روزہ کی بابت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم _
*اردو استفادہ از امام ابن القیم٭
(حصہ اول)
مصنف: حامد كمال الدين
چونکہ روزہ سے مقصود یہ ہے کہ نفس خواہش پوری کرتے جانے سے رکنے کی تربیت پائے اور یہ کہ لذت کی وہ بہت سی صورتیں جو اس کے منہ کو لگ چکی ہوں، ایک اعلیٰ مقصد کی لگن میں اس سے چھڑوا دی جائیں۔اس کے حیوانی قویٰ کو قابو میں لایا جائے اور اس کی شہوانی توانائی کو اعتدال سکھایا جائے۔ نفس کی چاہت کو مادی مطالب سے پھیر کر ایک اعلیٰ و پاکیزہ رخ دیا جائے۔ اس میں وہ سلیقہ پیدا کیا جائے کہ یہ کسی اور جہان کی جستجو کر سکے جہاں لطف کی کوئی انتہا نہیں اور جہاں نعمتوں اور آسائشوں کا کوئی اندازہ نہیں اور جہاں عیش کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔اور تاکہ یہ ان خوبیوں سے آراستہ ہوسکے جو دائمی زندگی پانے کا ایک مناسب ترین مقدمہ بن سکیں۔۔۔
چونکہ روزہ سے مقصود یہ ہے کہ نہ تو دنیا کی بھوک پیاس کی اس نفس میں کچھ خاص وقعت رہے اور نہ یہاں کا کھانا پینا ہی کچھ اس کا منتہائے سعی رہےاور تاکہ یہ احساس کی وہ صلاحیت بھی پالے جس کی بدولت اس کو اندازہ رہنے لگے کہ ایک بھوکے مفلس کے کلیجے پہ کیا گزرتی ہے اور مسکین کے دل کی کیا حالت ہوا کرتی ہے۔
روزہ سے چونکہ مقصود یہ ہے کہ جسم میں شیطان کی بھاگ دوڑ کےلئے راستے تنگ کردیے جائیں اور کھانے پینے کی راہ سے شیطان کو یہاں جوگزرگاہیں میسر آتی ہیں وہاں اس کا گزر دشوار کردیا جائے قوائے جسم کی آزادی ذرا محدود کرکے، اور بدن کا جوش ذرا کم کرکے، روح کو معبود کے راستے میں تحریک دی جائے۔۔۔۔۔۔
پس یہ متقیوں کے لئے ایک زورآور مہار ہے اور مجاہدوں کےلئے ایک زبردست ڈھال۔ یہ نیکوکاروں کی ریاضت ہے اور خدا کا قرب پانے والوں کےلئے محنت کا ایک بڑا میدان۔
اور دیکھو سارے اعمال میں سے اس کو ’خدا کی خاطر‘ہونے کی ایک خاص نسبت ہے۔ وجہ یہ کہ روزہ دار کچھ بھی نہیں کرتا بس اپنی خواہش اور اپنی شہوت کو اور اپنے کھانے اور پینے کو معبود کی خاطر چھوڑلیتا ہے۔ پس یہ محبوباتِ نفس کوخدا کی محبت میں بھلا دینا ہے اور نفس کی لذتوں کو خدا کی خوشنودی پروار دینا۔ گویا یہ نفس کا ایک محبوب سے پھر کر ایک دوسرے محبوب کو اختیار کرلینا ہے۔ پس یہ روزہ محبوب کا ایک شعوری اور ہمہ وقتی تعین ہے۔ بندے اور خدا کے مابین ایک ’سر‘ ہے۔ یہ ایک ایسا ’راز‘ہے جو بندے کو معلوم ہے یا پھر خدا کو! لوگ زیادہ سے زیادہ دیکھ سکتے ہیں تو یہ کہ یہ بندہ اپنا کھانا پینا اور دیگر مفطرات کو چھوڑکر بیٹھا ہے۔ مگر دل کی وہ حالت جو اِس سے اِس کا یہ کھانا پینا اور اِس کی یہ شہوت و خواہش چھڑوائے بیٹھی ہے اور معبود کی طلب میں ہر لذت کو قربان کروارہی ہے،صرف خدا کو معلوم ہے۔ اس کی کوئی اور کیونکر خبر پاسکتا ہے روزہ کی اصل حقیقت سمجھو بس یہی ہے !
انسان کے ظاہر و باطن کو بدل کر رکھ دینے میں روزے کی عجیب تاثیر دیکھی گئی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں کہ جسم کے فاسد مادے اس ریاضت سے دھل جاتے ہیں بلکہ روح کے ناگوار جوانب بھی اس عبادت سے خوب صاف ہوتے ہیں۔قلب اور جوارح کے صحت پانے میں روزہ کی تاثیردیدنی ہے۔ نفس کے وہ حصے جو خواہشات وشہوات کے زیرآب آچکے ہوتے ہیں وہ اس عمل کے نتیجے میں بخوبی واگزار کرالیے جاتے ہیں اور بندگی کو اس سر زمین پر پیر جما کر چلنے میں خوب مدد ملتی ہے۔ دل میں تقوی کی راہ ہموار کرنے میں’روزہ‘ کو عبادات کے مابین ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ چنانچہ فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقرہ:183)
”اے لوگو جو ایمان لائے ،تم پر روزے فرض کئے جاتے ہیں جیسا کہ تم سے پہلوں پر فرض کئے گئے شاید کہ تم تقویٰ پاؤ“
اور فرمایا: الصوم جنۃ ”روزہ ڈھال ہے“
علاوہ ازیں جنسی خواہش کو قابو میں لانے کےلئے آپ نے روزہ تجویز فرمایا۔
غرض عقل اور فطرت کو نفس کی اصلاح میں روزہ کی اس غیر معمولی تاثیر کا جو مشاہدہ کرنے کو ملتا ہے اس کے پیش نظر ہم دیکھتے ہیں کہ خدا نے اس عبادت کو انسانوں کےلئے مشروع ٹھہرادی اپس یہ اس کی رحمت ہے اور ان پر اس کا ایک احسان اور برائی سے ان کا ایک زبردست تحفظ۔
’روزہ‘ پس یہ ہوا کہ وہ حلال لذتیں بھی جو نفس کے منہ کو لگ چکی ہوں اور وہ جائز آسائشیں بھی جن کا یہ نفس عادی ہوچکا ہواس سے پرے کردی جائیں اور روز کچھ عرصہ اس پر یہ حالت گزرے اور اس کیفیت میں اس کو خدا کی جانب متوجہ کرایا جائے تاکہ یہ بندگی کے کچھ خاص پاکیزہ معانی ازبر کرے اور پورا ایک ماہ یہ اسی حالت میں صبح سے شام کردیا کرے.
جاری ہے۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں