستے میں بہت سی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان سب رکاوٹوں کا حقیقی محرک تعصب ہی تھا۔

تعصب کی وجہ سے لوگوں کو قتل کیا گیا، ان کے حقوق ضائع ہو گئے اور ظلم وزیادتی عام ہو گئی۔

اے میرے پیارو!
بعض لوگ اپنا کوئی عیب چھپانے کے لیے، یا اپنے نفس، تجربے اور مہارت میں کسی کمی کو پورا کرنے کے لیے، یا محض فخر اور غرور کرنے کے لیے تعصب کی راہ اپنا لیتے ہیں۔ بعض لوگ تعصب کی بنا پر چند کتابیں یا مضامین لکھ کر، یا چند نسلی، مذہبی، علاقائی، قبائلی یا فکری جماعتیں، گروہ یا ادارے بنا کر دینی، سیاسی یا ثقافتی حلقوں میں اپنا اثر رسوخ جمانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اے مسلمانو!
بیماری کے علاج کا اور معاشرے کو اس کے اثرات سے بچانے کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرض کی تشخیص کی جائے۔

اسی لیے، اللہ کے بندو! تعصب کے اسباب اور اس کی محرکات کو تلاش کرنا ضروری ہے۔
اللہ آپ کی نگہبانی فرمائے! اس کے اسباب میں عصبیت پرستی کے شکار معاشرے میں تربیت پانا سر فہرست ہے۔ عصبیت پرست معاشرہ عصبیت پرست لوگ ہی پیدا کرے گا جو ظلم وزیادتی، جھگڑے اور فساد ہی برپا کریں گے۔ انسان عصبیت پرستی پر پیدا نہیں ہوتا بلکہ وہ اسے تربیت، تقلید اور معاشرے سے سیکھتا ہے۔
تعصب کے اسباب میں عدل وانصاف، مساوات اور اخلاص جیسے عظیم اخلاق کا فقدان ہے۔ اور ظاہر ہے کہ جہاں عظیم اخلاق نہ ہوں کے وہاں شدت پسندی، بغض، اپنی جماعت اور اپنے گروہ کے لیے تعصب ہی ہو گا۔
اسی طرح تعصب کے اسباب میں علماء، مذہبی پیشواؤں، سرداروں اور معاشرے کے معزز لوگوں میں غلو ہے۔

ایسے رویوں کی وجہ سے امت کی توانائیاں ضائع ہوتی ہیں، تفرقہ پھیلتا ہے، اہداف سے غفلت نظر آتی اور نتیجے میں عصبیت پرستی کی بڑھتی گرمی، انتہا پسند پر مبنی سوچ، اور مبالغہ آرائی پر مبنی افکار کے سوا کچھ نہیں حاصل ہوتا۔ اس طرح معاشرہ رحمت، اخوت اور پیار سے محروم ہو جاتا ہے۔
اس طرح امت کی ہوا اکھڑ جاتی ہے، دشمن جرات کرنے لگتے ہیں اور ان کے لیے دروازے کھل جاتے ہیں۔ پھر وہ جہاں سے چاہیں، ہمارے معاشرے میں داخل ہو کر دین پر حملے کریں، اس کی حیثیت گھٹائیں، ملک کی برکتیں لوٹیں اور اس کی اجتماعیت کو پاش پاش کر کے امت کو بکھیر دیں۔

اس بیماری کا علاج یہ ہے کہ اپنی نسل کو رواداری، دوسروں کے حقوق کی حفاظت اور سب کے احترام پر تربیت دی جائے۔
اسی طرح ایسا نظام بنایا جائے کہ جس سے تعصب کی روک تھام ہو سکے اور ایسی پالیسی اپنائی جائے کہ جس کے ذریعے تمام لوگوں کو عدل کے ساتھ مکمل حقوق مل سکیں اور کسی گروہ کی برتری یا کمتری کی سوچ کا خاتمہ ہو سکے۔ اسی طرح گھرانے، مدرسے، مسجد اور میڈیا کے کردار کو خاص اہمیت دی جائے اور اس حوالے سے بھی منصوبہ بندی کی جائے۔
یہ بھی خیال رہے کہ حق پرستی نہیں چھوڑنی چاہیے اور حق کے سامنے سر تسلیم خم کرنا آنا چاہیے۔ حق کو حق ماننا اور اس کے مطابق عمل کرنا بھی سیکھ لینا چاہیے۔

کیا رنگوں کے اختلاف نے بھی کبھی لوگوں کو ایک دوسرے سے بہتر بنایا ہے؟! کیا کسی ملک میں پیدا ہونے سے بھی کبھی کوئی دوسرے سے افضل ہوا ہے؟ کیا ایک ہی پیٹ سے نکلنے والے لوگ ایک دوسرے سے بہتر نسب والے ہو سکتے ہیں؟

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: جس کا عمل اس کا ساتھ نہ دے، اس کا نسب اسے آگے نہیں کر سکتا۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ایسا نہیں ہو سکتا کہ لوگ تو اپنے اعمال کی بنا پر میرے قریب ہوں اور تم اپنے نسب ہی کی وجہ سے قریب ہو جاؤ۔ اسے امام بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے نوح کو ان کے بیٹے کے متعلق فرمایا تھا:
’’وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے، وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے‘‘
(ہود: 46)

اللہ کے بندو! عصبیت بس ایک خوش فہمی ہے، کم ہمت لوگ اس کا شکار رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ بڑے کارنامے کر رہے ہیں۔ ان کے موہوم کارناموں میں نہ کوئی محنت لگتی ہے، نہ کوئی مال لگتا ہے اور نہ ان کا کوئی پھل ہوتا ہے۔ انسان اپنا ذمہ دار ہے۔ بھلائی کرے گا تو آگے بڑھ جائے گا، برائی کرے گا تو پیچھے ہو جائے گا۔ تقویٰ کا لباس انسان کو بلند کرتا ہے اور وہی انسان کے لیے بہتر ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: عصبیت کی طرف بلانے والا ہم میں سے نہیں ہے۔ عصبیت کی بنا پر لڑنے والا ہم میں سے نہیں ہے۔ عصبیت پر مرنے والا ہم سے نہیں ہے۔ اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔

دوسری حدیث میں آتا ہے: جو عصبیت کی طرف بلانے والے کسی اندھے جھنڈے تلے لڑتا ہوا یا عصبیت کی مدد کرتا ہوا مر جائے تو وہ جاہلیت کی لڑائی لڑتا ہوا مرے گا۔ اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

فرمانِ الٰہی ہے:
’’کیا اُسے اُن باتوں کی کوئی خبر نہیں پہنچی جو موسیٰؑ کے صحیفوں۔ اور اُس ابراہیمؑ کے صحیفوں میں بیان ہوئی ہیں جس نے وفا کا حق ادا کر دیا؟ “یہ کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ۔ اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اُس نے سعی کی ہے۔ اور یہ کہ اس کی سعی عنقریب دیکھی جائے گی۔ اور اس کی پوری جزا اسے دی جائے گی۔ اور یہ کہ آخر کار پہنچنا تیرے رب ہی کے پاس ہے‘‘
(النجم: 36-42)

بعد ازاں! اے مسلمانو!
عصبیت یہ نہیں ہے کہ انسان اپنی قوم اور ملک سے پیار کرے۔ کسی قبیلہ کی طرف اپنی نسبت کرنا، اپنے مذہب کی طرف منسوب ہونا اور اپنے وطن سے پیار کرنا عصبیت نہیں ہے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا طریقہ ہے۔ اسی نے لوگوں کو گروہوں اور قبیلوں میں بانٹ دیا ہے تاکہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعارف کر سکیں۔ اسی نے لوگوں کے دلوں میں اپنے ملکوں اور شہروں کی محبت ڈالی ہے۔

عصبیت یہ ہے کہ باطل کی حمایت کی جائے، حق کو جھٹلایا جائے، عدل سے ہٹا جائے، ظلم پر دوسروں کی تعریف کی جائے، ظالم کی مدد کی جائے، اپنے قبیلے، مذہب، فکر، اقدار، اور مٹی پر فخر کرتے ہوئے دوسروں کو حقیر سمجھا جائے۔

عصبیت کا خاتمہ ہو جائے تو بہت سی لڑائیاں اور جھگڑے ویسے ہی ختم ہو جائیں اور معاشرہ مکمل امن، محبت اور اخوت کی زندگی گزاریں۔ معاشرے روشن خیالی کے کھوکھلے دعووں اور اندھی عصبیت سے نہیں بلکہ ہمیشہ خیر، بھلائی اور تقویٰ کی بنیاد پر ترقی کرتے ہیں۔

اللہ آپ کی نگہبانی فرمائے! اللہ سے ڈرو اور جان رکھو کہ ایک بابرکت مہمان آنے والا ہے، جو خواہشات نفس کو لگام دے کر نفس کی تربیت کرتا ہے۔ جس میں انسان کی نیت کا امتحان ہوتا ہے۔ یہ نفس کو قابو میں رکھنا، اپنے اور لوگوں کے لیے بھلائی، خیر اور اچھائی کی خواہش کرنا سکھاتا ہے۔
یہ ایک عظیم اور بابرکت مہمان اور عظیم نعمت ہے کہ جس کی قدر وہی مخلص کر سکتے ہیں کہ جو اسے نیکی سے بھر دیتے ہیں۔

وہ شخص بڑا ہی خوش قسمت ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ رمضان تک زندگی عطا فرمائے، جو اس بابرکت موقع کو پا لے، اس کے عظیم فضل کو سمجھ لے اور اس میں نیک عمل کر لے۔ تو اللہ آپ کی نگہبانی فرمائے! اگر اس مہینے کے استقبال کے لیے ہمت بلند کر لی جائے اور اس کے لیے خوب تیاری کی جائے تو ہی اس کا صحیح فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

رمضان المبارک کا مہینہ پاکیزہ اور بابرکت گھڑیوں کا مہینہ ہے، یہ گناہوں اور خطاؤں سے بچاؤ کا مہینہ ہے۔ یہ روزہ، نماز، قیام، ذکر، احسان، قرآن اور تسبیح کا مہینہ ہے۔

سنو! اللہ سے ڈرو! اللہ آپ کی نگہبانی فرمائے! اس مہمان کی خوب عزت کرو۔ اللہ کی راہ میں جہاد کرو اور فرمانبرداری کرو۔ توبہ کرنے اور اللہ کی طرف پلٹنے میں جلدی کرو۔ اللہ تعالیٰ کا قرب تلاش کرنے کی کوشش کرو۔ استقامت کا پختہ عزم کرو، کیونکہ عین ممکن ہے کہ امیدیں پوری ہونے سے پہلے ہی انسان قبر میں پہنچ جائے۔

اے نیکی کا ارادہ رکھنے والے! آگے بڑھ! اے برائی کا ارادہ رکھنے والے! اب تو رک جا! اللہ تعالیٰ رمضان میں لوگوں کو جہنم کی آگ سے محفوظ فرماتا ہے، تو تم بھی اللہ تعالیٰ کو اپنی بھلائی دکھاؤ۔

’’اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا‘‘
(البقرۃ: 201)
’’پاک ہے تیرا رب، عزت کا مالک، اُن تمام باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں۔ اور سلام ہے مرسلین پر۔ اور ساری تعریف اللہ ربّ العالمین ہی کے لیے ہے‘‘
(الصافات: 180-182)


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں