خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)
امام و خطیب: ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی
ترجمہ: شفقت الرحمان مغل
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ نے مسجد نبوی میں 18-شعبان- 1439 کا خطبہ جمعہ " سورت الماعون،،، عقیدہ اور اخلاق" کے عنوان پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے فرمایا: قرآن کریم سے ہر شخص کو زندگی کے ہر گوشے کے لیے رہنمائی مل سکتی ہے، یہاں سے ہر کوئی اپنے دکھوں کا مداوا لے کر جاتا ہے، قرآن کریم کے انہی جواہر پاروں میں سورت الماعون منفرد حیثیت رکھتی ہے، اس سورت کی ابتدا میں عقائد اور اخلاقیات کے مضبوط تعلق کو واضح کیا گیا کہ جزا سزا کا منکر بد عمل ہوتا ہے اور بد عملی بد اعتقادی کی علامت ہے۔ بد عملی کی وجہ سے پیدا ہونے والی سنگ دلی کا نبوی علاج یتیموں اور مساکین سے اچھے برتاؤ میں پنہاں ہے۔ تیسری آیت میں رفاہ عامہ کے کاموں کی محض خود کو ترغیب نہیں بلکہ دوسروں کو بھی ترغیب دلانے کا اشارہ ہے اس لیے تمام لوگ اپنے معاشرے کے کمزور لوگوں کو خود کفیل بنانے میں کردار ادا کریں۔ چوتھی اور پانچویں آیت میں ایسے نماز پڑھنے والوں کی سرزنش ہے جو نماز کی روح سے آشنا نہیں؛ ان لوگوں کی نماز کا ان کی زندگی پر کوئی اثر نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ غریبوں کا خیال نہ رکھنے والے عام طور پر بے نمازی ہوتے ہیں، انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ نماز، روزہ، زکاۃ اور حج ہر ایک عبادت کے اخلاقی اور معاشرتی اثرات بھی ہیں بلکہ یہ اثرات ان عبادات کے اہداف میں شامل ہیں ، پھر چھٹی آیت میں ریاکاروں کے متعلق بتلایا کہ ان کی عبادات ریاکاری کی وجہ سے گناہ میں تبدیل ہو جاتی ہیں انہیں اس کی سزا ملے گی، اور کامیابی کی بڑی کنجی یہ ہے کہ انسان ریاکاری سے بچ کر ہر عبادت صرف اللہ کے لیے خالص کرے، ساتویں آیت میں یہ بتلایا گیا کہ روزمرہ استعمال کی چیزیں ایک دوسرے کو دینے سے روکنا اچھی بات نہیں، جو روکتے ہیں وہ فرائض میں لازمی طور پر کوتاہی کا شکار ہوتے ہیں، پھر سب سے آخر میں انہوں نے جامع دعا کروائی۔
منتخب اقتباس:
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، وہی تکالیف کو دور کرنے والا ہے، میں اسی کی حمد و ثنا بیان کرتا ہوں اور شکر بجا لاتا ہوں کہ وہی نعمتیں بہانے والا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے، اللہ تعالی نے لوگوں کو ایسا دین دیا جو انہیں اعلی اخلاقی اقدار پر استوار کرتا ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، آپ نے پوری امت کو انتہائی اعلی صفات کی جانب گامزن فرمایا۔ اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، اور ہر جگہ پیش رو بننے والے صحابہ کرام پر رحمتیں ، سلامتی اور برکتیں نازل فرمائے۔
اللہ تعالی نے اپنی معزز کتاب انسانیت کی رہنمائی کے لیے نازل فرمائی، اس کتاب کی سورتیں نور اور آیات واضح تعلیمات ہیں، یہ ایسا چشمہ ہدایت ہے جس میں کمی نہیں آتی، یہ ایسا دریا ہے جو کبھی خشک یا گدلا نہیں ہو گا، ہر انسان قرآن مجید میں اپنا مطلوب پا لیتا ہے اسی لیے پریشان شخص قرآن کریم پر توجہ کر کے پریشانی کا حل تلاش کر لیتا ہے، اور دکھوں سے چور انسان اپنا مداوا ڈھونڈ لیتا ہے۔
قرآن کریم کے جواہر پاروں اور قیمتی موتیوں میں سورت الماعون بھی شامل ہے:
{أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ (1) فَذَلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ (2) وَلَا يَحُضُّ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِ (3) فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ (4) الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ (5) الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ (6) وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ}
کیا آپ نے اسے دیکھا ہے جو دین کو جھٹلاتا ہے؟ [1] وہی ہے جو یتیم کو دھکے مارتا ہے [2] مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا [3] پس تباہی ہے ایسے نماز پڑھنے والوں کے لیے [4] جو اپنی نمازوں سے غافل رہتے ہیں [5]جو ریاکاری کرتے ہیں [6] اور عام برتنے کی چیزیں دینے سے گریز کرتے ہیں۔[الماعون: 1 - 7]
یہ سورت اپنی ساخت کے اعتبار سے انتہائی عظیم سورت ہے، اس سورت نے نظریات اور اخلاقیات کے مابین مضبوط تعلق واضح کیا ہے کہ:
جو دین کو جھٹلائے وہی اللہ تعالی سے ملنے والے ثواب ، عذاب اور حساب کتاب کو جھٹلاتا ہے، اس کے دل میں آخرت پر ایمان نہیں ہوتا ، اور یہی نظریاتی خرابی کارکردگی پر اثر انداز ہوتی ہے، اور بد کرداری بد اعتقادی کی علامت ہے۔
یہ کیوں کہا کہ وہ دین کو جھٹلاتا ہے؟ اس لیے کہ وہ اپنی زندگی میں کبھی بھی دین کے تقاضوں کی بنیاد پر حرکت میں نہیں آیا! گویا کہ اس نے زبان سے اقرار تو کر لیا، دل سے تصدیق بھی کر دی لیکن پھر بھی اس نے اپنے آپ اور اپنے رویے کو دینی مفاہیم، اقدار اور اخلاقیات پر استوار کرنے کی کوشش نہیں کی، ایمانی کام کرنے کی کاوش نہیں کی اور قرآن کے منہج پر نہیں چلا، حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ایمان زبان سے اقرار، دل سے تصدیق اور بدن سے عمل کرنے کا نام ہے۔
جس شخص کا حساب اور جزا سزا کے بارے میں ایمان کمزور ہو وہی دین کو جھٹلاتا ہے، اس کا دل سخت اور خشک ہے، وہی یتیم کو دھکے دیتا ہے، اسے ذلیل اور رسوا کرتا ہے، وہ اپنے کمزور ایمان کی وجہ سے یہ نہیں کر سکتا کہ یتیم کی زندگی کو بہتر بنا دے، اور بد کرداری سے بچ جائے۔
ایسی دین داری کا کیا فائدہ جس کے اثرات کردار اور رویّے پر رونما نہ ہوں؟ ایسے ایمان کا کیا معنی جس کے باعث دل میں دوسروں کا احساس ہی پیدا نہ ہو کہ ان کے کام آ جائے، ان کا بھلا کرے، مساکین کو کھانا کھلا دے، یا دوسروں کو کھانا کھلانے کی ترغیب ہی دے دے، لہذا اگر مال اللہ تعالی کی تعلیمات کے سامنے ہیچ ہو تو یہ ایمان کی علامت ہے۔
سنگ دلی بھی بسا اوقات انسان کو غفلت میں ڈال کر دین کو مسترد کرنے تک پہنچا دیتی ہے، اس کا علاج خیر البریہ اور انسانیت کے لیے بھیجنے جانے والے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں ہے کہ: "ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر سنگ دلی کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے علاج تجویز کرتے ہوئے فرمایا:"(یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرو اور مساکین کو کھانا کھلاؤ) اس روایت کو البانی نے صحیح ترغیب و ترہیب میں روایت کیا ہے۔
اور اللہ تعالی کے فرمان:
{وَلَا يَحُضُّ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِ}
وہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا [الماعون: 3]
کی رو سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان سے یہ بھی مطلوب ہے کہ وہ رفاہی کاموں پر دیگر مسلمان بھائیوں کو ابھاریں، چنانچہ صرف اتنا کافی نہیں ہو گا کہ وہ خود رفاہی کام کرے لیکن دوسروں کو کمزوروں، یتیموں، مساکین اور غریبوں کی مدد پر ترغیب نہ دلائے، یہ بھی خیال رہے کہ ان کی مدد کرتے ہوئے ان کی عزت پر حرف بھی نہ آئے، اور ان کی دل آزاری نہ ہو۔ فرمانِ باری تعالی ہے:
{قَوْلٌ مَعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَةٍ يَتْبَعُهَا أَذًى}
اچھی بات کہنا اور معاف کر دینا بہتر ہے ایسی امداد سے جس کے بعد ایذا رسانی ہو۔[البقرة: 263]
پھر اللہ تعالی نے فرمایا:
{فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ}
پس تباہی ہے ایسے نماز پڑھنے والوں کے لیے [الماعون: 4]
اس آیت میں ان کی یہ بھی ایک علامت بیان کی گئی ہے کہ وہ ظاہری طور پر نماز تو پڑھتے ہیں، لیکن نماز کی روح اور حقیقت سے وہ آشنا نہیں ہوتے، یا نماز کے ارکان پورے نہیں کرتے، چنانچہ ایک بار " ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور اس نے نماز پڑھی، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے کونے میں تشریف فرما تھے، تو وہ نماز سے فراغت کے بعد آیا اور آپ کو سلام عرض کیا، اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جاؤ جا کر دوبارہ نماز پڑھو، تم نے نماز پڑھی ہی نہیں) " بخاری
جب عبادت کی حقیقت اور روح مفقود ہو تو وہ محض بدن کی حرکت ہی رہ جاتی ہے پھر وہ ایمان مضبوط نہیں بناتی، نہ ہی رویّے میں کوئی مثبت تبدیلی لاتی ہے، ایسی عبادت کا زندگی پر اثر ناپید ہوتا ہے؛ حالانکہ کتاب و سنت کی نصوص نے عبادات کو شریعت میں شامل کرنے کی وجوہات واضح لفظوں میں بیان کیں ہیں، ان نصوص نے یہ تک بتلایا ہے کہ عبادات کا مقصد کیا ہے، ان کا انسانوں کی زندگی پر اثر کیا ہو گا، بلکہ ان عبادات کو تربیت گاہ قرار دیا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ}
اور نماز قائم کریں، بیشک نماز بے حیائی اور برائی کے کاموں سے روکتی ہے۔[العنكبوت: 45]
نماز دینی شعائر میں سب سے آخر میں ناپید ہو گی، لہذا جب نماز ضائع ہو گئی تو سارا دین ناپید ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اسلام کی کڑیاں ایک ایک کر کے ٹوٹتی چلی جائیں گی، جب ایک کڑی ٹوٹ گئی تو لوگ اگلی کو مضبوطی سے تھام لیں گے، تو سب سے پہلے نظام قضا کی کڑی ٹوٹے گی اور سب سے آخر میں نماز کی) یہ حدیث صحیح ہے اس کا ایک شاہد بھی ہے، اسے البانی نے صحیح الجامع اور صحیح ترغیب میں روایت کیا ہے۔
اور اگر انسان کو عبادت بھول جانے کی آفت سے نجات مل جائے تو اپنے دل کا علاج کرنے کے لیے سورت الماعون کی یہ آیت لازمی یاد رکھے:
{الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ}
جو ریاکاری کرتے ہیں [الماعون: 6]
یعنی وہ اپنی نمازوں اور دیگر عبادات میں ریاکاری کرتے ہیں، اس کے لیے بناوٹی انداز اپناتے ہیں، عبادت رضائے الہی کے لیے نہیں کرتے بلکہ لوگوں کو خوش کرنے کےلیے کرتے ہیں، حالانکہ ریاکاری دل سے تعلق رکھنے والے کبیرہ ترین گناہوں میں سے ہے، تو اس سے عمل ضائع ہو جاتا ہے اور اللہ کے ہاں قبول نہیں کیا جاتا۔
آیت سے یہ بھی ہم سمجھ سکتے ہیں کہ جس شخص کی نیت میں ریا کاری شامل ہو تو اس کی نیکی بھی گناہ میں بدل جاتی ہے اور ایسے شخص کو اس کی سزا بھی بھگتنی ہو گی۔
اور ایسا ہی حال اخلاص سے عاری دل کا ہوتا ہے، اس کی کسی بات میں کوئی وزن نہیں ہوتا، عبادت اس کے طرزِ زندگی پر کچھ اثر نہیں کرتی، اس کا عمل قبول نہیں ہوتا، اور نہ ہی اس کا نفس پاک ہوتا ہے۔
کامیابی کی سب سے بڑی کنجی یہ ہے کہ: انسان کو ریاکاری کی چاہت جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی توفیق مل جائے، اپنا سب کچھ اللہ کے سپرد کر دے، اپنے اعمال اسی کے لیے خالص کر لے، اپنی نیت اسی کے لیے خاص کرنے کی غرض سے دل کو کسی بھی دنیاوی فائدے، شہوت، منصب، مال، شہرت، لوگوں کے ہاں مقام و مرتبے، شائقین کی جانب سے مدح سرائی پانے یا ان کی مذمت سے بچنے کا ارادہ یکسر نکال دے، اللہ تعالی کا حدیث قدسی میں فرمان ہے کہ: (میں تمام شریکوں سے بڑھ کر بے نیاز ہوں، جس شخص نے بھی کوئی عمل کیا اور اس نے میرے ساتھ کسی اور کو بھی شریک کیا تو میں اسے اور اس کے شریک کو چھوڑ [کر اس کے عمل سے الگ ہو جاتا ہوں]) مسلم
اس سورت کی آخری آیات معاشرتی اخلاقیات کی اہمیت واضح کر کے انہیں ٹھوس بنانے پر زور دیتی ہیں، اور دوسروں کی امداد کرنے میں بخل سے کام لینے پر خبردار کرتی ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ}
اور وہ عام برتنے کی چیزیں دینے سے گریز کرتے ہیں۔ [الماعون: 7]
یعنی کسی کو عاریتاً چیز بھی نہیں دیتے، اس سے مراد ایسی اشیا ہیں جو عام طور پر لوگ ایک دوسرے کو عاریتاً دے دیتے ہیں انکار نہیں کرتے۔
تو ان لوگوں نے نہ تو اپنے پروردگار کی عبادت اچھے طریقے سے کی اور نہ ہی مخلوق کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھا کہ ایسی چیزیں ہی انہیں عاریتاً دے دیں جائیں جو عام روزمرہ زندگی میں کام آتی ہیں اور استعمال کے بعد واپس کر دی جاتی ہیں، تو یہ لوگ زکاۃ جیسی دیگر امدادی نیکیوں سے تو بالاولی دور ہوتے ہیں۔
یا اللہ! ہم تجھ سے جنت اور اس کے قریب کرنے والے ہر کام کی توفیق مانگتے ہیں ۔ یا اللہ! ہم جہنم اور جہنم کے قریب کرنے والے ہر عمل سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔
یا اللہ! ہم تجھ سے معلوم یا نامعلوم ہمہ قسم کی بھلائی مانگتے ہیں چاہے کوئی جلدی ملنے والی یا دیر سے، یا اللہ ! ہم تجھ سے معلوم یا نامعلوم ہمہ قسم کی برائی سے پناہ مانگتے ہیں چاہے چاہتے وہ جلد آنے والی ہے یا دیر سے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں