رمضان ؛ قرآن اور خود احتسابی کا مہینہ
خطبہ جمعہ مسجد نبوی
امام و خطیب: پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی
ترجمہ: شفقت الرحمان مغل
بشکریہ: دلیل ویب
فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے (بمطابق رؤیت 23) 24رمضان 1439ہجری کا خطبہ جمعہ " رمضان؛ قرآن اور خود احتسابی کا مہینہ" کے عنوان پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ زندگی کا ہر لمحہ نیکی کرتے ہوئے اور گناہوں سے بچتے ہوئے گزرے تو حقیقی سعادت مندی ہے، انسان کو یہ دیکھنا چاہیے کہ کل کے لیے اس نے کیا تیاری کی ہے؟ کیونکہ یہ سوچ حدیث نبوی کے مطابق عقلمندی کی علامت ہے، انسان کو کسی بھی ایسے عمل سے بچنا چاہیے جس سے نیکیوں کا ثواب کم یا ختم ہو جائے۔ ماہ رمضان کے گنتی کے شب و روز باقی رہ گئے ہیں اس لیے شروع سے محنت کرنے والا شخص اللہ کا شکر ادا کرے اور مزید کے لیے توفیق مانگے، جبکہ ابتدا میں کوتاہی کرنے والا شخص اب بھی محنت کر کے کمی پوری کر سکتا ہے؛ کیونکہ اختتام کے مطابق نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ ابھی لیلۃ القدر پانے کے مواقع باقی ہیں اس ایک رات کی بندگی ہزار ماہ کی عبادت سے بھی افضل ہے۔ قرآن کریم اور رمضان کا بہت گہرا تعلق ہے، چنانچہ اسی ماہ میں قرآن نازل کیا گیا اور در حقیقت رمضان کی عبادات نعمت قرآن کے شکرانے کا مظہر ہیں۔ کسی بھی نعمت کے ملنے پر شکر گزاری شیوہ پیغمبری ہے، رسول اللہ ﷺ کی ساری زندگی اسی چیز کا مصداق تھی۔ قرآن کریم کا رمضان میں روح پر بڑا گہرا اثر ہوتا ہے؛ کیونکہ نفس امارہ روزے کی وجہ سے کمزور ہو چکا ہوتا ہے تو ایسے میں قرآن کی تاثیر کارگر ثابت ہوتی ہے۔ انہوں نے تمام مسلمانوں کو مخاطب کیا کہ کیا تم نے رمضان میں آخرت کی تیاری، ہڑپ شدہ مال کی واپسی، بد اخلاقی سے توبہ، صلہ رحمی، والدین کے ساتھ حسن سلوک، حرام اور سود خوری سے توبہ کر لی ہے؟ آج اپنا خود محاسبہ کر لو ورنہ کل کوئی اور تمہارا حساب کرے گا، انہوں نے کہا کہ قرآن کریم میں ہر طرح کے مسئلے کا حل موجود ہے چاہے وہ دنیاوی مسئلہ ہو یا دینی۔ دوسرے خطبے میں انہوں نے کہا کہ: فطرانہ ہر چھوٹے بڑے مرد و زن مسلمان پر واجب ہے ، اور یہ روزے کی کمی کوتاہی پوری کرتا ہے، اس کی مقدار تین کلو سے کم ہے جو علاقائی غذائی جنس کی شکل میں عید سے ایک یا دو دن قبل دی جا سکتی ہے، عید نماز کے بعد یہ عام صدقہ شمار ہو گا ۔
منتخب اقتباس:
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جو زمین اور آسمانوں کا پروردگار ہے، وہ نعمتیں اور برکتیں دینے والا ہے، ہماری بندگی سے اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، اور ہماری خطائیں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں، نیکی اور بدی کا نفع اور نقصان اِنہیں کرنے والے کو ہی ہوتا ہے، اور اللہ تعالی تمام مخلوقات سے بے نیاز ہے، میں اپنے رب کی حمد خوانی کرتا ہوں اور اس کی نعمتوں پر اسی کا شکر گزار ہوں، اللہ تعالی کی ایسی نعمتیں جنہیں ہم جانتے ہیں یا نہیں ہر نعمت کے بدلے حمد و شکر اسی کے لیے ہے، میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں، اس کے اچھے اچھے نام ہیں اور اس کی صفات عظیم ترین ہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے بندے ، اور اسکے رسول ہیں، آپ کی براہین اور معجزوں کے ذریعے تائید کی گئی، یا اللہ! اپنے بندے ، اور رسول محمد ، انکی اولاد اور نیکیوں کی طرف سبقت لے جانے والے صحابہ کرام پر اپنی رحمتیں ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔
مسلمانو!
محاسبہ نفس، عبادت کے لیے محنت، زیادہ سے زیادہ نیکیوں کا حصول ، اللہ تعالی کی توفیق سے کی جانیوالی نیکیوں پر دوام، عمل صالح کی توفیق اور نیکیوں کو ضائع کرنے والے اعمال سے اجتناب ؛ دنیا و آخرت میں عین سعادت مندی اور کامیابی کا باعث ہیں، فرمان باری تعالی ہے:
{وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى[40] فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى}
اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا، اور نفس کو خواہشات سے روکا [40] تو بیشک جنت ہی اسکا ٹھکانا ہوگی[النازعات : 40-41]
اسی طرح فرمایا:
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ}
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اور اپنے اعمال ضائع مت کرو۔ [محمد: 33]
امام ابن کثیر رحمہ اللہ ، اللہ تعالی کے فرمان: {وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ} اور ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل کے لیے کیا بھیجا ہے [الحشر: 18]
کی تفسیر میں کہتے ہیں: "تم خود اپنا محاسبہ کر لو اس سے قبل کے تمہارا محاسبہ کیا جائے، یہ دیکھ لو کہ تم نے اپنے لیے کتنے نیک عمل کیے ہیں جو روز قیامت تمہارے لیے مفید ہوں اور تم اُنہیں اپنے رب کے سامنے پیش کر سکو"
اور رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: (عقلمند وہ ہے جو اپنے آپ کو پہچان لے، اور موت کے بعد کے لیے تیاری کرے، اور وہ شخص عاجز ہے جو چلے تو نفسانی خواہشات کے پیچھے لیکن امیدیں اللہ سے لگائے۔)یہ حدیث حسن ہے۔
مسلمانو!
تم دیکھ رہے ہو کہ دن اور رات کس تیزی کے ساتھ گزرتے جا رہے ہیں، سالہا سال بھی کس قدر سرعت کے ساتھ گزر رہے ہیں، کوئی بھی دن گزرنے کے بعد دوبارہ کبھی واپس نہیں آئے گا، اور زندگی شب و روز کے گزرنے کا نام ہی تو ہے۔ اس کے بعد موت آ جائے گی اور تمام کی تمام امیدیں ختم ہو جائیں گی، تب خواہشات کا دھوکا سب پر عیاں ہو جائے گا۔
اب تک خیر و برکت والے مہینے کا اکثر وقت بیت چکا ہے، چند ایام، راتیں اور رحمت بھری معمولی سی ساعتیں باقی رہ گئی ہیں، پیوستہ دنوں میں جس نے خوب اچھی محنت کی ہے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرے کہ اللہ تعالی نے اسے نیکیاں کرنے کی توفیق دی اور ان کے لیے مدد بھی فرمائی، اسے چاہیے کہ اپنے اعمال کو ضائع کرنے والے امور سے بچائے، اور ثواب میں کمی کا باعث بننے والی چیزوں سے اجتناب کرے ، نیز ایسا کوئی کام نہ کرے جو اسے سزا کا مستحق بنا دے، گزشتہ دنوں میں کی ہوئی محنت کے بعد مزید بڑھ چڑھ کر محنت کرے۔
اور جو شخص گزشتہ دونوں میں کمی کوتاہی کا شکار رہا ہے تو وہ اب بھی کمر کس لے، اور بھر پور طریقے سے عبادت اور نیکیاں کرے تا کہ سابقہ کمی کوتاہی پوری ہو جائے؛ کیونکہ نتائج اختتام کے مطابق نکلتے ہیں۔
لیلۃ القدر پانے کی امید ابھی تک موجود ہے۔ گناہ جتنے بھی ہوں؛ اللہ تعالی کی رحمت ، مغفرت، حلم ، کرم اور معافی سے مٹ سکتے ہیں، ایک حدیث میں ہے کہ : (جو شخص لیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی امید سے قیام کرے تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں) اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
ابو مصعب احمد بن ابو بکر زہری کہتے ہیں کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے بتلایا کہ ان تک یہ بات پہنچی کہ: (رسول اللہ ﷺ کو سابقہ لوگوں کی عمریں دکھائیں گئیں، تو آپ کو اپنی امت کی عمریں بہت کم محسوس ہوئیں اور یہ کہ آپ کی امت اتنے زیادہ عمل نہیں کر سکے گی جو سابقہ امتوں کے لوگ لمبی عمروں کی وجہ سے کر چکے ہیں، تو اللہ تعالی نے آپ کو لیلۃ القدر عطا فرمائی جو ہزار ماہ سے بھی بہتر ہے)
اللہ تعالی کے حکمت بھرے عظیم فیصلوں اور وسیع رحمت میں یہ بھی شامل ہے کہ اللہ تعالی نے امت اسلامیہ پر ماہ رمضان کے روزے فرض قرار دئیے اسی میں قرآن بھی نازل کیا گیا ، پھر رسول اللہ ﷺ نے ماہ رمضان میں قیام فرمایا، اور امت کو بھی قیام کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: (جو شخص رمضان میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی امید سے قیام کرے تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں) اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
قرآن و سنت نے اس مبارک مہینے میں ہمہ قسم کی نیکیاں کرنے کی ترغیب دلائی ہے، چنانچہ اس مہینے کے روزے فرض قرار دئیے، قیام کے لیے ابھارا، اور دیگر نیکیاں کرنے کی ترغیب دی؛ یہ سب کچھ قرآن کریم جیسی نعمت کے ملنے پر اللہ کا شکر ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم کو جہان والوں پر رحمت کرتے ہوئے نازل فرمایا؛ کیونکہ قرآن کریم انتہائی عظیم ترین اور جلیل القدر نعمت ہے، یہ اللہ تعالی کا بے پناہ احسان ہے؛ قرآن کریم کے ذریعے روح کو غذا ملتی ہے، قرآن کریم امت اسلامیہ کے لیے اولین روحانی نعمت ہے، اس کے بعد ایمان کی نعمت کا درجہ ہے۔
چنانچہ اس امت میں سے جس شخص کو اللہ تعالی ایمان کی توفیق دے دے تو اسے اولین عمومی نعمت یعنی قرآن کریم اور اولین ذاتی نوعیت کی نعمت یعنی ایمان؛ دونوں ہی مل گئی ہیں۔
نعمتوں پر شکر کرنا اللہ تعالی کا ہم پر حق ہے، اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیے زبانی اور عملی ہر دو طرح سے کوشش کریں، اور نعمت عطا کرنے والے اللہ تعالی سے محبت بھی کریں، اس بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ (1) فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ}
بیشک ہم نے آپ کو خیر کثیر عطا کی [1] پس آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں۔[الكوثر: 1، 2]
اور کوثر کا معنی ہے وسیع ،برکتوں والی مسلسل بھلائی ؛ اسی بھلائی میں نہر کوثر بھی شامل ہے۔ تو اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کی رہنمائی فرمائی کہ خیر و بھلائی حاصل ہونے پر اللہ تعالی کا حق ادا کرنے کیلیے نماز اور دیگر عبادت بروئے کار لائیں؛ تا کہ اس میں آپ ﷺ کا بھی فائدہ ہو اور شکر بھی ادا ہو ۔
اللہ تعالی نے بھی آپ ﷺ کو شکر گزار بننے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
{بَلِ اللَّهَ فَاعْبُدْ وَكُنْ مِنَ الشَّاكِرِينَ}
بلکہ آپ صرف اللہ ہی کی عبادت کریں اور شکر گزاروں میں شامل رہیں۔ [الزمر: 66]
آپ ﷺ سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا تھا: "اللہ کے رسول! آپ اتنی لمبی نماز کیوں پڑھتے ہیں کہ آپ کے قدم سوج جاتے ہیں؟! حالانکہ اللہ تعالی نے آپ کی گزشتہ و پیوستہ ساری لغزشیں بھی معاف فرما دی ہیں!" تو آپ ﷺ نے فرمایا : (تو کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنو؟!) بخاری، مسلم
قرآن کریم کا رمضان میں روح پر بڑا گہرا اثر ہوتا ہے، چنانچہ قرآن روح کی بھلائی کی جانب رہنمائی کرتا ہے، اسے ہمہ قسم کی برائی سے روکتا ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس وقت نفس امارہ روزے کی وجہ سے کمزور ہو جائے اور روح کو قرآن سے غذا ملے تو انسانی روح میں بہتری آتی ہے۔
اے مسلم!
اپنے آپ کو پرکھو، کیا تم نے رمضان میں توبہ کر لی ہے؟
کیا رمضان میں موت کے بعد والی زندگی کے لیے کچھ کیا ہے؟
کیا تم نے غصب شدہ مال واپس کر دیا ہے، اور آئندہ لوٹ کھسوٹ سے باز آ گئے ہو؟
کیا تم اپنی حرکتوں سے باز آ گئے ہو؟
کیا تم نے لوگوں کے ساتھ اچھا برتاؤ شروع کر دیا ہے؟
کیا تم نے صلہ رحمی شروع کر دی ہے؟
کیا تم اپنے والدین سے حسن سلوک شروع کر چکے ہو؟
کیا تم نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینا شروع کر دیا ہے؟
کیا تم نے سود خوری اور حرام خوری سے اپنے آپ کو روک لیا ہے؟
کیا تم نے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور صحابہ و تابعین کے نقش قدم پر چلنا شروع کر دیا ہے؟ کہ وہ رمضان میں صاف ضمیر، اعلی کردار، ایمان میں اضافے اور پختہ یقین کی دولت سے سرفراز ہو تے تھے، [کیا تم بھی یہ دولت پا رہے ہو؟]
اپنا نامہ اعمال دنیا میں خود ہی پڑھ لو ، اس سے قبل کہ تمہیں آخرت میں کہا جائے :
{اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا}
خود ہی اپنی کتاب پڑھ لے۔ آج تو خود ہی اپنا حساب لینے کو کافی ہے۔ [الإسراء: 14]
قرآن کریم اللہ تعالی کی عظیم ترین نعمت ہے، قرآن کریم کو اللہ تعالی نے رمضان میں نازل فرمایا، اور مسلمانوں کے حالات کی بہتری قرآن و سنت سے ہی ممکن ہے، دنیا جہان کے اول تا آخر تمام مفکرین، زندہ اور مردہ سب کے سب بھی کسی بحران کے حل کے لیے جمع ہو جائیں تو انہیں اس کا حل قرآن کے بغیر نہیں ملے گا، آپ اللہ تعالی کے بارے میں عقیدے کے مسائل ہی دیکھ لیں، اسما وصفات ، اللہ تعالی کے افعال ، اور عبادت سے متعلق اللہ تعالی کے حقوق ؛ ان سب امور کے متعلق آپ کو کتنے نظریات ملیں گے؟ انہیں شمار نہیں کیا جا سکتا ، تو ان تمام نظریات میں سے حق وہی ہے جو قرآن کریم نے کہہ دیا ہے۔
اب یہ تو نہیں ہو سکتا ہے کہ سب کے سب لوگ ہی مسلمان ہو جائیں، تاہم مسلمانوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ خود کتاب و سنت پر مضبوطی سے عمل پیرا ہوں، جس وقت لوگ مسلمانوں کو -چاہے دنیاوی امور میں ہی سہی -عملی میدان میں بطور نمونہ دیکھیں گے تو وہ بھی مسلمانوں سے استفادہ کریں گے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى (14) وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى}
وہ کامیاب ہو گیا جس نے اپنا تزکیہ کر لیا، اور اپنے رب کا نام لیا اور نماز پڑھی۔[الأعلى: 14، 15] سیدنا عمر بن عبد العزیز سے مروی ہے کہ وہ لوگوں کو فطرانہ ادا کرنے کا حکم دیتے تو یہ آیت پڑھتے تھے۔
فطرانہ ہر چھوٹے، بڑے، مرد، عورت پر فرض ہے، فطرانہ عید سے ایک یا دو دن پہلے تک دیا جا سکتا ہے، فطرانہ روزے دار کو لغویات سے پاک کرتا ہے اور دوران روزہ جو کچھ کمی کوتاہی ہوئی ہو اسے پورا کر دیتا ہے، جو شخص فطرانہ نماز عید سے پہلے ادا کر دے تو اس نے وقت پر ادا کر دیا، جبکہ نماز کے بعد ادا کرنے پر وہ عام صدقہ ہو گا۔
یا اللہ! دنیا و آخرت میں ہم تجھ سے عفو، عافیت، اور دائمی معافی کے طلب گار ہیں۔
یا اللہ! ہمارے سب معاملات کے نتائج بہتر فرما، اور ہمیں دنیا و آخرت کی رسوائی سے محفوظ فرما۔
یا اللہ! تو نے جن نیکیوں کی ہمیں توفیق دی اور تو نے جن نیکیوں کو بجا لانے کے لیے مدد فرمائی ہے۔ یا اللہ! ہماری وہ تمام نیکیاں ہم سے قبول فرما، یا اللہ! ان نیکیوں کو ہم سب مسلمانوں کے لیے محفوظ بھی فرما لے، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہم تجھ سے اس ماہ کے بہترین اختتام کا سوال کرتے ہیں، یا اللہ! ہم تجھ سے دعا گو ہیں کہ اس مبارک مہینے کو ہم سب مسلمانوں کے لیے ماہ خیر و برکت بنا دے، یا اللہ! ہر ماہ رمضان کو ہم سب مسلمانوں کے خیر و برکت والا بنا دے۔ یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! ہم تجھ سے اس ماہ کے بہترین اختتام کا سوال کرتے ہیں، یا اللہ! ہم تجھ سے دعا گو ہیں کہ اس مبارک مہینے کو ہم سب مسلمانوں کے لیے ماہ خیر و برکت بنا دے، یا اللہ! ہر ماہ رمضان کو ہم سب مسلمانوں کے خیر و برکت والا بنا دے۔ یا ارحم الراحمین!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں