روزہ کی بابت آپﷺ کی تعلیم _ *اردو استفادہ از امام ابن القیم٭ (حصہ سوم)

Image result for ‫رمضان‬‎
روزہ کی بابت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم
 *اردو استفادہ از امام ابن القیم٭ 
(حصہ دوم)


آپکا طریقہ تھا کہ آپ صیامِ رمضان کا آغاز نہ کرتے جب تک کہ رمضان کا چاند نہ دیکھ لیتے یاپھر کم ازکم ایک گواہ کی صورت میں چاند دیکھنے کی اطلاع نہ پالیتے۔آپ نے عبداللہ بن عمرؓ کی گواہی پر روزہ رکھا۔ ایک بار ایک ہی اعرابی کی شہادت پر لوگوں کو روزہ رکھوایا۔ یہ بھی نہ کہا کہ کہو میں گواہی دیتا ہوں۔ آدمی نے آکر اطلاع دی کہ میں نے چاند دیکھا ہے اور آپ نے اس خبر واحد پر اکتفا فرمایا۔ البتہ اگر نہ رؤیت ہو اور نہ رؤیت کی گواہی ہو تو آپ شعبان کے تیس روز پورے کرواتے۔

مطلع ابر آلود ہوتا تو شعبان کے تیس روز پورے فرماتے ۔ شک کے دن کا روزہ نہ رکھتے۔ فرماتے :”مہینہ تیس دن کا ہوتا ہے۔ مہینہ انتیس دن کا ہوتا ہے۔پس اگر مطلع صاف نہ پاؤ توتیس کی گنتی پوری کرلو

آپکا طریقہ تھا کہ ایک مسلم آدمی کی شہادت میسر آجاتی تو لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم فرمادیتے۔ البتہ ماہ رمضان کے اختتام کے معاملہ میں دو کی گواہی لیتے۔

عید کے چاند کی گواہی اگر آپ کو اس سے اگلی صبح عید کا وقت گزرجانے کے بعد ملتی تو آپ اسی وقت روزہ کھول لیتے اور لوگوں کو روزہ کھول لینے کا حکم دیتے۔البتہ عید کی نماز دوسرے دن جاکر عید کے وقت پڑھتے ۔

افطار جلد فرماتے۔ افطار میں جلدی کرنے کی بے حد تاکید کرتے۔ سحری کا اہتمام فرماتے۔ سحری کرنے کی خصوصی ہدایت کرتے ۔ سحری کومؤخر کرتے اور مؤخر کرنے کی ترغیب دیتے۔

روزہ کھجور سے افطار کرنے کی تاکید کرتے۔ کھجور نہ ہو تو پانی سے۔ یہ آپ کی امت پر کمال مہربانی اور ہمدردی کی دلیل ہے۔ دن بھر معدہ خالی رہنے کے بعد اس کے ازسر نو مصروف ہوجانے کےلئے سب سے پہلے اس کو کچھ میٹھی چیز مہیا کرنا نہایت فائدہ مند ہے اور تمام قوائے جسم کو چست کردینے کا باعث۔ خصوصاً بصارت کو تقویت دینے میں یہ بہت اہم ہے۔ مدینہ میں میٹھا کھجور سے بہتر کیا ہو سکتا ہے۔ اسی پر ان کی گزر بسر تھی ۔یہی ان کی غذا ۔ یہی ان کی ضیافت۔ درخت سے اتری تازہ کھجور ہی ان کےلئے پھل تھا۔ رہا پانی تو دن بھر کا فاقہ جگر کو ایک طرح سے سُکھا دیتا ہے۔ پس سب سے پہلے اس کو پانی سے طراوت دی جائے تو بعد میں کھائی جانے والی غذا کو بہترین انداز میں جسم کےلئے کارآمد بنا سکتا ہے۔ چنانچہ ایک آدمی جو بھوکا بھی ہو اور پیاسا بھی، اس کو چاہیے کہ وہ فوراً کھانا شروع نہ کرے بلکہ پہلے تھوڑا ساپانی پئے۔ پھر کچھ ٹھہر کر کھانا کھائے ۔یہ تو ہوئی کھجور اور پانی کی جسم کو ضرورت ۔ البتہ ان دونوں چیزوں کی تاثیر قلبی اور روحانی عمل میں بھی کمال کی دیکھی گئی ہے اور اس کا اندازہ انہی کو ہے جو اس میدان کے لوگ ہیں۔

افطار آپ نماز مغرب سے پہلے فرماتے۔ آپ کےلئے درخت کی تازہ اتری کھجوریں لائی جاتیں ۔ اگر یہ میسر نہ ہوتیں تو خشک کھجوریں۔ یہ بھی میسر نہ ہوتیں تو آپ پانی کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ ہی لے لیتے۔

مذکور ہے کہ روزہ کھولتے وقت آپ دعاگو ہوتے:”خدایا تیری خاطر فاقہ کیا۔ اب تیرا دیا کھا کرافطار کیا“۔یہ روایت ابوداؤد میں ہے۔

یہ بھی مروی ہے کہ جب افطار کرلیتے تو گویا ہوتے :”پیاس تھی سوگئی۔رگوں کو تراوت ملی اور خدانے چاہا تو اجر پکا

ابن ماجہ میں آپکا یہ فرمان مروی ہے کہ :”روزہ دار کو روزہ افطار کرنے کے وقت ایک دعا کا حق دیا جاتا ہے جو ہرگز رد نہیں ہوتی


رمضان میں آپ سفرکرلیتے ۔رمضان کے سفر میں آپ نے روزہ رکھا بھی اور چھوڑا بھی۔ صحابہ کو چناؤ دیا کہ چاہیں تو روزہ رکھیں اور چاہیں تو چھوڑ لیں ۔

دشمن سے آمنا سامنا ہونے کا وقت قریب ہوتا تو صحابہ کو روزہ چھوڑ دینے کا حکم دیتے تاکہ دشمن سے قتال کرنے کےلئے زیادہ طاقت پائیں۔

مجاہد فوج اگر سفر میں نہ ہو بلکہ مقیم ہو تو کیا مجاہدین قتال میں زیادہ طاقت پانے کےلئے اپنے گھروں میں رہتے ہوئے بھی رمضان کے روزے چھوڑ سکتے ہیں؟ اس کی بابت اہل علم کے دو قول ہیں۔ البتہ دلیل کے لحاظ سے صحیح قول یہ ہے کہ ان کو اس بات کی اجازت ہے۔ ابن تیمیہؒ نے بھی اسی قول کو اختیار کیا اور جس وقت دمشق کے باہر مجاہدین کی دشمن سے مڈبھیڑ ہونے والی تھی انہوں نے مجاہدین کو یہی فتویٰ دیا۔ یوں بھی جہاد کی مشقت سفر کی مشقت سے کہیں بڑی ہے۔ اور پھر جہاد سے جو مصلحت وابستہ ہے وہ سفر کے ساتھ وابستہ مصلحت سے کہیں بڑی ہے۔ اور پھر سفر ایک فرد کی اپنی ضرورت ہوسکتی ہے جبکہ جہاد پوری امت کی ضرورت ہے لہٰذا مقیم مجاہد کا بوقت قتال روزہ چھوڑنا ایک مسافر کی نسبت کہیں اولیٰ ہے۔

رمضان میں آپ نے دو عظیم ترین غزووں کےلئے سفر فرمایا۔ایک غزوۂ بدر اور دوسرا غزوۂ فتح۔ عمرؓ کہتے ہیں:ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمرکابی میں دو غزوے کئے۔ ایک بدر کے روز اور ایک فتح مکہ کےلئے۔ ان دونوں موقعوں پر ہم نے روزہ چھوڑا۔

آپ کی ھَديَ میں یہ کہیں نہیں پایا جاتا کہ آپ نے کسی ایسی مسافت کا تعین کیا ہو جس کا سفر کرنے کے دوران آدمی کو روزہ چھوڑنے کی اجازت ہو اور اس سے کم مسافت ہو تو افطارکی اجازت نہ ہو۔

صحابہ کو سفر درپیش ہوتا تووہ روزہ چھوڑ لیتے ۔ یہ شرط نہ لگاتے کہ وہ اپنے شہر کی آبادی سے نکل کر ہی کچھ کھاپی سکتے ہیں۔ عبید بن جبر کہتے ہیں میں نے صحابی رسول ابوبصرہ غفاریؓ کے ساتھ رمضان میں فسطاط (ایک شہر) سے کشتی کا سفر کیا۔ ابھی ہم آبادی سے نہیں نکلے تھے کہ ابو بصرہ ؓنے دسترخوان لانے کا حکم دیا اور مجھے کھانے کےلئے آگے بڑھنے کا کہا۔ میں نے کہا:کیا آپ آبادی نہیں دیکھ رہے؟ ابوبصرہ غفاری کہنے لگے: کیا تم سنت رسول اللہ سے منہ موڑتے ہو؟ (رواہ ابوداؤد و احمد) محمد بن کعب کہتے ہیں :میں انس بن مالک کے ہا ں حاضرہو اجو کہ سفر پہ روانہ ہونے والے تھے۔ ان کی سواری تیار کردی گئی تھی اور وہ سفر کا لباس پہن چکے تھے۔تب انہوں نے کھانا منگوایا۔میں نے کہا: کیا یہ سنت ہے؟ فرمایا :ہاں سنت ہے۔ اس کے بعد وہ سفر پہ روانہ ہوگئے۔ ترمذی نے اس کو حدیث حسن کہا ہے۔

(استفادہ واختصار از زاد المعاد ص:211۔201مؤلفہ ابن القیمؒ)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں