تعارف سورہ یوسف ۔۔ حصہ- 11(آخر)
نکات اور ان کی وضاحت
آج تعارف کا آخری حصہ ہے اورچونکہ آج کا تقابل زمانی اعتبار سے نہیں ہے۔ بلکہ موضوعی ہے اس لیے نکات ذرا منتشر سے ہوں گے۔ لیکن موضوع کی مناسبت سے تمام چیزیں باہم مربوط ہوں گی ان شاء اللہ۔ آگے ہم ان شاء اللہ جو موازنے کریں گے وہ حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت یوسف ؑ کے ساتھ ساتھ حضرت یوسف ؑ اور ہمارے پیارے نبی ﷺ کے مابین بھی ہوں گے۔ مزید یہ کہ ہمارے پیغمبر ﷺ، حضرت یوسف ؑ اور حضرت موسیٰ ؑ کے مابین بھی بہت دلچسپ ربط اور کنکشن ہیں۔
١ ) حضرت یوسف ؑ اور حضرت موسیٰ ؑ ، دونوں کے قصوں میں بادشاہ خواب دیکھتا ہے۔
حضرت موسیٰ ؑ کے قصے میں بائیبل کے مطابق بادشاہ خواب دیکھتا ہے کہ ایک اسرائیلی بچہ اٹھ کر اس کا تخت الٹ دے گا۔ اور اس کی دلیل قرآن کی اس آیت سے لی جا سکتی ہے کہ
وَنُرِيَ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا مِنْهُم مَّا كَانُوا يَحْذَرُونَ (سورۃ القصص: 6)
یعنی اللہ فرعون، اس کےسپہ سالار ہامان اور ان کے لشکر کو وہ دکھانا چاہتا تھا جس وہ ڈرتے تھے۔
٢) دونوں خوابوں میں ایک چیز یہ بھی مشترک ہے کہ دونوں کا تعلق سلطنت کے مقدر کے ساتھ تھا، اگر ان خوابوں پر توجہ نہ دی جاتی تو مملکت تباہ ہو جاتی، معیشت برباد ہو جاتی۔
٣) موسیٰ ؑ کے قصے میں خواب بالکل واضح تھا اور یوسف ؑ کے قصے میں اشارے کنایے تھے۔ فرعون کے خواب میں کسی گائے کا تذکرہ یا اشارے نہیں ملتے۔ بلکہ بالکل واضح تھا۔ جبکہ یوسف ؑ کے قصے میں خواب واضح نہیں بلکہ تعبیر کا محتاج تھا۔
٤) یوسف ؑ کے قصے میں سات خوشحال سالوں کے بعد سات بدحال سال آنے ہیں۔ جبکہ موسیٰ ؑ کے قصے میں اللہ نے نو نشانیاں دی تھیں تاکہ مزید برائی سے بچا جا سکے اگر فرعون ان سے سبق سیکھ کر ایمان لے آئے ۔
وَلَقَدْ أَخَذْنَا آلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِينَ وَنَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ (االاعراف : ١٣٠)
اور ہم نے فرعون والوں کو مبتلا کیا قحط سالی میں اور پھلوں کی کم پیداواری میں، تاکہ وه نصیحت قبول کریں
اللہ فرماتا ہے وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَىٰ دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (سورۃ السجدۃ : ٢١)
یعنی ہم انہیں بڑے عذاب سے پہلے چھوٹے عذاب کا مزہ چکھائیں گے تاکہ وہ لوٹ آئیں۔
٥) یوسف ؑ مصر کے نجات دہندہ کہلائے قیدی کی وجہ سے جب بادشاہ کو خواب آیا تھا اور بادشاہ نے تعبیر پوچھی تھی تو آزادی پانے والے قیدی نے یوسف ؑ سے معلوم کر کے بادشاہ کو خواب کی تعبیر بتائی۔ بادشاہ کے پوچھنے پر قیدی کو بتانا پڑا کہ تعبیر یوسف ؑ نے بتائی ہے۔ چنانچہ قیدی کی وجہ سے یوسف ؑ مصر کے نجات دہندہ کہلائے۔
جبکہ فرعون کے دربار میں موسیٰ ؑ کے دوست نے موسیٰ ؑ کو نجات دہندہ کہا بھرے دربار میں کہ اگر موسیٰ ؑ کی بات پر تم لوگوں نے دھیان نہ دیا تو بربادی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
٦) یوسف ؑ عدالت میں جانے کا مطالبہ کرتے ہیں کیوں کہ وہ بے گناہ تھے اور اپنی صفائی پیش کر کے خود کو الزامات سے بری کروانا چاہتے تھے۔ جبکہ موسیٰ ؑ عدالت نہیں جانا چاہتے تھے بلکہ اُن سے تو اللہ نے فرعون کے دربار میں جانے کا حکم دیا۔
تو گویا ایک طرف یوسف ؑ ہیں جو عدالت جانا چاہتے ہیں اور دوسری طرف موسیٰ ؑ ہیں جو فرعون کا سامنا کرنے سے گریزاں ہیں تاہم انہیں مددِ خداوند انہیں حاصل تھی۔
یہاں ہم یہ بات بھی سیکھ سکتے ہیں کہ ایک ہی صورت حال میں کچھ لوگ حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں اور کچھ لوگ تیار نہیں ہوتے۔
مزید ایک فرق یہ بھی ہے کہ یوسف ؑ معصوم تھے سو وہ عدالت کا سامنا کرنا چاہتے تھے۔ جبکہ دوسری طرف موسیٰ ؑ سے قتل کا جرم صادر ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ خوف زدہ تھے کہ کہیں انہیں ہی قتل نہ کردیا جائے۔۔۔ یہ خوف اس وجہ سئ نہیں تھا کہ وہ انصاف کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ بلکہ اس کے برعکس خوف یہ تھا کہ موقعہ واردات کا غلط فہم لیا جائے گا اور بے انصافی کے ساتھ محض قتل ہی مقصود ہے۔ یہ بات بدیہی ہے کہ کوئی بھی ایک بے انصاف جج کے سامنے پیش ہونے سے کترائے گا۔ لیکن یہ اس لیے بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ اس مشکل گھڑی سے گزار کر مزید پختہ شخصیت اور بہادر بنانا چاہتا ہے۔ اور موسیٰ ؑ کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔
٧) یوسف ؑ سوالات کرتے ہیں جبکہ موسیٰ ؑ سے سوالات کیے جاتے ہیں۔ وہ ایسے کہ یوسف ؑ تو معصوم تھے لہذا ان کی پوزیشن تھی کہ وہ سوالات اٹھاتے کہ آخر ان خواتین کا کیا معاملہ تھا؟؟
جبکہ موسیٰ ؑ سے ایک جرم صادر ہوا تھا لہذا دربارِ فرعون میں ان سے سوالات ہوتے ہیں کہ بھئی وہ فرار ہونے سے پہلے تم کچھ کر گئے تھے۔۔۔ اور یہ کہ کیا ہم نے تمہاری پرورش نہیں کی؟؟
قَالَ أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينَا وَلِيدًا - الشعراء : ١٨
فرعون نے کہا کہ کیا ہم نے تجھے تیرے بچپن کے زمانہ میں اپنے ہاں نہیں پاﻻ تھا؟
وَفَعَلْتَ فَعْلَتَكَ الَّتِي فَعَلْتَ وَأَنتَ مِنَ الْكَافِرِينَ (الشعراء : ١٩)
پھر تو اپنا وه کام کر گیا جو کر گیا اور تو ناشکروں میں ہے
٨) یوسف ؑ خود کو الزام سے بری کروانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جبکہ موسیٰ ؑ اعترافِ جرم کرتے ہیں۔
٩) یوسف ؑ کو بادشاہ اپنا خاص مشیر بناتا ہے اور خوب نوازتا ہے أَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِي (سورۃ یوسف : ٥٤) إِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِينٌ أَمِينٌ (سورۃ یوسف : ٥٤) جبکہ موسیٰ ؑ کو بادشاہ قید خانے میں ڈلوا دیتا ہے۔
گویا ایک طرف ترقی مل رہی ہے اور دوسری طرف تنزلی کا سامنا ہے۔ مزید یہ کہ موسیٰ ؑ شاہی محل کے فرزند تھے تو اب فرعون انہیں ذلیل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
١٠) یوسف ؑ کا تعبیرِ خواب والا معجزہ سرزمین مصر کی خوشحالی کو یقینی بنانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ جبکہ موسیٰ ؑ کو جو معجزے عطاء ہوئے وہ سرزمینِ مصر کی بدحالی کا سبب بنے۔
ٹڈے آ کر فصل خراب کرتے ہیں، کھٹملوں سے عوام وباء کا شکار ہوجاتی ہے۔ ہم تو تجربہ کر رہے ہیں کہ جب کوئی وباء پھوٹ پڑے تو معیشت کا پہیہ کس طرح جام ہو جاتا ہے۔۔۔ فصل تباہ ہوئی، جانیں ضائع ہوئیں، آندھی طوفانوں نے انفراسٹرکچر برباد کیا، پانی کے ذخائر خون میں تبدیل ہوئے جس سے پانی کی فراہمی متاثر اور مستقبل کی کھیتی باڑی کا سارا نظام درہم برہم۔۔۔
لہذا یوسف ؑ کو معجزہ دیا گیا کہ آنے والی سختیوں سے بچ کر سرزمین مصر خوشحال رہے۔ جبکہ موسیٰ ؑ کے ٩ معجزوں نے سرزمین مصر کی معیشت اور ان کی قومی قوت کو پارہ پارہ کردیا۔
١١) یوسف ؑ کے عہدے کا تقاضا تھا کہ مصر کو خوشحال بنائیں جبکہ موسیٰ ؑ کو مدین کے ایک چھوٹے سے گھر میں ملامت ملی
لہذا جو چرواہا تھا اسے سرکاری عہدہ ملا اور جو خود سرکاری محل کا فرزند تھا وہ چرواہا بن گیا۔ بالکل متضاد تقابل!
١٢) یوسف ؑ کو ملامت کردار کی پاکیزگی یعنی امانت داری کی وجہ سے ملی۔۔۔خواتین نے بھی ان کے حق میں گواہی دیدی تھی اور خواب کی تعبیر کے علمکی وجہ سے۔
جبکہ دوسری طرف موسیٰ ؑ کو ملازمت ملی امانت داری اور قوت اور طاقت کی وجہ سے
يَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْهُ ۖ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ (سورۃ القصص : ٢٦)
بنیادی طور پر آجکل بھی ملازمت کا معیار یا تو ذہانت ہوتی ہے یا پھر جسمانی قوت۔۔۔
تاہم دونوں قصوں میں مشترک چیز ایمان داری ہے۔
لطیف نکتہ یہ ہے کہ یوسف ؑ کے معاملے میں آیت میں امانت پہلے مذکور ہے جبکہ موسیٰ ؑ کے معاملے میں امانت بعد میں مذکور ہے۔
١٣) موسیٰ ؑ کے قصے میں ہدایات ہیں کہ مرد و عورت یا لڑکا و لڑکی کا باہمی تعلق کس نوعیت کا ہونا چاہیے؟ جب موسیٰ ؑ مدین پہنچے اور ایک بیٹی نے اشارۃً اپنے والد سے نکاح کا پیغام اور گھر میں موسیٰ ؑ کی خدمت کا لائحہ عمل رکھا۔۔۔۔ اور یہ کہ ایک لڑکی کس باوقار انداز میں نکاح کا پیام بھجوا سکتی ہے۔۔۔۔۔؟؟ اور یہ کہ لڑکیوں کی حیاء کس درجہِ کمال پر ہونی چاہیے۔۔۔؟؟ اور یہ کہ گھر سے باہر کس حد تک کام کاج کے لیے نکلنا چاہیے۔۔۔؟؟ اور یہ کہ مردوں کے معاشرے میں عورت کی چال میں حیاء ہونی چاہیے : تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاءٍ (سورۃ القصص : ٢٥)
جبکہ یوسف ؑ کے قصے میں اسی کے برعکس ہدایات ہیں کہ اصناف کے مابین تعلق کی کون سی نوعیت ممنوع ہے۔۔۔ مثلا بے شرمی انسان کو رفتہ رفتہ کس درجے تک گرا دیتی ہے۔۔۔؟؟ کس طرح بادشاہ کی بیوی اپنی غیرت سے جاتی رہی اور بالآخر اس حرکت نے خود بادشاہ کی بیوی کو ہی پھنسا دیا۔
۱٤) لسانی اعتبار سے بھی لطیف نکتہ یہ ہے کہ پورے قرآن میں لفظ "شیخ کبیر" دو ہی مرتبہ آیا ہے۔ ایک یوسف ؑ کے قصے میں اور دوسرا موسیٰ ؑ کے قصے میں۔ یوسف ؑ کے قصے میں یوسف ؑ کے بھائی اپنے والد کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ "شیخ کبیر" ہیں اس لیے بنیامین کے بدلے ہم میں سے کسی ایک کو سزا کے طور پر رکھ لیں۔ إِنَّ لَهُ أَبًا شَيْخًا كَبِيرًا (سورۃ یوسف : ٧٨)
اور موسیٰ ؑ کے قصے میں جب موسیٰ ؑ دونوں لڑکیوں سے معاملہ دریافت کرتے ہیں تو وہ جواباً کہتی ہیں کہ ہمارے والد "شیخ کبیر" ہیں اس لیے ہم اپنے مویشیوں کو پانی پلانے نکلے ہیں اور جب تک یہ لوگ پانی پر سے نہ ہٹ جائیں ہم پانی نہیں پلائیں گے۔
"شیخ" کہتے ہیں بزرگ آدمی کو۔۔۔ اور "کبیر" کہتے ہیں بڑے کو۔
"شیخ کبیر" یعنی بہت ہی زیادہ بزرگ۔ وَأَبُونَا شَيْخٌ كَبِيرٌ (سورۃ القصص : ٢٣)
ایک اہم درس یوسف ؑ کے قصے میں یہ بھی ہے کہ بعض مفسرین کے نزیک بنیامین و یوسف ؑ ایک بیوی سے تھے اور بقیہ بھائی دوسری بیوی سے۔ تو قرآن ہمیں درس دیتا ہے کہ یوں دو الگ خاندان جب ملتے ہیں تو کیا کچھ ہو سکتا ہے اور کس طرح سلجھایا جا سکتا ہے۔۔۔ مزید یہ کہ یہ عداوت اور حسد کس حد تک فطری رویہ کا نتیجہ ہو سکتا ہے اور کب نفس اور شیطان دخیل ہوتے ہیں۔۔۔
مزید یہ کہ "شیخ کبیر" کہہ کر یوسف ؑ کے بھائی ہمدردی چاہ رہے تھے۔ جبکہ دوسری طرف موسیٰ ؑ سے مخاطب دونوں لڑکیوں نے باوقار انداز میں اپنا معاملہ رکھ دیا۔ بلکہ یہ بھی کہا کہ ہمارے ابا "شیخ کبیر" ہیں جس کا ایک معنی یہ بھی نکلتا ہے کہ ہمارے ابا بہت بڑی چیز ہیں۔۔۔ اس لیے پیچھے ہٹو۔ ہم اپنا کام خود کر لیں گے۔
۱٥) اصل معاملے تک پہنچنے سے قبل ہی دونوں انبیاء اپنے اپنے بھائیوں سے ملتے ہیں
یعنی یوسف ؑ کے معاملے سے پردہ اٹھنے سے قبل ہی بنیامین اور بقیہ بھائیوں کا یوسف ؑ سے ملاقات ہو جاتی ہے۔
اور دوسری طرف موسیٰ ؑ کے فرعون سے مقابلے اور کلام سے قبل ہی اپنے بھائی ہارون ؑ سے ملاقات ہو جاتی ہے۔
١٦) یوسف ؑ اپنے بھائی کے لیے سہارا ہیں جبکہ موسیٰ ؑ نے سہارے کی خاطر اپنے بھائی کے لیے دعا کی
یوسف ؑ نبی ہیں جو خود اپنے بھائی بنیامین کے لیے سہارا بنے۔
اور موسیٰ ؑ نبی ہیں جنہیں سہارے کے لیے بھائی کی ضرورت پڑی تو انہوں نے اللہ پاک سے دعا کی۔
هَارُونَ أَخِي ﴿٣٠﴾ اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي ﴿٣١﴾ وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي (سورۃ طہ)
١٧) بادشاہ یوسف ؑ کی تجویز مان جاتا ہے۔ جبکہ موسیٰ ؑ جب بادشاہ یعنی فرعون کو اللہ کی طرف پکارتے ہیں تو فرعون موسیٰ ؑ کی بات نہیں مانتا۔
١٨) یوسف ؑ کا مشورہ اُن کی دنیا کی بہتری کے لیے تھا جبکہ موسیٰ ؑ کا مشورہ اُن کی آخرت کے لیے تھا۔
یوسف ؑ نے مصر کی بہتری اور خوشحالی کے لیے تجویز دی تھی سو وہ تجویز بادشاہِ وقت نے مان لی۔
اور موسیٰ ؑ نے بادشاہِ وقت کی آخرت کی بہتری کے لیے مشورہ یا تجویز دی تھی یا اپنی بات کہی تھی ۔ لہذا وہ بات فرعون نے نہ مانی۔
١٩) یوسف ؑ اپنے ساتھ وہ لائے جس نے مصر کی حکومت کو پارہ پارہ ہونے سے بچایا۔ جبکہ موسیٰ ؑ اپنے ساتھ وہ لائے جس نے مصر کی حکومت کو برباد کردیا
٢٠) بنیامین کو خاموش رہنے کا کہا گیا جبکہ مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ ہارون ؑ بھی خاموش ہی رہے گو کہ موسیٰ ؑ نے انہیں فصاحتِ لسانی کی خاطر اللہ سے طلب کیا تھا : هُوَ أَفْصَحُ مِنِّي لِسَانًا (سورۃ القصص : ٣٤)
٢١) بالکل متضاد کمال کا نکتہ یہ دیکھیں کہ یوسف ؑ کے قصے میں بادشاہ کہتا ہے : أَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِي یعنی میں یوسف کو اپنے لیے خاص کرتا ہوں جبکہ موسیی ؑ کے قصے میں فرعون کہتا ہے : ذَرُونِي أَقْتُلْ مُوسَىٰ یعنی چھوڑو مجھے تو میں موسیٰ کو قتل کردوں
٢٢) یوسف کے قصے میں یوسف ؑ جوابدہی طلب کرتے ہیں اپنے بھائیوں سے جبکہ موسیٰ ؑ کے قصے موسیٰ ؑ سے جواب طلبی کی جاتی ہے
ہر گھر میں ، سوسائیٹی میں ، معاشرے میں یا حکومت میں یوسف ؑ جیسے حضرات بھی ہو سکتے ہیں جنہیں اگر جج بنایا جائے یا معاملے کا حل مانگا جائے تو وہ انصاف کے ساتھ کام کریں ۔۔۔ جبکہ اس کے برعکس ایسے افراد بھی ہو سکتے ہیں جو فرعون کی طرح اپنی جہالت اور نا انصافی کا مظاہرہ کریں۔۔۔
٢٣) یوسف ؑ یاد دلاتے ہیں جو کچھ بھی ان کے بھائیوں نے کیا ہوتا ہے جبکہ موسیٰ ؑ کو یاد دلایا جاتا ہے جو کچھ موسیٰ ؑ نے کیا ہوتا ہے
٢٤) یوسف ؑ کے قصے میں بنی اسرائیل (یعنی یعقوب کے بیٹے) زیادتی کرنے والے ہیں جبکہ موسیٰ ؑ کے قصے میں بنی اسرائیل پر زیادتی ہوتی ہے۔
٢٥) یوسف ؑ کے بھائی سجدے میں گر جاتے ہیں جبکہ موسیٰ ؑ سے شکست کھائے ہوئے جادوگر سجدے میں گر جاتے ہیں۔
قرآن میں دو ہی جگہ انسانوں کا سجدہ کرنے کا ذکر ہے اور دونوں سجدے معجزے کے ہونے کے وقت میں ہوتے ہیں۔
٢٦) دنیا کی عظیم حکومت کا حصہ بنے حضرت یعقوب اور ان کی اولادیں یوسف ؑ کے قصے میں۔۔۔ اور موسیٰ ؑ کے قصے میں وہی بنی اسرائیل اب غلام اور ذلت کی زندگی بسر کرنے والے ہیں
لیکن بد میں اللو نی اسی ذلت سے بنی اسرائیل کو نکالا اور فرعون سے بھی بے پناہ زیادہ عظیم حکومت عطا فرمائی حضرت داؤود اور حضرت سلیمان علیہما السلام کی صورت میں۔
اللہ فرماتا ہے وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ (سورۃ آل عمران : ١٤٠) اور یہ دن ہیں جو ہم پھیرتے ہیں لوگوں کے درمیان
وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّـهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْأَرْضُ (سورۃ البقرۃ : ٢٥١) اگر اللہ بعض کے ذریعے بعض کو نہ ہٹائے تو زمین میں فساد ہو جائے۔
اللہ یہ سکھا رہا ہے کہ حکومتیں بدعنوان ہو جانے کی صورت میں اللہ تبدیلی لے آتا ہے۔
قرآن تاریخ کی کتاب نہیں ہے بلکہ یہ بتاتا ہے کہ تاریخ کس طرح کام کرتی ہے۔۔۔
اور اس کا براہ راست تعلق تہذیبی اور سیاسی علوم سے ہے۔
حدیث میں بھی ہے کہ میری امت پر وہی حالات آئیں گے جو بنی اسرائیل پر آئے جیسے ایک جوتا دوسرے جوتے پر fit آتا ہے۔ اسی لیے غور کریں کہ قرآن کا کتنا حصہ محض بنی اسرائیل سے متعلق ہے!
٢٧) دونوں قصوں میں بنی اسرائیل کھانے کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ یوسف ؑ کے قصے میں مصر آتے ہیں اور موسیٰ ؑ کے قصے میں مصر سے نکل کر
مزے کی بات یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی واقعات اس طرح بنائ ے ٠سنہیں کہ گویا کوئی مصنف کوئی فکشن لکھتا ہے۔ مثلا یوسف ؑ کو ان کے اپنے لوگوں نے ٹھکرایا اور موسیٰ ؑ کو بھی فرعون سے نجات کے بعد ان کے اپنے ہی لوگوں نے ٹھکرایا : لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَىٰ (سورۃ الاحزاب : ٦٩) لِمَ تُؤْذُونَنِي (سورۃ الصف : ٥)
٢٨) بنی اسرائیل کا داخلہ مصر میں ایک نبی کی قیادت میں ہوتا ہے اور مصر سے نکلتے ہیں تو بھی ایک نبی کی قیادت میں
٢٩)یوسف ؑ اپنے لوگوں کو معاف کردیتے ہیں اور ان کے ساتھ ان کا اتحاد ہو جاتا ہے جبکہ موسیٰ ؑ بالآخر اپنے لوگوں سے تنگ آ کر الگ ہونے کی دعا کرتے ہیں : فَافْرُقْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ (سورۃ المائدہ : ٢٥)
٣٠) یوسف ؑ کے قصے کا اختتام امن و آشتی اور اتحاد کے ساتھ ہوتا ہے جبکہ موسیٰ ؑ کے قصے کا اختتام معرکے اور جنگ و جدال پر ہوتا ہے
٣١) یوسف ؑ کے قصے میں ہمارے لیے سبق ہے اس بات کا کہ جب عورت (عزیز مصر کی بیوی) اپنی قوت اور قدرت کا غلط استعمال کرے تو کیا ہوتا ہے اور موسیٰؑ کے قصے میں سبق یہ ہے کہ جب مرد (یعنی فرعون ) اپنی قوت اور قدرت کا غلط استعمال کرے تو کیا ہوتا ہے
مزید یہ کہ اگر کوئی جھوٹا فریبی اور اللہ کا نا فرمان صحیح وقت پر بھی توبہ کا تائب ہو سکتا ہے اور ممکن ہے کہ موت کے وقت بھی توبہ کرے جبکہ توبہ کا دروازہ بند ہو گیا ہوتا ہے۔ عزیز مصر کی بیوی موت سے قبل تائب ہوتی ہے اور فرعون پانی میں غرق ہوتے وقت۔۔۔۔۔۔
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں