تعارف سورہ یوسف - حصہ-7


تعارف سورہ یوسف - حصہ-7

تیسرا موازنہ :
نوجوان آدمی کی آزمائش

حضرت یوسف اور حضرت موسیٰ دونوں جوانی کو پہنچ چکے ہیں۔ اب جوانی میں جن حالات سے دونوں نبردآزما ہوئے انکا موازنہ کروں گا۔

اللہ تعالیٰ سورہ یوسف میں حضرت یوسف کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ جب وہ بلوغت تک پہنچنے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں دو چیزیں عطا فرمائیں؛ حکمت اور علم. حضرت یوسف کو اتنی کم عمر میں حکمت عطا کرنا ان کو انتہائی اہم بناتا ہے. اللہ تعالی نے حضرت یوسف علیہ السلام میں یہ خصوصیت ڈالی کہ علم سے پہلے ان کو شعور عطا کردیا۔

جوان عمری میں ایک عام انسان کے لئے غورو فکر کرنا اور حکمت و دانائی سے کام لینا مشکل ہوتا ہے۔ اسی طرح علم تو حاصل ہوجاتا ہے لیکن شعور وقت گزرنے کے ساتھ ہی ملتا ہے لیکن حضرت یوسف علیہ السلام خاص تھے کیونکہ اللہ تعالی نے انہیں کم عمر میں ہی دانشمندی سے فیصلے کرنے کی قابلیت عطا کی تھی۔ صرف ایک قید خانے میں انہیں مذہبی علوم کے ساتھ ساتھ دنیاوی امور کے متعلق بھی آگاہی ہو رہی تھی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی نے انہیں دانائی کے ساتھ دنیا کے متعلق گہرا علم بھی عطا کیا تھا۔اللہ تعالیٰ اس طرح اپنے ان بندوں کو انعام کرتا ہے جو آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں.

بالکل یہی بات سورہ قصص میں حضرت موسیٰ کے بارے میں آئی ہے. لیکن ایک اضافی بات کے ساتھ کہ ہم نے انہیں غیر معمولی طاقت اور مضبوطی عطا کی. دوسری جانب حضرت یوسف کو خوبصورتی سے نوازا.

دونوں کو انہی خصوصیات کی وجہ سے آزمایا گیا. حضرت موسیٰ کو ان کی طاقت کی وجہ سے اور حضرت یوسف کو ان کی خوبصورتی کی وجہ سے.

اس سے فوراً بعد اگلی بات آزمائش کے بارے میں ہے. اللہ نے دونوں کی جوانی کا ذکر کرتے ہی دونوں کی آزمائش کا ذکر کیا ہے. اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خواہ آپ کے پاس حکمت ہو، علم ہو، طاقت ہو یا خوبصورتی ہو، آپ پر آزمائش ہر صورت آئے گی.

✓ حضرت یوسف کو بند کمرے میں آزمایا گیا جبکہ حضرت موسیٰ کو باہر کھلی فضا میں آزمایا گیا.

✓ حضرت یوسف کو ان سے اونچے درجے کے شخص نے آزمایا جو کہ اس گھر کی مالک تھی اور جس کا حضرت یوسف پر اثرورسوخ بھی تھا. حضرت موسیٰ کو ان سے نچلے درجے کے شخص نے آزمایا. آپ ایک شاہی شخصیت تھے اور وہ شخص جس کو باہر مار پڑ رہی تھی ایک غلام تھا. آزمائش کہیں سے بھی آ سکتی ہے.

✓ حضرت یوسف کو جلدی کرنے کا کہا گیا جبکہ حضرت موسیٰ نے خود جلدی کی. حضرت موسیٰ نے جیسے ہی مدد کی پکار سنی آپ نے فوراً مدد کی اور اسی وقت منہ سے نکلا کہ یہ کام شیطان نے کروایا ہے حالانکہ اچھی نیت کے ساتھ یہ کام کیا تھا. جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اچھی نیت سے کام کیا جائے یا بری نیت سے اگر اس میں جلدی کی گئی ہے تو وہ شیطان کا کام ہے.

✓ حضرت یوسف کو بدکاری کی آزمائش میں ڈالا گیا جبکہ حضرت موسی کو قتل کی آزمائش میں ڈالا گیا قرآن میں دو جگہ اس کا ذکر آیا ہے ایک جگہ ذکر آیا ہے کہ زنا کے قریب مت جاؤ اور قتل مت کرو ایک جگہ آیا ہے کہ قتل مت کرو اور زنا کے قریب مت جاؤ. اللہ تعالی ان دونوں گناہوں کو برابر رکھ رہے ہیں. ایک کا مطلب کسی کے جسم کو قتل کرنا اور دوسرے کا مطلب کسی کی روح کو قتل کرنا ہے.

✓ حضرت یوسف نے کچھ حرام کرنے سے پہلے ہی اللہ کی پناہ لے لی جبکہ حضرت موسی نے کچھ غلط کرنے کے بعد اللہ کی پناہ مانگی. اگر کسی حرام کام سے بچنا ہے تو حضرت یوسف کی طرح بچو اور اگر اللہ تعالی سے توبہ کرنی ہے تو حضرت موسی کی طرح کرو آپ نے شیطان کو برا بھلا کہا لیکن فورا اپنی غلطی کو بھی تسلیم کیا.

✓ عزیز مصر کی بیوی نے حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنی طرف مائل کرتے ہوئے "ھیت لک" بولا یہ لفظ برا نہیں ہے عربی میں کسی کو بھی اپنی طرف جلدی سے بلانے کے لیے اس کو بولا جاتا ہے لیکن حضرت یوسف نے اس کے الفاظ کے پیچھے چھپی ہوئی بری نیت کو جان لیا دوسری طرف حضرت موسی علیہ السلام کو جب ان کے ساتھی نے مدد کے لیے بلایا تو انہوں نے ظاہر پر معاملہ کیا اور وہ یہ نہ جان سکے کہ یہ ان کو الٹا مشکل میں ڈال دے گا اللہ تعالی نے حضرت موسی کو ابھی تک اس حکمت سے نہیں نوازا تھا.

✓ حضرت یوسف علیہ السلام کی وفاداری اپنے مالک کے لئے تھی جبکہ حضرت موسی علیہ السلام کی بنی اسرائیلیوں کے ساتھ تھی دوپہر کے وقت جب سب آرام کر رہے ہوتے تھے حتیٰ کے فوج بھی آرام کر رہی ہوتی تھی آپ محل سے نکلتے اور جاکر غریبوں اور مزدوروں کی مدد کرتے جو اپنا کام مکمل نہیں کر سکتے تھے آپ ان کا کام مکمل کرتے ہیں آپ چھپ کر محل سے نکلتے کیونکہ اگر فوج آپ کو بنی اسرائیلیوں کی مدد کرتے ہوئے پکڑلیتی تو آپ مشکل میں پڑ سکتے تھے پھر بھی آپ رسک لیتے ہوئے محل سے نکلتے تھے یہاں سے پتا چلتا کہ آپ کی ساری ہمدردیاں بنی اسرائیل کے ساتھ تھی.

(جاری ہے)


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں