خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس)
مسجد حرام کے امام وخطیب فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر ماہر بن حمد المعیقلی حفظہ اللہ
جمعۃ المبارک 18 شعبان 1439 ھ بمطابق 4 مئی 2018
عنوان: دل صاف رکھنے کی فضیلت۔
ترجمہ: عاطف الیاس
بشکریہ: کتاب حکمت ویب
منتخب اقتباس:
الحمد لله۔ تمام طرح کی تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد مانگتے ہیں، اسی سے معافی کا سوال کرتے ہیں، اسی پر ایمان رکھتے ہیں، اسی پر بھروسہ اور اعتماد رکھتے ہیں۔ اسی کی طرف ساری بھلائی منسوب کرتے ہیں، اسی کا شکر ادا کرتے ہیں اور ناشکری سے بچتے ہیں۔ اللہ کا انکار کرنے والوں سے براءت کا اعلان کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی کی عبادت کرتے ہیں، اسی کے لیے نمازیں پڑھتے ہیں اور اسی کے لیے سجدے کرتے ہیں۔ اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ یقینًا! کافر ہی اس کے عذاب میں مبتلا ہونے والے ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے، رسول، چنیدہ نبی اور منتخب ولی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے پیغام کو لوگوں تک پہنچا دیا، امانت ادا کر دی، لوگوں کو نصحت فرمائی اور اللہ کی راہ میں جس طرح جہاد کرنے کا حق تھا اس طرح جہاد کرتے رہے، یہاں تک کہ ان کا آخری وقت آ گیا۔ اللہ کی رحمتیں، برکتیں اور سلامتیاں ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر، صحابہ کرام پر، تابعین عظام پر اور قیامت تک ان کے نقش قدم پر چلنے والوں پر۔
بعد ازاں! اے مسلم معاشرے کے لوگو!
میں اپنے آپ کو اور آپ سب کو اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ یہی و نصیحت ہے جو اللہ تعالی نے اگلوں اور پچھلوں کو فرمائی ہے۔ فرمان الہی ہے:
’’تم سے پہلے جن کو ہم نے کتاب دی تھی انہیں بھی یہی ہدایت کی تھی اور اب تم کو بھی یہی ہدایت کرتے ہیں کہ خدا سے ڈرتے ہوئے کام کرو‘‘
(النساء 131)
شعبان کا آدھا مہینہ گزر گیا ہے، اس کے دن اور اس کی راتیں گزرتی جا رہی ہیں۔ اب بس اس کا مختصر وقت ہی بچا ہے۔ حال یہ ہے کہ بیشتر لوگوں کے دلوں میں کینہ اور ایک دوسرے کی نفرت ہے۔ حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حدیث مبارکہ میں ان چیزوں سے منع فرمایا ہے۔
فرمان نبوی ہے:
شعبان کی درمیانی رات میں اللہ تعالی اپنے بندوں کو دیکھتا ہے۔ مشرک اور کینہ پرور کے سوا باقی سب کو بخش دیتا ہے۔
اسے امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی روزے یا تہجد کا ذکر نہیں کیا، بلکہ استقبال رمضان کے موقع پر امت کو ایک خاص چیز کی توجہ دلائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دل صاف رکھنے اور توحید باری تعالیٰ کا خاص اہتمام کرنے کی ترغیب دلائی۔ شعبان کا نصف گزر جانے سے اس کے انقضاء اور رمضان آمد کا پیغام آتا ہے۔
اس موقع جو شخص اپنے دل کو صاف کر کے اس میں توحید پختہ کر لیتا ہے، اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت واجب ہو جاتی ہے۔ اللہ کے بندو! صاف اور پاکیزہ دل وہی ہے جو شریعت اسلامیہ کے حوالے سے تمام تر شکوک وشبہات سے پاک ہوتا ہے، جو اللہ تعالیٰ سے دور کرنے والی تمام خواہشات سے گریزاں رہتا ہے۔
ابن القیم علیہ رحمۃ اللہ بیان فرماتے ہیں: دل اس وقت تک مکمل طور پر پاکیزہ نہیں ہوتا جب تک وہ پانچ چیزوں سے پاک نہ ہو جائے۔ ایک: شرک سے جو کہ توحید کی ضد ہے۔ دوسری بدعت جو کہ سنت کی ضد ہے، تیسری شہوات نفس کی پیروی جو کہ فرمان برداری کے خلاف ہے، چوتھی غفلت جو کہ ذکر کی ضد ہے اور پانچویں خواہش پرستی جو کہ اخلاص کی ضد ہے۔
پاکیزہ دل وہ ہے کہ جو تقویٰ اور ایمان سے بھرپور ہو، بھلائی، نیکی اور احسان سے بھرا ہوا ہو، جس کے مالک اچھے اخلاق سے مزین ہوں، جن کے خفیہ معاملات بھی پاکیزہ اور صاف ہوں اور جو دوسروں کے لیے بھلائی پسند کرتے ہوں۔
اس طرح یہ واضح ہوتا ہے کہ سب سے پاکیزہ دل انبیاء علیہم السلام کے دل تھے، جو کہ اپنے قوم اور امت کے لیے بھلائی کو پسند کرتے تھے اور ان کی رہنمائی، تعلیم اور ہدایت کے لیے مشکل ترین قربانیاں دینے والے تھے۔
یہ ہیں سیدنا یوسف علیہ السلام، پاکیزہ باپ اور پاکیزہ دادا کی پاکیزہ اولاد، جن کے دل کی پاکیزگی کا حال یہ تھا کہ انہوں نے اپنے بھائیوں کے بد ترین جرم کے بعد انہیں علیٰ الاعلان معاف کر دیا۔ اللہ تعالیٰ ان کا قول نقل فرماتے ہیں کہ:
’’اس نے جواب دیا، “آج تم پر کوئی گرفت نہیں، اللہ تمہیں معاف کرے، وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے‘‘
(یوسف: 92)
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا: وہ نبی میری آنکھوں کے سامنے ہے کہ جنہیں قوم نے مار کر زخمی کر دیا۔ وہ اپنے چہرے سے خون کو صاف کرتے ہوئے فرما رہے تھے: اے اللہ! میرے قوم کو معاف کر دے! وہ جانتے نہیں ہیں۔
انبیاء کے بعد پاکیزہ ترین دلوں کے مالک صحابہ کرام ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان کی صفت یوں بیان فرمائی ہے:
’’(اور وہ اُن لوگوں کے لیے بھی ہے) جو اِن مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی ایمان لا کر دارالحجرت میں مقیم تھے یہ اُن لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے اِن کے پاس آئے ہیں اور جو کچھ بھی اُن کو دے دیا جائے اُس کی کوئی حاجت تک یہ اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں‘‘
(الحشر: 9)
ایاس بن معاویہ علیہ رحمۃ اللہ صحابہ کرام کی صفت یوں بیان کرتے ہیں: ان کے نزدیک پاکیزہ ترین دل رکھنے والا اور سب سے کم غیبت کرنے والا ہی افضل ترین تھا۔
صحابہ کرام کے دور میں دل کی پاکیزگی کو صرف مردوں کے ساتھ مختص نہیں کیا جاتا تھا۔ بلکہ اس دور کی عورتیں بھی اس اخلاق کو اپناتی تھیں۔ جب سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے متعلق تاریخ کا سب سے بڑا جھوٹ پھیلایا گیا تو سیدہ خود فرماتی ہیں: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے متعلق زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھتے تھے۔ سوتن ہونے کی وجہ سے میری ان کے ساتھ لگتی تھی۔ آپ نے ان سے پوچھا: زینب! تجھے کیا معلوم ہے؟ یا تم نے کیا دیکھا؟ یعنی سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اپنے کان اور آنکھ کی حفاظت کرتی ہوں۔ مجھے اس کے متعلق اچھائی ہی معلوم ہے۔ اسے امام بخاری نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں روایت کیا ہے۔
اے مسلمان معاشرے کے لوگو!
ہمارے بزرگ اور سلف صالحین اپنے دل کو صاف رکھنے اور سینے کو پاک رکھنے کا بڑا اہتمام کرتے تھے۔
امام احمد علیہ رحمۃ اللہ کے متعلق آتا ہے کہ ایک رات ان کے پاس الحسن بن عبد اللہ خُرَقِی رہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ امام صاحب صبح تک روتے رہے۔ صبح میں نے ان سے کہا: رات آپ بہت زیادہ روتے رہے۔ اس کی کیا وجہ تھی؟ امام صاحب نے فرمایا: مجھے یاد آیا کہ معتصم نے مجھے بہت مارا پیٹا تھا۔ پھر قرآن پڑھتے پڑھتے میرے سامنے سے یہ آیت گزری کہ:
’’برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے، پھر جو کوئی معاف کر دے اور اصلاح کرے اُس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے‘‘
(الشوریٰ: 40)
یہ آیت پڑھ کر میں نے سجدہ کیا اور معتصم کو معاف کر دیا۔
امام صاحب فرمایا کرتے تھے: معاف کر دینا زیادہ بہتر ہے۔ اگر آپ کا بھائی آپ کی وجہ سے عذاب میں رہے تو اس سے آپ کو کیا فائدہ ہوگا؟ اسے معاف کر دو اور درگزر کر جاؤ تاکہ اللہ بھی آپ کو معاف کردے جیسا کہ اس نے آپ سے وعدہ کیا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرف اشارہ کرتے تھے:
’’انہیں معاف کر دینا چاہیے اور درگزر کرنا چاہیے کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کرے؟ اور اللہ کی صفت یہ ہے کہ وہ غفور اور رحیم ہے‘‘
(النور: 22)
اسلامی شریعت میں دل کے صاف ہونے، سینے کے پاکیزہ ہونے اور صفوں کے درست ہونے پر بڑا زور دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے صفیں درست کرنے کی تاکید فرماتے۔ ایک مرتبہ فرمایا:
اللہ کے بندو! صفیں درست کرلو، ورنہ اللہ تعالیٰ آپ کے دلوں کو پھیر دے گا۔
امام نووی علیہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں: یعنی: اگر صفیں درست نہ کرو گے تو تمہارے درمیان بغض، عداوت اور دشمنی پیدا ہوجائے گی۔
اے امت اسلام!
پاکیزہ دلوں کے مالک اپنے پاکیزہ دلوں کی وجہ سے اُس مقام اور مرتبے تک پہنچ جاتے ہیں کہ جس تک روزہ دار اور تہجد گذار اپنے روزوں اور نمازوں سے بھی نہیں پہنچ پاتے۔
امام احمد نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب ایک جنتی اندر آئے گا۔ پھر ایک شخص داخل ہوا جس کی داڑھی سے وضو کا پانی ٹپک رہا تھا۔ اگلے دن پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ہی فرمایا اور وہی شخص دوبارہ داخل ہوا۔ تیسرے دن پھر ایسا ہی ہوا۔
پر سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس شخص کے ساتھ گھر چلے گئے، مگر انہوں نے اسے بہت زیادہ نماز پڑھنے والا آیا بہت روزے رکھنے والا نہ پایا۔ آخر انھوں نے اس سے پوچھ ہی لیا تو اس نے کہا: میری عبادت تو اتنی ہی ہے جتنی آپ نے دیکھ لی ہے، مگر میں کسی مسلمان کے بارے میں اپنے دل میں کوئی بغض نہیں رکھتا اور نہ کسی نعمت کی وجہ سے اس سے حسد ہی کرتا ہوں۔ اس پر سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا: یہی چیز تجھے جنت لے گئی اور ہم اسے برداشت نہ کر پائے۔
چونکہ دل کی کدورتیں، کینہ اور حسد بدبختی کا سبب بنتے ہیں، اس لیے اللہ تعالی نے اہل جنت کو ان برائیوں سے پاکیزہ فرما دیا ہے۔ اگر انسان کو دنیا میں بھی دل کی پاکی نصیب ہو جائے تو اسے جان لینا چاہیے کہ اسے جنت کی ایک نعمت دنیا ہی میں مل گئی ہے۔ فرمان الٰہی ہے:
’’اُن کے دلوں میں جو تھوڑی بہت کھوٹ کپٹ ہوگی اسے ہم نکال دیں گے، وہ آپس میں بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے تختوں پر بیٹھیں گے‘‘
(الحجر 47)
صحیح بخاری کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ پہلا گروہ جو جنت میں جائے گا وہ چودھویں کے چاند جیسا خوبصورت ہوگا، اس کے بعد والا گروہ آسمان کے روشن ترین اور خوبصورت ترین ستاروں جیسا ہوگا۔ ان سب کے دل بالکل صاف ہوں گے۔ بغض اور حسد سے مکمل طور پر پاک ہوں گے۔
اللہ کے بندو! ہمیں دل پاکیزہ کرنے اور سینوں کو سلامت رکھنے کی کتنی شدید ضرورت ہے۔ غم اور پریشانیوں سے نجات کا سب سے بڑا ذریعہ یہ ہے کہ انسان اپنے دل کو صاف رکھے۔ جب کسی کی کوئی برائی دیکھے تو اس سے صرف نظر کر لے۔
عثمان بن زائدہ علیہ رحمۃ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام احمد علیہ رحمۃ اللہ سے کہا: عافیت کے دس حصے ہیں، جن میں سے نو حصے لوگوں کی کمزوریوں سے صرف نظر پر مشتمل ہیں۔ اس پر امام احمد نے فرمایا: بلکہ عافیت کے دس حصے ہیں اور دس کے دس حصے دوسروں کی کمزوریوں سے صرف نظر پر مشتمل ہیں۔
دل کی پاکیزگی نیکی کا ایک بڑا حصہ ہے۔ مسلمان کو زیب دیتا ہے کہ وہ اس معاملے کو خاص توجہ دے۔ خاص طور پر ان دنوں میں کہ جب ہم رمضان المبارک کے دروازوں پر ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ روزہ دلوں کی کدورتیں دور کرتا ہے۔ اس کی بدولت نفس عفو ودرگزر اور معافی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔
ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صبر کے مہینے، یعنی رمضان کے مہینے کے روزے اور ہر ماہ کے تین دنون کے روزے پورے سال کے روزوں کے برابر ہیں۔ ان سے دلوں کی کدورتیں دور ہوتی ہیں۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا: دل کی کدورتیں کیا ہوتی ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شیطان کی گندگی۔
مسند امام احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین چیزوں میں کسی مؤمن کا دل خیانت نہیں کرتا۔ ایک ہر کام کو اللہ تعالیٰ کے لیے مکمل اخلاص کے ساتھ کرنا، دوسری حکمرانوں کی اطاعت کرنا اور تیسری مسلمان جماعت سے ملے رہنا، کیونکہ انہی کی دعا اسے بچائے رکھتی ہے۔
دل کو صاف رکھنے میں یہ بھی شامل ہے کہ کتاب اللہ کی طرف توجہ کی جائے۔ اس کی تلاوت کی جائے۔ اسے یاد کیا جائے۔ اس کی تفسیر سیکھی جائے اور اس پر غور وفکر کیا جائے۔ انسان جتنا اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو گا اتنا ہی اس کا دل پاکیزہ اور صاف اور کا سینہ پاک رہے گا۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آ گئی ہے یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے اور جو اسے قبول کر لیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے‘‘
(یونس: 57)
’’اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا‘‘
(البقرۃ: 201)
’’پاک ہے تیرا رب، عزت کا مالک، اُن تمام باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں۔ اور سلام ہے مرسلین پر۔ اور ساری تعریف اللہ ربّ العالمین ہی کے لیے ہے‘‘
(الصافات: 180-182)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں