روزہ کی بابت آپﷺ کی تعلیم _ *اردو استفادہ از امام ابن القیم٭ (حصہ دوم)

Image result for ‫رمضان‬‎
روزہ کی بابت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم
 *اردو استفادہ از امام ابن القیم٭ 
(حصہ دوم)


منہ کو لگ چکی یہ لذتیں اور آسائشیں چھڑا دینا چونکہ آسان کام نہ تھا لہٰذا اس کی فرضیت نازل ہونے سے خاصی دیر تک رکی رہی۔ یہ فرض ہجرت کے بھی کچھ دیر بعد نازل ہوا۔ نفوس کے اندر جب توحید گہری اتر چکی اور پھر ’نماز‘ نے ان موحد نفوس کو ایک بندگانہ صورت دے دی اور قرآن سے حکم لینے پر کچھ تربیت پالی تب بتدریج ان کو بندگی کی اس صورت کی جانب لایا گیا۔

چنانچہ روزہ ہجرت کے دوسرے سال فرض ہوا۔ یوں جب آپ فوت ہوئے تو نو(9)رمضان روزہ کے ساتھ گزار چکے تھے۔پہلے پہل جب روزہ فرض ہوا تب آدمی کو چناؤ حاصل تھا۔ چاہے تو روزہ رکھ لے اور چاہے تو ایک مسکین کا پیٹ بھردے ۔ پھر یہ چناؤ ختم کرکے روزہ کی حتمی صورت باقی رکھ دی گئی ۔ البتہ دوسرے کو کھلانے کی آسائش ان بوڑھوں اور عورتوں کےلئے باقی رکھی گئی جو خود روزہ نہ رکھ سکیں۔ یہ دونوں صنفیں روزہ چھوڑیں گی اورہر روز کے عوض ایک مسکین کو کھانا کھلائیں گی۔ مریض اور مسافر کےلئے البتہ یہ رخصت رکھی گئی کہ وقتی طور پر وہ روزہ چھوڑ لیں مگربعد میں اس کی قضا دیں۔ حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت جس کوصحت متاثر ہوجانے کا اندیشہ ہو، کو بھی یہی رخصت دی گئی۔ البتہ اگر اس کو بچے کی صحت متاثر ہو جانے کا اندیشہ ہو تووہ قضا بھی دے گی اور مسکین کو کھانا بھی کھلائے گی کیونکہ اسے خود اپنے بیمارہونے کا اندیشہ نہ تھا لہٰذا وہ خائف اپنی صحت کی بابت نہیں بلکہ بچے کی صحت کی بابت ہے ۔لہٰذا اس کی تلافی اطعام مسکین سے کی جائے گی۔(1)

فرضیتِ صوم تین مرحلوں سے گزری:

پہلے مرحلے میں روزہ یا اطعامِ مسکین میں سے کو ئی ایک فرض تھا۔

دوسرے مرحلے میں آدمی کو ہر حال میں روزہ ہی رکھنا تھا۔ البتہ تب روزہ کی صورت یہ تھی کہ آدمی اگر رات کو کھانا کھانے سے پہلے سوگیا تو اگلی رات تک اس کےلئے کھانا پینا ممنوع رہے گا۔

تیسرے مرحلے میں روزہ کی یہ حالت باقی نہ رہی۔ تب سے اب اور تا قیامت تک روزہ کی وہی صورت فرض ہے جو کہ معروف ہے۔

آپ کا طریقہ یہ تھا کہ رمضان میں آپ ہر قسم کی عبادات بکثرت ادا فرماتے۔ جبریل ؑ رمضان میں ہر رات آپ کے پاس آتے اور یوں قرآن کا دور ہوتا۔ جبریل سے آپ کی ملاقاتوں کا اِس تمام تر عرصہ یوں ہوتا کہ نوازش اور عنایت میں آپ معمول سے بھی کہیں بڑھ جاتے یہاں تک کہ بادۂ نسیم کو بھی اِلطاف میں آپ سے کچھ نسبت نہ رہے۔ فیض رسانی میں آپ تمام مخلوق سے بڑھ کرتھے۔ البتہ سب سے زیادہ نوازش آپ رمضان میں فرماتے۔ خوب صدقہ کرتے۔ احسان کرتے۔ قرآن کی تلاوت، ذکر اور اعتکاف میں ہی گویا سب وقت گزرتا ۔

رمضان میں آپ عبادت کا بالخصوص ایسا اہتمام فرماتے جو دیگر مہینوں میں نہ ہوتا۔ یہاں تک کہ آپ ایک دن کے روزے کو دوسرے دن کے روزے سے ملا لیتے تاکہ دن اور رات کی زیادہ سے زیادہ ساعتیں آپ عبادت ہی میں گزار سکیں ۔ اپنے اصحاب کو البتہ آپ اس ’وصال‘ سے منع فرماتے۔ اصحاب عرض کرتے: حضور!آپ خود تو وصال کرتے ہیں، فرماتے: لست کھیئتکم ”میرامعاملہ تم جیسا نہیں“ ایک اور روایت میں ہے، فرماتے: انی أظل عند ربی یطعمنی ویسقینی ”میں اپنے پروردگار کے ہاں ساعتیں گزارتا ہوں۔ وہ مجھے کھلاتا بھی ہے اور پلاتا بھی“ لوگوں نے اس ’کھلانے اور پلانے‘ کا مفہوم سمجھنے میں اختلاف کیا ہے:ایک فریق کا خیال ہے کہ یہ مادی طعام وشراب ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ظاہرِ لفظ کا یہی تقاضا ہے اور اس کو ظاہری معنی سے پھیر دینے کی کوئی دلیل نہیں پائی جاتی۔

دوسرے فریق کا کہنا ہے کہ اس سے مراد ایک اور طرح کی غذا ہے، جو دل کو آشنائی دیتی ہے۔یہ لذتِ مناجات کی ایک خاص صورت ہے جو خاص آپ کو عطا ہوتی تھی،اور خدا کے قرب کا ایک خاص احساس ہے جو آپ کی آنکھ کی ٹھنڈک بنتا تھا۔خدا کی طمع،خدا کی محبت اور خدا کے شوق کی ایک کیفیت تھی اور اس سے وجودمیں آنے والے کچھ خاص ’احوال‘ تھے جو آپ کو عطا ہوئے تھے۔ یہ ہے وہ غذا جس سے دل سیراب ہوتا ہے اور روح تروتازہ ہوتی ہے۔جس سے آنکھ کو ٹھنڈک ملتی ہے اور نفس کے اندر رونق آتی ہے۔بسا اوقات یہ غذا اتنی وافر ملتی ہے کہ آدمی مادی و جسمانی غذا سے خاصا خاصا عرصہ بے نیاز رہتا ہے۔ اس حالت کا کچھ نہ کچھ تجربہ تو ہر محبت کرنے والے کوہو ہی جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ محبوب کو پا کر ایسی حالت ان پر طاری ہو جاتی ہے کہ دنیا ومافیہا سے بے خبر ہوجاتے ہیں ۔ کھانا پینا جیسے بھول ہی جاتا ہے۔محبوب کو ایک نظر دیکھ لینا میسر آجائے اور کوئی ساعت اس کے پاس تنہائی میں گزارنے کو مل جائے تو گویا وہ کسی اور ہی جہان میں ہوتے ہیں۔ ان کی یہ کیفیت الفاظ میں بیان ہی نہیں کی جاسکتی۔ محبوب کا مہربان و ملتفت نگاہوں سے ان کو دیکھ لینا ان کو سب سے بڑا انعام دِکھتا ہے۔پس اگر یہاں کے محبت کرنے والوں کی یہ حالت ہے تو اس محبوب کی محبت میں اس خیرالبشر کا کیا حال ہوگا جس سے برگزیدہ تر، حسین تر،کامل تر اور عظیم تر کوئی محبوب ہوہی نہیں سکتا اور جس کی محبت نے آپ کے پورے وجود کو اپنا اسیر کررکھا ہے اور جس کی محبت آپ کے قلب وجوارح میں اس قدر گہری جاچکی ہے جس پر کسی چیز کا قیاس ہی ممکن نہیں۔

چنانچہ حدیث کے الفاظ پر غور فرمائیں: انی أظل عند ربی یعنی میرا تو وقت ہی خدا کے ہاں گزرتا ہے۔ اس کے بعد فرماتے ہیںیطعمنی ویسقینی ”وہ مجھے کھلاتا بھی ہے اور پلاتا بھی“۔ چنانچہ اس سے مراد اگر مادی اور ظاہری معنی میں ’کھانا پینا‘ ہو تب تو آپ کا ’وصال‘ کرنا تو رہا ایک طرف ’روزہ سے ہونا ‘ ہی معتبر نہ ہو ! اور اگر کوئی کہے کہ یہ مادی معنی میں خدا کی طرف سے ’کھلایا پلایا جانا‘رات کو ہوتا تھا تو یہ ’وصال‘ تو بہرحال نہ ہوا۔ اس صورت میں صحابہ کی اس بات کے جواب میں کہ ”آپ تو وصال فرماتے ہیں“آپ کو کہنا چاہیے تھا: ”میں کب وصال کرتا ہوں میں تو کھاتا پیتا ہوں“! جبکہ آپنے صحابہ کی اس بات کا اقرار فرمایا کہ آپ وصال کرتے ہیں البتہ یہ کہا کہ”میرا معاملہ تمہارے جیسا نہیں“۔چنانچہ آپ نے یہاں اپنا اور ان کا فرق بیان فرمایا۔صحیح مسلم میں عبداللہ بن عمرؓ کی حدیث کے الفاظ ہیں:



أن رسول اللہ واصل فی رمضان،فواصل الناس،فنھاھم،فقیل لہ:أنت تواصل۔ فقال،انی اُطعمَ و اُسقیٰ

یعنی”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں (ایک دن کا روزہ دوسرے دن سے) ملایا تب لوگوں نے بھی (ایک دن کا روزہ دوسرے دن سے) ملایا۔تب آپ نے ان کو (اس سے ) منع فرمایا۔عرض کی گئی :آپ تو (ایک روز کو دوسرے روز سے) سے ملاتے ہیں۔ تب آپ نے فرمایا :میں تمہاری مثل نہیں ہوں۔ مجھے کھلایا جاتا ہے اور پلایا جاتا ہے

جبکہ صحیحین میں ابوہریرہؓ سے جو روایت آتی ہے اس کے الفاظ ہیں: نھیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن الوصال فقال رجل من المسلمین:انک یا رسول اللہ تواصل فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم :”و أیّکم مثلی؟ انی أبیت یطعمنی ربی ویسقینی“

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ کے ساتھ رات گزارنے (وصال) سے منع فرمایا۔ تب مسلمانوں میں سے ایک شخص نے کہا:اے اللہ کے رسول آپ خود تو وصال فرماتے ہیں۔آپ نے فرمایا:”تم میں سے کون ہے جو مجھ جیسا ہو؟ میں تو اس حال میں رات گزارتا ہوں کہ میرا رب مجھے کھلاتاہے اور پلاتا ہے

علاوہ ازیں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ آپنے جب ان کو وصال سے منع فرمایا اور انہوں نے مان کر نہ دیا تو آپنے ان سے ایک دن وصال کروایا۔ پھر ایک اور دن وصال کروایا۔ تب(عید کا) چاند نکل آیا۔ تب آپ نے فرمایا ۔”چاند اگر ایک دن اور نہ نکلتا تو میں تم سے ایک دن اور (وصال)کرواتا“ گویاجب انہوں نے اصرار کیا تو آپ نے ان کے ساتھ ایسا انداز اپنایا جس سے آپ کا مقصود ان کو سبق سکھادینا اور بازکردینا ہو۔

ایک جگہ لفظ آئے ہیں: لو مدّ لنا الشھر لواصلنا وصالا یدع المتعمقون تعمقھم ۔انی لست مثلکم۔ایک اور الفاظ انکم لستم مثلی، فانی أظل یطعمنی ربی ویسقینی ”اگر یہ ماہ ذرا اور دراز ہوجاتا تو ہم ایسا وصال کرتے کہ یہ زیادہ شدت کرنے والے اپنی شدت چھوڑ دیتے۔ بات یہ ہے کہ میرا معاملہ تم جیسا نہیں یا یہ کہ تمہارا معاملہ مجھ جیسا نہیں۔مجھے تو میرا رب کھلاتااور پلاتا رہتا ہے

چنانچہ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ سے واضح ہے کہ آپ کو بیک وقت کھلایا پلایا بھی جاتا ہے اورآپ وصال سے بھی ہوتے ہیں۔ جبکہ صحابہ کو آپنے اپنے ساتھ کچھ دیر کےلئے ایسا کرنے دیا تو وہاں آپ کا انداز اُن کو عاجز کردینے کا تھااور ایک طرح سے سبق دینے او رباز کرنے کا۔ اب اگر آپ خود تو ’کھاتے پیتے‘(اس معنی میں جو کہ ظاہر بین گروہ آپ کے ان الفاظ سے لیتا ہے!) تو اس سے کیونکر یہ مفہوم نکلتا کہ آپ ان کو عملاً یہ سکھا دینا چاہتے ہیں کہ یہ کام بس آپ ہی کے کرنے کا ہے اور یہ کہ ان کو اس بات کی طاقت ہی نہیں ۔ پس معلوم ہوا یہ ’کھانا پینا‘ کسی اور انداز کا ہے،اور بحمداللہ یہ بات بہت واضح ہے۔

نوٹ: (1) یہ فقہی آراءامام ابن القیمؒ کی ہیں، جو کہ حنبلی فقہ سے وابستہ ہیں۔ ابن القیمؒ کا یہ مضمون ایمانی و شعوری فوائد کیلئے دیا گیا ہے نہ کہ فقہی آراءکے اثبات کیلئے۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں