ایک خوبصورت نظم ۔۔۔ وبا کے مثبت پہلو پر ۔۔۔آپ سب بھی پڑھیے اور لطف لیجیے
" مکافات "
شاعر: حسیب اقبال
(پہلا منظر)
زمین اپنے عروج پر ہے
اور اس کو ہونا بھی چاہیے
کیوں کہ کُل جہاں میں یہ ایک سیّارہ ہے جہاں پر ذہین مخلوق بس رہی ہے
ذہین مخلوق جس کو اشرف کہا گیا ہے
زمیں پہ ہر سمت سبز چادر بچھی ہوئی ہے
کہیں کہیں نیلے پیلے اودھے سفید پھولوں نے سبز چادر پہ بیل بُوٹے بنا دیے ہیں ۔۔
جدید رنگوں سے کھیلنے والے اک مصور نے کوئی تصویر سوکھنے کے لیے رکھی ہے
وہ آبشاروں کے اُجلے پانی کی جگمگاہٹ ۔۔
زمیں پہ جیسے فلک سے حوریں اُتر رہی ہوں
پرندے نیلے فلک کو چُھونے کی حسرتیں لے کے اُڑ رہے ہیں
اُدھر درختوں کے سائے میں کچھ ہرن بھی بیٹھے کسی لطیفے پہ ہنس رہے ہیں
فلک سے مِرّیخ اپنے دو ننھے منھے چاندوں کو یہ مناظر دکھا رہا ہے
وہ اورین بیلٹ ( Orion belt) کے ستارے وہ تین بھائی زمیں کی تعریف میں مگن ہیں
اب اس کہانی کے پہلے کردار کی طرف آئیے جہاں آدمی کے دل میں عروج کی سوچ دھیرے دھیرے پنپ رہی ہے
یہی وہ نُکتہ ہے آگے چل کر جو اس کہانی کو موڑ دے گا
یہی تفکّر زمیں پہ فطرت کے سارے قانون توڑ دے گا
(دوسرا منظر)
زمین اپنی گزشتہ حالت گنوا چکی ہے
جہاں پہ سبزہ تھا اک زمانے میں اب وہاں اونچی اونچی پختہ عمارتیں ہیں
جہاں کبھی مور ناچتے تھے وہاں پہ اب موت ناچتی ہے
ہزاروں لاکھوں پرندے اپنے گھروں سے محروم ہو چکے ہیں
وہی فضا جس میں پھول خوشبو بکھیرتے تھے
وہ اب کثافت کی انتہاؤں کو چُھو رہی ہے ۔۔
یہ کارخانوں کی چمنیوں سے نکلنے والے سیاہ بادل زمیں کی سانسیں دبوچتے ہیں
اُسی فضا میں مہیب پیکر چہار سمتوں سے زندہ اجسام پر لپکتے ہوئے سے محسوس ہو رہے ہیں
فلک سے مِرّیخ اپنے چاندوں سمیت ماتم کناں ہُوا ہے
وہ اورین بیلٹ (Orion belt) کے ستارے بھی اپنے ہمسائے کی تباہی پہ نالہ کش ہیں
یہ سیجیٹیرس ( Sagittarius) اور ان میں موجود اربوں کھربوں ستارے انساں اور اس کی جُھوٹی ترقیوں پر شدید نالاں ہیں... ڈانٹ پھٹکار کر رہے ہیں
زمیں کے چاروں طرف جو اوزون ( Ozone) کی وہ نیلی رِدا تھی جس نے زمیں کو آغوش میں لیا تھا وہ چادرِ اُنس (جس کے سائے میں یہ زمیں اب تلک بڑھی ہے) ہزاروں کونوں سے پَھٹ چکی ہے
تمام باتوں سے بے نیاز اس زمیں پہ موجود ایک مخلوق وہ ہے جس پر تمام ذمہ ہے اس زمیں کی شکستگی کا
مگر وہ مخلوق جس کو اشرف کہا گیا تھا وہ قتل و غارت گری کا بازار گرم کر کے اسے ترقی کا نام دیتی نشے میں دُھت اک طرف پڑی ہے
(تیسرا منظر)
خدا کی رحمت کو جوش آیا۔۔۔!!!
زمیں کی اُٹھی ہتھیلیوں پر قبولیت کی سَند پڑی ہے
خدا نے "کُن" کہہ دیا ہے اور اک وَبا زمیں کی طرف بڑھی ہے
جو پچھلے منظر میں پیڑ پودوں کا ، ان پرندوں کا ان درندوں کا مسئلہ تھا وہ اب فقط آدمی کی موت و حیات طے کرتا پِھر رہا ہے
اک ایسی اَن دیکھی موت ہے جو کہاں سے آتی ہے کچھ پتا نہیں ۔۔ نہ یہ پتا ہے وہ کیسے انساں شکارتی ہے ۔ عجیب بہروپیا سا قاتل ہے جس کا یہ بھی پتا نہیں کب کہاں کسے کیوں شکار کر لے
کسی کے بیٹے کا رُوپ دھارے کسی کے والد کا بھیس بدلے
کبھی یہاں ہے کبھی وہاں ہے یہ اتنی تیزی سے دیس بدلے
اِسی کے ڈر سے بلند و بالا عمارتوں پر مہیب تالے لٹک رہے ہیں
تمام لوگوں نے خود کو کمروں میں بند کرنا مفید جانا...!!
نہ کوئی رشتہ نہ کوئی یاری۔۔!!
سبھی مراسم زماں کی یخ بستگی سے کالے پڑے ہوئے ہیں
وہ شاہراہیں جہاں کبھی گاڑیوں کے ہارن سنائی دیتے
وہ شاہراہیں جو کاربن ڈائی آکسائڈ ( Carbon dioxide) کا زہر بھرتی تھیں اس فضا میں
اب اُن کے سینے پہ جانور ہیں جو مارننگ واک ( Morning walk) کر رہے ہیں
زمیں کی ممتا وہ نیلی چادر کئی جگہوں سے جو پھٹ چُکی تھی وہ اب دوبارہ نئے سرے سے نمُو کے رستے پہ گامزن ہے
ہزاروں لاکھوں پرندے اپنے نئے مکانوں کی سمت پرواز کر چُکے ہیں
فلک پہ مِرّیخ حسبِ سابق زمیں پہ اُٹھتی نئی بہاروں کو دیکھتا ہے تو اس کے چہرے پہ آنے والی وہ شادمانی زمیں کو مدہوش کر رہی ہے
وہ اورین بیلٹ کے ستارے زمیں کے جوبن کو کس مسرت سے دیکھتے ہیں
ابھی سُنا ہے کہ مِلکی وے (Milky Way) نے کسی عشائیے کا بھی کہا ہے
زمیں کی رونق جو صدیوں پہلے چلی گئی وہ بھولی بسری ہوئی بالآخر زمین کے پہلو میں آ گئی ہے
اس اک وبا نے بڑی بڑی طاقتوں کو مفلوج کر دیا ہے
زمیں کی بس اک یہی دعا ہے کہ یہ اجڈ اور گنوار مخلوق (یعنی انسان) اپنے مسکن سے اب نہ نکلے
مرے مقدر کے اک بھی پتّے سے ایسی پھر کوئی شب نہ نکلے
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں