اللہ تعالی کا اسم مبارک الصمد - خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) ۔۔۔ 11 مئی 2018


 خطبہ جمعہ مسجد نبوی
عنوان: اللہ تعالی کا اسم مبارک "الصمد"
امام و خطیب: ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد العزیز آل شیخ 
تاریخ: 25 شعبان  1439  بمطابق 11 مئی 2018
ترجمہ: شفقت الرحمان مغل

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد العزیز آل شیخ حفظہ اللہ نے 25 شعبان  1439 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان "اللہ تعالی کا مبارک اسم "اَلصَّمَدُ"" ارشاد فرمایا ، جس میں انہوں نے کہا کہ  اللہ تعالی کے اسمائے حسنی اور اعلی صفات  پر ایمان عقیدہ توحید کا لازمی جزو ہیں، ان کی معرفت اور ان کے مطابق عبادت انتہائی اعلی عمل ہے، اس لیے مومن ان اسما و صفات پر  کسی قسم کی معنوی تحریف کے بغیر ایمان لاتا ہے ، ان کے متعلق تشبیہ، تعطیل، تمثیل، اور تکییف کا شکار نہیں ہوتا، انہیں مجاز کی بجائے حقیقت پر محمول کرتا ہے ،  اسمائے حسنی کے بارے میں معرفت در حقیقت اللہ تعالی کی کامل ترین بندگی کے لیے نہایت ضروری ہیں، اسی لیے مومن اپنی دعاؤں میں معنوی مناسبت کے ساتھ انہیں ذکر بھی کرتا ہے، انہی ناموں میں سے ایک اَلصَّمَدُ بھی ہے، اس کے بارے میں ایک حدیث میں اشارہ ہے کہ یہ اسم اعظم ہے، اس اسم مبارک کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی بے نیاز ذات ہے، اور وہ مرجع خلائق بھی ہے، تمام مخلوقات اپنی ہر قسم کی ضروریات اور حاجات اسی سے مانگتی ہیں، چنانچہ ہمیں بھی اپنی ہر قسم کی ضرورت انفرادی اور اجتماعی حیثیت کے ساتھ اللہ تعالی سے ہی مانگنی چاہیے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ : مسلمانوں اور امت اسلامیہ کو پریشان ہونا ہی نہیں چاہیے؛ کیونکہ ان کا پروردگار اَلصَّمَدُ   ہے، اور وہ ہر قسم کے دکھ درد دھو ڈالنے پر قادر ہے، ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم اس کی بارگاہ میں اپنے دُکھڑے  رکھیں اسی کے سامنے آب دیدہ ہو کر فریاد کریں۔  آخر میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ: جب کوئی مسلمان اسمائے حسنی کا معنی اور مفہوم اپنے قلب و ذہن میں نقش کر لے تو اس کی ساری زندگی اور تمام حرکات و سکنات اللہ تعالی کے لیے خالص ہو جاتی ہیں، آخر میں انہوں نے سب کے لیے جامع دعا کروائی۔

منتخب اقتباس: 

تمام تعریفیں بلند و بالا اللہ تعالی کے لیے ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، دنیا اور آخرت میں اس کا کوئی شریک نہیں وہی اعلی اور بلند و بالا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور اس کے چنیدہ رسول ہیں، یا اللہ! ان پر، ان کی آل، اور تمام اہل علم اور متقی صحابہ کرام پر رحمتیں، سلامتی، اور برکتیں نازل فرما۔

اللہ! ان پر، ان کی آل، اور تمام اہل علم اور متقی صحابہ کرام پر رحمتیں، سلامتی، اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

مسلمانو! میں تمام سامعین اور اپنے آپ کو تقوی الہی اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں
 {وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا (2) وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ}
 اور تقوی الہی اپنانے والے کے لیے اللہ تعالی راستے بنا دیتا ہے [2] اور اسے وہاں سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا، اور جو اللہ تعالی پر بھروسا کر لے تو اللہ تعالی اس کے لیے کافی ہے۔[الطلاق: 2، 3]

امت اسلامیہ!

اللہ تعالی کے اسمائے حسنی اور اعلی صفات پر ایمان عقیدہ توحید کا حصہ ہے۔ ان اسما و صفات پر ایمان اللہ تعالی پر ایمان کا تقاضا ہے۔ انہیں سیکھنا، ان کی معرفت حاصل کرنا اور ان کے ذریعے اللہ کی عبادت کرنا عظیم اور اعلی ترین عمل ہے۔

اسی لیے مومن اللہ تعالی کے لیے وہ سب اسمائے حسنی اور صفات کو ثابت مانتا ہے جس کی اللہ تعالی نے اپنے متعلق اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کے بارے میں خبر دی ہے۔

ہر مومن ان پر مکمل ایمان رکھتا ہے، وہ ان صفات کو مخلوق کی صفات سے تشبیہ نہیں دیتا نہ ہی مشبہہ کی طرح ان کی کیفیت بیان کرتا ہے، مومن اسما و صفات سے متعلق معنوی تحریف کا بھی شکار نہیں ہوتا، اسی طرح مومن شخص اللہ تعالی کو ہر قسم کے نقائص اور عیوب سے بالکل مبرا اور پاک سمجھتے ہوئے تعطیل کا شکار بھی نہیں ہوتا، بلکہ مومن ہر اس چیز کی اللہ تعالی سے نفی کرتا ہے جس کی اللہ تعالی نے اپنے آپ سے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفی کی ہے نیز اہل ایمان اس نفی میں اللہ کے لیے صفات کمال ثابت سمجھتے ہیں اور اسی طرح مجمل طور نفی شدہ صفات کا متضاد بھی ثابت مانتے ہیں، چنانچہ فرمانِ باری تعالی: 
{لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ}
 اس سے کوئی ذرہ بھر چیز بھی چھپی نہیں رہ سکتی۔ [سبأ: 3] 
اس آیت میں اللہ تعالی کے لیے مبنی بر کمال علم ثابت کرتے ہیں ۔ 
اسی طرح فرمانِ باری تعالی:
 {وَمَا مَسَّنَا مِنْ لُغُوبٍ}
 اور ہمیں کسی قسم کی تھکاوٹ نے نہیں چھوا۔ [ق: 38] 
اس آیت سے کمال درجے کی قدرت اللہ تعالی کے لیے ثابت مانتے ہیں۔

اہل ایمان اسما و صفات پر اسی طرح ایمان لاتے ہیں جیسے نصوص شریعت میں ان کا ذکر ہوا ہے، اس میں کسی قسم کی تحریف نہیں کرتے اور نہ ہی ان کی کیفیت بیان کرتے ہیں۔ اللہ تعالی اپنی صفات، اسما اور افعال میں کمال مطلق کا مالک ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ}
 اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔ [الشورى: 11]

اللہ تعالی کے اسمائے حسنی اور اعلی صفات در حقیقت اللہ تعالی کی کامل ترین بندگی کے لیے اساسی حیثیت رکھتے ہیں، انہی کی بدولت اللہ تعالی کی پاکیزگی، اور حمد و ثنا کامل ترین انداز میں بیان ہو سکتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا }
 اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کے لیے ہیں سو ان ناموں کے واسطے سے اس کو پکارو [الأعراف: 180]
 تو اس آیت میں دعا بطور عبادت، اور دعا بطور حاجت روائی دونوں ہی شامل ہیں، یعنی کہ انسان اپنی ضرورت کی ہر چیز اللہ تعالی سے مانگے اور اپنی حاجت کی مناسبت سے اللہ تعالی کے اسما و صفات کا ذکر کرے، مثلاً: دعا کرنے والا کہے: یا اللہ! مجھے معاف کر دے، مجھ پر رحم فرما، بیشک توں ہی غفور و رحیم ہے۔ اسی طرح میری توبہ قبول فرما، بیشک توں ہی تَوّاب ہے، اسی طرح : یا رزاق! مجھے رزق عطا فرما، یا لطیف! مجھ پر اپنا لطف فرما؛ اسی طرح دیگر دعائیں مانگے۔

تو اسی طرح اللہ تعالی کے ناموں میں : "اَلصَّمَدُ"  [یعنی بے نیاز اور  مرجع خلائق] بھی شامل ہے، [اس کی دلیل سورت اخلاص ہے]:
 {قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ (1) اللَّهُ الصَّمَدُ (2) لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ (3) وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ}
 آپ کہہ دیں: اللہ ایک ہی ہے [1] اللہ بے نیاز ہے۔ [2] نہ اس نے کسی کو جنم دیا اور نہ ہی اسے کسی نے جنم دیا [3] اور اس کا کوئی بھی ہم سر نہیں ۔[الإخلاص: 1 - 4]

اے مسلم!

اگر آپ مسائل میں گھر جائیں، پریشانیاں آپ پر ٹوٹ پڑیں، دکھ تمہارے ارد گرد ڈیرے ڈال لیں تو پھر یکتا اور بے نیاز ذات کے سامنے گڑگڑائیں، تنگی اور فراخی میں مومن کا وہی مقصود ہوتا ہے، مصیبتوں اور ضرورت کے وقت اسی کو پکارا جاتا ہے، آفات میں اسی سے مدد مانگی جاتی ہے، ناگہانی صورت میں اسی سے پناہ ملتی ہے۔

ہمیں کس قدر ضرورت ہے کہ ہم اللہ تعالی کو خوشحالی اور ترشی ہر حالت میں اسی کو پکاریں، تنگی اور فراخی میں اسی سے امید لگائیں، ہم اسی کے سامنے آب دیدہ ہوں خصوصاً موجودہ حالات میں کہ امت اس وقت ہر طرف سے مسائل میں گھری ہوئی ہے، تبھی ہم بھی دنیا اور آخرت میں بلند مقاصد پا کر خوش و خرم ہوں گے۔

ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر اس بات کی کتنی ضرورت ہے کہ ہم اپنے دلوں کو غیر اللہ سے پاک کر لیں اور صرف اسی سے امید لگائیں، اللہ تعالی کی اسما و صفات کے واسطے سے اسی کو پکاریں، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{هُوَ الْحَيُّ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَالْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ}
 وہ زندہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں پس تم خالص اسی کی عبادت کرتے ہوئے اسے پکارو، اور تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کیلیے ہیں۔ [غافر: 65]

اللہ تعالی ہی وہ یکتا بے نیاز ذات ہے جس کی بارگاہ میں ضروریات اور مسائل رکھے جاتے ہیں، ساری مخلوقات اپنی تمام کی تمام حاجتیں اسی سے مانگتی ہیں، ہر حالت اور ہر ضرورت اسی کے سامنے رکھتی ہیں؛ کیونکہ اللہ تعالی ہی اپنی ذات، اسماء و صفات اور افعال میں ہمہ قسم کا کمال رکھتا ہے۔

کوئی مسلمان کس طرح پریشان ہو سکتا ہے! امت اسلامیہ کس طرح پریشان ہو سکتی ہے! حالانکہ ہمارا پروردگار یکتا اور مرجع خلائق ہے، وہی ہر قسم کے کمال سے متصف ہے، وہ ایسا عالی شان ہے کہ اس کی شاہی کمال درجے کی ہے، وہی معزز ترین ذات ہے اس کی عزت بھی کمال درجے کی ہے، وہ اتنا غنی ہے کہ اس کی تونگری بھی کمال درجے کی ہے، وہ ایسا جبار ہے کہ اس کی ہیبت کمال درجے کی ہے، وہ ایسا علم رکھنے والا ہے کہ اس کا علم کامل ترین ہے، وہ ایسا حکیم ہے کہ اس میں عزت، شاہی، کرم اور سخاوت سمیت عظمت و کبریائی کی تمام صفات بدرجہ اتم موجود ہیں، اس میں بزرگی، جلال، غلبہ، قہر، قوت، جبروت، رحمت اور احسان کی تمام صفات موجود ہیں۔

اس لیے اللہ کے بندو! اے امت اسلامیہ! اسی کی جانب دلی رغبت پیدا کرو، عبادت اسی کے لیے خالص کرو، توکل، امید، خوف، محبت، انابت، دل گدازی، خشیت، عاجزی انکساری سب کچھ اسی کے لیے کرو۔ تبھی ہمیں غلبہ بھی ملے گا، شان و شوکت بھی ہماری زیادہ ہو گی، اور ہماری ہر آرزو اور تمنا پوری ہو گی۔

اللہ سبحانہ و تعالی اپنے بندوں کے ساتھ انتہائی لطیف معاملہ کرنے والا ہے، وہ تمام رازوں اور پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے، وہ نیتوں اور دل کے بھیدوں کو بھی جانتا ہے:
 { إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ}
 بیشک اللہ نہایت باریک بین، ہر چیز سے باخبر ہے۔ [الحج: 63]
 اسی طرح فرمایا: 
{إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِمَا يَشَاءُ}
 بیشک میرا رب جو چاہے اس کی لطیف تدبیر کرنے والا ہے۔ [يوسف: 100] 

تو اللہ تعالی وہ ذات ہے جب وہ کسی چیز کا ارادہ فرما لے تو اس کے اسباب کامل لطافت اور راز داری کے ساتھ پورے فرما دیتا ہے، حتی کہ اللہ تعالی ایسے امور کو بھی حقیقت بنا دیتا ہے جو عام طور پر ناممکن ہوتے ہیں۔

تکلیف کوئی بھی ہو اللہ تعالی اسے ختم کرنے پر قادر ہے، مرض کوئی بھی ہو اللہ تعالی اس سے شفا دینے والا ہے، کوئی بھی آفت ہو اللہ تعالی اسے وا کرنے والا ہے؛ کیونکہ وہی مکمل قدرت رکھنے والا ہے، اس کے ارادے نافذ ہو کر رہتے ہیں، وہی دکھ درد کو ختم فرما تا ہے: 
{أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ}
 بھلا کون ہے جو لاچار کی فریاد رسی کرتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کر دیتا ہے اور (کون ہے جو) تمہیں زمین کے جانشین بناتا ہے ؟ [النمل: 62] 
اسی طرح فرمایا:
 {قُلِ اللَّهُ يُنَجِّيكُمْ مِنْهَا وَمِنْ كُلِّ كَرْبٍ}
 اللہ ہی تمہیں مصیبت سے اور ہر سختی سے نجات دیتا ہے ۔ [الأنعام: 64]

اس لیے مسلمان! اپنے پروردگار کی پناہ میں آ جاؤ، پروردگار کے قرب میں تمہیں مانوسیت، خوشی، بہتری، پاکیزگی، کامیابی، کامرانی، سکون اور استحکام سب کچھ ملے گا، 
{إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ}
 بیشک اللہ تعالی ان لوگوں کے ساتھ ہے جو متقی ہیں، اور جو اعلی کارکردگی دکھاتے ہیں۔ [النحل: 128]

اہل سنن نے عبد اللہ بن بریدہ سے کہ وہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ : "وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں داخل ہوئے تو ایک آدمی دعا کرتے ہوئے کہہ رہا تھا:

 " اَللَّهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ بِأَنَّنِيْ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِيْ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُوْلَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ" 

 ( تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس نے اللہ تعالی کے اسم اعظم کا واسطہ دے کر اللہ سے مانگا کہ جس کا واسطہ دے کر مانگا جائے تو اللہ تعالی عطا کرتا ہے اور جب پکارا جائے تو جواب دیتا ہے۔)" اس حدیث کو متعدد اہل علم نے صحیح قرار دیا ہے، نیز ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: سند کے اعتبار سے اسم اعظم کے متعلق سب سے اعلی ترین حدیث یہی ہے۔

ہر مسلمان کے لیے اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ اس کا دل اللہ تعالی کے اسمائے حسنی کے معنی اور مفہوم سے معمور ہو، اللہ تعالی کی صفاتِ جلال و کمال سے بہرہ ور ہو، تو اس وقت ایمان اور یقین کی دولت اس کے لیے بار آور ثابت ہو گی، تب آپ دیکھیں گے کہ وہ اپنی ضروریات صرف اللہ تعالی کے سامنے رکھے گا، اپنے دل میں کوئی بھی نیکی کرنے کی قوت اور برائی سے بچنے کی ہمت صرف اللہ سے ہی مانگے گا، یعنی اس کا دل اللہ تعالی کے ساتھ منسلک ہو گا، وہ اللہ تعالی کی معرفت اور محبت سے سرشار ہو گا، ہمیشہ اللہ تعالی کی تعظیم کرے گا، اس کی ساری زندگی اللہ تعالی کے اس فرمان کا مصداق ہو گی۔

اور اللہ تعالی نے ہمیں ایک عظیم کام کا حکم دیا ہے، اس کی تعمیل سے ہماری زندگی خوشحال ہو سکتی ہے، اور وہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے درود و سلام ، اللهم صلى وسلم وبارك على عبدك ورسولك محمد، یا اللہ! ہمارے نبی اور حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ڈھیروں رحمتیں، برکتیں اور سلامتی نازل فرما۔ یا اللہ! خلفائے راشدین، اہل بیت ،صحابہ کرام ، تابعین عظام اور قیامت تک ان کے نقش قدم پر چلنے والوں سے راضی ہو جا۔

یا اللہ! ہم تجھے اس بات کا واسطہ دے کر دعا کرتے ہیں کہ ہم سب تیری وحدانیت کی گواہی دینے والے ہیں تیرے سوا کسی کو اپنا معبود نہیں جانتے، یا احد! یا صمد! یا ذالجلال والا کرام!  یا اللہ! تو ہی یکتا اور مرجع خلائق ہے، تو نے کسی کو جنم نہیں دیا اور نہ ہی تو کسی سے پیدا ہوا ہے، اور تیرا کوئی ہم سر بھی نہیں ہے، یا حیی! یا قیوم! یا ذالجلال والا کرام! ہم تجھ سے دعا گو ہیں کہ ہماری امت کو تمام پریشانیوں سے محفوظ فرما لے،  یا اللہ! ہماری امت کو تمام پریشانیوں سے محفوظ فرما لے، یا اللہ! ہماری امت کو تمام آفتوں اور مصیبتوں سے محفوظ فرما لے۔

اللہ کے بندو!

اللہ کے بندو! اللہ کا ڈھیروں ذکر کرو، اور صبح و شام بھی اسی کی تسبیح بیان کرو ، اور ہماری آخری دعوت بھی یہی ہے کہ تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں