مطالعہ سورہ یوسف
"اپنے بھائیوں سے ذکر مت کرنا" ۔۔۔ حصہ اول
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
قَالَ يَا بُنَيَّ لَا تَقْصُصْ رُؤْيَاكَ عَلَىٰ إِخْوَتِكَ فَيَكِيدُوا لَكَ كَيْدًا ۖ إِنَّ الشَّيْطَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوٌّ مُّبِينٌ (5)
ترجمہ:
کہا اے بیٹے اپنا خواب اپنے بھائیوں کے سامنےنہ بیان کرنا وہ تیرے لیے کوئی نہ کوئی فریب بنا دیں گے بیشک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔
جیسا کہ اس تحریر کا عنوان ہے 'اپنے بھائیوں سے ذکر نہ کرنا'
یہاں پر اس بات کو بس مینشن کردینا کافی نہیں ہے کہ یعقوب علیہ السلام نے کہا "اپنے بھائیوں دے ذکر مت کرنا' بلکہ یہاں کچھ چیزیں ایسی ہیں ان کا ذکر کرنا اور ان کو تفصیلی بیان کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ ہماری ہدایت کا ذریعہ ہیں۔ اور یہاں ہی اہم بات یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی کا کا انداز بیان بہت منتخب ہوتا ہے تو اس کے لئے چھوٹی سے چھوٹی بھی چیز بیان کی گئی ہے اس پر ہماری توجہ ہونا ضروری ہے، یہ رویہ نہیں ہونے چاہیے کہ ہم سرسری طور سے سمجھ لیں اور آگے بڑھ جائیں۔
ہر آیت کے ایک چھوٹے سے لفظ پہ بھی رکیں اس پر تدبر کریں کہ اس لفظ کو استعمال کرنے میں اللہ تعالی کی کیا حکمت ہے۔
قرآن میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے
أَفَلَمۡ يَدَّبَّرُواْ ٱلۡقَوۡلَ
ترجمہ:
کیا انہوں نے اس ارشاد میں غور ہی نہیں کیا
تدبر لفظ دبر سے نکلا ہے ہے جس کے معنی 'پیچھے' کے ہیں
یعنی اللہ تعالی کوئی آیت بیان کرتے ہیں تو ان معنوں پر غور کرنا ضروری ہے جو ان الفاظ کے پیچھے چھپے ہیں کہ اس نے ہمارے لیے کیا پیغام ہے اور اس کے پیچھے کون سی حکمت پوشیدہ ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے نے یہی لفظ قرآن میں اسی جگہ پر کیوں رکھا اور میرے لئے اس میں کیا نصیحت ہے۔
یہ ضروری نہیں ہے کہ میں جس آیت کی تفسیر بیان کرتا ہوں یا کسی بھی آیت سے جو سبق اخذ کرتا ہوں ہو وہ صحیح ہو۔ یہ تو صرف انسانی کوشش ہے۔ مقصد یہ ہو کہ یہ کوشش مخلص ہونی چاہیے۔
یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ کسی بھی شخص کی بات یا اس کی بیان کردہ تفسیر اللہ کے کلام سے اوپر ہو نہیں ہو سکتی
اللہ تعالی کا کلام سب سے اونچا ہے اور ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اس کے کلام میں سے کچھ نہ کچھ اپنی نصیحت کے لیے نکالیں۔
ہمیں اللہ تعالی سے دعا کرنی چاہئے یہ اس کے کلام سے نصیحت حاصل کرتے وقت ہمارے دلوں کو نہ پھیرنا۔ انسان میں ایک عاجزی ہونی چاہیے جب وہ اللہ کے کلام کو کی تفسیر بیان کرے یا اپنے لیے کوئی نصیحت پکڑے۔
چلیں اب ہم آیت کی تھوڑی سی گہرائی میں جاتے ہیں۔
آیت کے شروع میں لفظ 'یَا بُنَیَّ' یعنی 'اے میرے بیٹے'، استعمال ہوا اس پر غور کرتے ہیں
جب ہم کسی کو عزت اور پیار دے کر مخاطب کرتے ہیں تو ایک ایسا رشتہ قائم ہو جاتا ہے جس میں سننے والا بہت غور سے آپ کی بات سنتا ہے۔
اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ کے والدین بچوں کے سامنے آپس میں ایک دوسرے کو اچھے الفاظ سے مخاطب نہیں کرتے
ایسے الفاظ کا انتخاب ہونا چاہیے جسے سن کر اگلے کو اچھا لگے،اسے سکون ملے۔
'میرے پیارے بیٹے کہاں ہو؟'
'میری بیٹی ادھر آئیے'
لیکن بچے کو بلانا اور اس سے کام لینا یا اس سے کوئی کام کروانا یہ تو دونوں صورتوں میں ہو جائے گا مگر جب اسے احسن انداز میں مخاطب کریں گے تو اس کے ذہن پر کیا اثر پڑتا ہے؟
جب بچہ یہ سنتا ہے کہ اسے پیار سے بلایا جا رہا ہے تو اس کے اندر خوف کے بجائے ایک اعتماد پیدا ہوتا ہے۔
کبھی کبھی ہم جب کسی بچے کو مشورہ دیتے ہیں یا سمجھاتے ہیں توہمارا انداز ہمارا رویہ اسے سمجھانے کا ایسا ہوتا ہے جس سے اسے لازمی طور پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ اسے عزت اور محبت نہیں دی جا رہی ہے
اگرچہ مشورہ بہت ہی اچھا ہوتا ہے مگر انداز بیاں ایسا ہوتا ہے کہ وہ اس مشورے کو پرکشش نہیں بناتا اور بچہ اسے سننا ہی نہیں چاہتا۔
اگر ہمارا مخاطب اچھے انداز میں ہوگا تو بچے کو بات سمجھانے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی اور بچہ بات بھی بڑے غور سے سنے گا اور اسے سمجھ بھی بہت آسانی سے آئے گی۔
اور جب بھی ہم اس آیت کا ترجمہ پڑھتے ہیں اس کا یہی مطلب آتا ہے کہ 'میرے پیارے بیٹے' ہم یہ پڑھ کر آگے نکل جاتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں بس ایک بیٹا تھا اور اور یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو مخاطب کیا اور آگے کی بات ہو گئی مگر یہ بہت ہی اہم نکتہ ہے کہ انہوں نے یابنی کہہ کر بیٹے کو بلایا۔ اللہ اس سے بھی ہمیں کچھ سکھارہے ہیں۔
یہ انداز تخاطب تبدیل نہیں ہونا چاہیے اگرچہ ہمارے بچے بڑے بھی ہو جائیں۔
تو جو والد خاص طور سے یہ سمجھتے ہیں کہ بچوں پر کنٹرول رکھنے کا طریقہ یہی ہے کہ ان سے ذرا سختی سے بات کی جائے۔ وہ دراصل اپنے اور بچے کے درمیان دیوار کھڑی کر رہے ہیں جو ان کے کردار کو تباہ کرے گی اور ان کے اندر اعتماد کا فقدان ہوگا۔
ہمیں یہ سمجھنا چاہیے حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی جو بھی واقعات ہوئے جو ہم قرآن کے ذریعہ پتہ چلے ہیں وہ اس یابنی کی بنیاد پر ہوئے تھے۔
یہ یابنی کا ہی اثر ہے کہ ایک چھوٹا بچہ آگے چل کر پوری قوم کو قحط سالی سے بچاتا ہے
کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہم کتنی نسلیں تباہ کر رہے ہیں صرف اپنے بچوں کو پیار سے مخاطب نہ کر کے؟
(یہ میرے اور آپ کے لیے بہت بڑا سوالیہ نشان ہے)
ہم کیا سمجھتے ہیں کہ ہمارا بچہ آنے والے وقت میں دنیا کے لیے کیا اچھائی لے کر آئے گا جبکہ بطور والدین ہمارا اس کے ساتھ رویہ کیسا ہے؟
یہاں ایک مزے کی بات یہ ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹے یوسف کو کہا کہ اس کا ذکر کسی سے نہیں کرنا۔ یعنی یہ نہیں کہا کہ فلاں کام کرو بلکہ پہلے منع کیا۔
لا تقصص رؤياك
یہ نہیں کہا کہ لاتخبر کہ "ان کو آگاہ نہیں کرنا"، یہ بھی نہیں کہا لا تقل کہ" تم بولنا نہیں" لا تحدث بھی نہیں کہا "کہ بات بھی نہیں کرنا"۔ بلکہ یہ کہا لا تقصص ۔۔ ابھی دو آیت پہلے اللہ تعالی نے یہی لفظ استعمال کیا تھا کہ
احسن القصص - بہترین قصہ
اور یہاں کہا ہے لا تقصص کی اپنے بھائیوں سے اس کا ذکر نہ کرنا۔
یعنی ایک طرف اللہ تعالی بہترین قصہ بیان کر رہے ہیں ہیں اور دوسری طرف یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹے کو کہہ رہے ہیں کہ یہ قصہ کسی کو نہیں بتانا
ہم اس سے کیا سیکھ رہے ہیں؟
اللہ تعالی کو علم ہے کہ کون سی بات کس کو کب بیان کرنی ہے۔
اور حضرت یعقوب علیہ السلام کو اللہ تعالی کی طرف سے یہ حکمت ملی ہوئی تھی جس کی وجہ سے انہوں نے یوسف علیہ سلام کو منع کیا کہ یہ قصہ بیان نہیں کرنا
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر بات ہر ایک کو بیان کرنے کی نہیں ہوتی۔
خاص طور پر جب اہل وعیال کا معاملہ ہو۔
اگر آپ کو معلوم ہے کہ کچھ لوگوں کے اندر کوئی مسئلہ ہے، کوئی منفی پہلو ہے، تو ضروری نہیں کہ ہر بات ان کو بتائے جائے، یا ان کے بارے میں سب کو بتایا جائے۔
اگر کسی کے رویے کی وجہ سے آپ کو ان پر اعتبار نہیں تو ضروری نہیں آپ ان کو ہر بات بتائیں۔ ۔
اگر آپ اس صورتحال سے پہلے گزر چکے ہیں کہ آپ نے کسی کو کچھ بتایا اور اس کا اس نے غلط فائدہ اٹھایا ہو تو اگلی بار آپ ایسا نہ کریں۔ احتیاط برتیں۔
ایک اور دلچسپی کی بات جس پر ہمیں توجہ کرنی ہے وہ یہ کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے لفظ رؤياك استعمال کیا ہے ہے جس کا مطلب ہے تمہارا خواب، یہ نہیں کہا کہ اس خواب کا ذکر نہیں کرنا، بلکہ کہا کہ اپنے خواب کا ذکر نہیں کرنا۔
کیوں؟
اس کا مطلب یہ ہے کی یوسف علیہ السلام ہی اس خواب کا مرکز ہیں۔ یہ خواب خود حضرت یوسف علیہ السلام کے اونچے مقام کی طرف طرف اشارہ کر رہا ہے جو کہ ان کے بھائیوں کو بالکل بھی پسند نہیں ہوگا۔
اور یہاں پر ایک قابل ذکر بات یہ ہے بالکل اسی طرح کا رویہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رکھا جا رہا تھا۔ اسی بنی اسرائیل کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں سامنا تھا جو اس حقیقت سے نفرت کرتے تھے کہ وحی ان کے اوپر کیسے اتری؟
أَن يُؤْتَىٰ أَحَدٌ مِّثْلَ مَا أُوتِيتُمْ
ترجمہ
جو چیز تم کو ملی ہے ویسی کسی اور کو ملے گی۔
تو یہی حسد حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کو تھا جو کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے بہت اچھی طرح بھانپ لیا تھا۔ اسی لئے جب حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنی بات شروع کی تو سب سے پہلے اپنے بیٹے کو اعتماد میں لیا اور یابنی کہہ کر بلایا
یہاں ہماری زندگی میں میں اس سے کیا سیکھنے کو ملا؟
پہلی بات تو یہ کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو یہ پتا تھا کہ ان کے بیٹوں میں حسد کا معاملہ ہے اس لیے انہوں نے یوسف علیہ السلام کو منع کیا۔ دوسری بات یہ کہ جب کسی گھر میں اس طرح کے معاملات ہوں تو اس کا ذکر ڈھکے چھپے الفاظ میں بچوں سے ان کی عمر کے مطابق بھی کرنا چاہیے۔ 'بیٹا آپ نے فلاں فلاں لوگوں سے دھیان سے ملنا ہے مجھے معلوم ہے کہ وہ آپ کے کزن ہیں لیکن آپ ان سے دھیان سے ملیں، احتیاب برتیں۔
اور مجھے معلوم ہے کہ یہ ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے کہ کسی بچے کو اس طرح کی بات سمجھانا۔ مگر بہت سی تحقیق اس مضمون پر ہو چکی ہیں، مسلم دنیا میں اور مغربی دنیا میں بھی کہ بچوں سے جنسی زیادتی کرنے والے اپنے قریبی ہی ہوتے ہیں۔ عید پہ یا کسی کی دعوت پہ اس طرح کے معاملات ہوتے ہیں جو بچوں پر بہت گہرا منفی اثر چھوڑتے ہیں جس سے ان کے اپنے مستقبل داؤ پر لگ جاتے ہیں۔ اور ہمیں بطور والدین اس چیز پر خاص نظر رکھنی پڑے گی۔
اور اس کے ساتھ ہی ہمارے ہاں ایک بہت ہی بے وقوفانہ سا تصور ہےکہ جب کوئی بچہ اس طرح کی شکایت لے کر والدین کے پاس آتا ہے تو والدین اس بچے کو بچانے کے بجائے اپنے خاندان کی عزت کا سوال کہہ کر خاموش کروا دیتے ہیں، کہ بیٹا تم میں ہی کوئی مسئلہ ہوگا اس طرح کی باتیں نہیں بولتے کسی کے بارے میں۔ اگر خاندان کی عزت کی اتنی ہی اہمیت ہوتی تو یعقوب علیہ السلام جو کے ایک نبی تھے سب سے پہلے اس بات کا ذکر کرتے۔
سمجھانا مقصود یہ ہے کہ ہر گھر میں مختلف حالات ہوتے ہیں اپنے بچوں کو ان کی عمر کے مطابق سمجھائیں۔
اگر ہم موازنہ کی طرف واپس جائیں تو حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ نے بھی احتیاطی تدابیر اختیار کی تھیں اور وہ کام کر گئی تھیں جبکہ یہاں بھی یعقوب علیہ السلام نے احتیاطی تدابیر کے طور پر پر منع کیا تھا کہ خواب نہیں بتانا مگر پھر بھی انہوں نے اپنے بیٹے کو کھویا۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں اپنی طرف سے پوری کوشش کرنی چاہیے باقی اللہ پر چھوڑ دیں دی کیونکہ جو اللہ تعالی نے تقدیر میں لکھ دیا ہے وہ تو ہو کر رہے گا۔
بہت سارے لوگوں میں یہ رویہ ہوتا ہے کہ جب کوئی کام کرنے لگتے ہیں تو کہتے ہیں کہ جو تقدیر ہوگا وہی ہونا ہے۔ نہیں ایسا نہیں ہے آپ کو اپنے حصے کا کام کرنا ہے اس کے بعد اللہ کے اوپر بھروسہ کرنا ہے۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں