رمضان کے بعد بھی ایمان کی مٹھاس - خطبہ عیدالفطر مسجد نبوی (اقتباس) ۔۔۔ 15 جون 2018

رمضان کے بعد بھی ایمان کی مٹھاس 
خطبہ عیدالفطر مسجد نبوی (اقتباس)
امام و خطیب: ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم
ترجمہ: شفقت الرحمان مغل
بشکریہ: دلیل ویب

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ نے یکم شوال 1438 کا خطبہ عیدالفطر "رمضان کے بعد بھی ایمان کی مٹھاس" کے عنوان پر مسجد نبوی میں ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی کوشش کرنے والوں کی قدر فرماتا ہے اور رمضان میں عبادات کرنے والوں کو ایمان  کی مٹھاس چکھا دیتا ہے، یہ مٹھاس شرح صدر، قلبی وسعت، دل کی صفائی اور  دیگر معنوی اور حسی خوبیوں کی صورت میں ہوتی ہے، انہوں نے کہا کہ    دین اسلام سے محبت، اللہ کی معرفت، اللہ اور اس کے رسول سے محبت اور  تقدیری فیصلوں پر ایمان بھی اسی میں شامل ہے۔ ہرقل نے بھی اس بات کا اقرار کیا تھا کہ ایمانی مٹھاس  اگر دل میں رچ جائے تو نکلنے کا نام نہیں لیتی، اور یہ اسلام کی حقانیت کی دلیل بھی ہے۔ اسی مٹھاس کی وجہ سے اہل ایمان کی دنیاوی، برزخی اور اخروی تمام زندگیاں امن و امان کی دولت سے مالا مال ہوتی ہیں۔ وحدانیت الہی کا اقرار، حقیقی معرفت الہی، نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا،  روزے رکھنا ،حج کرنا، عبادت اور اعلی اخلاق کے ذریعے تزکیہ نفس، حصول علم نافع، اللہ کا ذکر، قرآن کریم کی تلاوت، قرآنی تعلیمات پر عمل، ایمانی حلاوت کیلیے دعا، تقدیر پر ایمان ، اور کثرت کے ساتھ نفل عبادات وغیرہ   ایمانی حلاوت کے ذرائع ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ: مومن ایمانی حلاوت سے کبھی سیر نہیں ہوتا، مومن ہمیشہ اس میں اضافے کی کوشش میں رہتا ہے۔ گناہوں کی کڑواہٹ اسی وقت محسوس ہوتی ہے جب دل میں ایمان کی مٹھاس ہو، اس وقت انسان کسی کی مدح کا اسیر نہیں ہوتا اور انسان رضائے الہی کو مقدم رکھتا ہے۔ ایمانی مٹھاس کے لیے انسان ہر قسم کی دنیاوی تکلیفیں جھیلنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ عبادت کے باوجود اگر کسی کو ایمانی مٹھاس نہ ملے تو انسان اپنی عبادت اور نیت پر نظر ثانی کرے؛ کیونکہ اللہ تعالی کسی کی محنت ضائع نہیں فرماتا۔ تنہائی میں گناہوں سے دوری حقیقی ایمانی مٹھاس کا باعث بنتی ہے، انہوں نے یہ بھی کہا  کہ اس پر تعجب نہیں کہ کس کو اطاعت کی لذت نہیں ملتی! تعجب تو اس پر ہے جو عبادت کی لذت پانے کے بعد عبادت چھوڑ دے! آخر میں انہوں نے مختصراً عید کے متعلق نصیحتیں فرمائیں اور شوال کے چھ روزوں کی ترغیب دلا کر دعا فرمائی۔

منتخب اقتباس:

یقیناً تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اسی کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی اسی سے مانگتے ہیں، نفسانی اور بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالی ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد -صلی اللہ علیہ وسلم -اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلامتی نازل فرمائے۔

سلمانو!

قدر دانی اور کرم نوازی اللہ تعالی کی صفات ہیں، اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے عبادت گزاروں کو عبادت کے اثرات دنیا میں بھی دکھا دیتا ہے تا کہ جنت کے وعدے لوگوں کے لیے سچے اور پکے ہو جائیں۔

ماہ رمضان میں لوگ رب العالمین کی رحمتوں اور نعمتوں سے خوب بہرہ ور ہوئے کہ ان کا اللہ تعالی سے ناتا استوار رہا، ان کی شرح صدر ہوئی، دل پاکیزہ ہو گئے؛ تا کہ لوگ سارا سال اپنے رب کی عبادت پر ثابت قدم ہو جائیں اور ایسی نعمتیں ہر شخص کو مل جائیں جو ان کا مقصود اور مطلوب ہیں، جن کی بدولت دلی مسرت اور خوشی ملتی ہے، ساری مخلوقات ایسی نعمتوں کی تمنا کرتی ہیں۔ اور ان نعمتوں میں سے کامل ترین نعمت یہ ہے کہ انسان اسلام کا علم حاصل کرے اور پھر اس پر عمل پیرا ہو؛ کیونکہ مسلمان ہی دنیا، برزخ اور آخرت میں دائمی نعمتیں حاصل کریں گے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ} 
یقیناً نیک لوگ[ہمیشہ]نعمتوں میں ہوتے ہیں۔[الانفطار: 13]

اللہ تعالی نے انہیں دنیا میں سعادت اور اجر دونوں سے نوازا؛ لیکن آخرت کا اجر بہت عظیم اور بڑا ہو گا: فرمانِ باری تعالی ہے:
 {لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِينَ}
 اچھے کام کرنے والوں کے لئے اس دنیا میں بھی بھلائی ہے اور آخرت کا گھر تو ہی بہت بہتر ہے۔ اور وہ پرہیز گاروں کے لئے کیا ہی اچھا گھر ہے ۔[النحل: 30]

دنیا میں اللہ تعالی کی مسلمانوں پر سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ انہیں دین کی محبت عطا کی، دین کو دلوں کی زینت بنایا، اپنی اطاعت کی مٹھاس انہیں دی، اس طرح ان کا باطن بھی دینی عقائد اور حقائق سے پیراستہ ہو گیا، ان کا ظاہر دینی احکامات کی تعمیل سے آراستہ ہو گیا، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ}
 اللہ نے تمہیں ایمان کی محبت دی اور اس کو تمہارے دلوں میں سجا دیا [الحجرات: 7] 
اس لیے ہر وقت اللہ تعالی کی جانب توجہ، انابت، اللہ تعالی اور اس کے فیصلوں پر رضا مندی فوری ثواب کا باعث اور دنیا کی جنت ہیں۔

اہل ایمان لوگوں میں سب سے اچھی زندگی گزارتے ہیں، ان کے حالات بہت اچھے ہوتے ہیں، ان کی شرح صدر ہو چکی ہوتی ہے، ان کے دل سب سے زیادہ مسرور ہوتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (62) الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ} 
سن لو ! یقیناً اللہ کے دوستوں پر، نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے [62] یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لاتے ہیں اور تقوی اپناتے ہیں۔ [يونس: 62، 63]

دنیا میں ایسی کوئی لذت اور نعمت نہیں ہے جس کا مقام اللہ تعالی کی معرفت اور اللہ تعالی کی پہچان سے زیادہ ہو، چنانچہ جس وقت انسان اپنے رب کو پہچان لے تو انسان اللہ سے محبت کرنے لگتا ہے اور اسی کی بندگی کرتا ہے۔

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اللہ کے فضل اور رحمت پر خوشی اللہ تعالی کی ذات سے خوش ہونے کے تابع ہے؛ اسی لیے مومن اپنے رب پر اتنا راضی ہوتا ہے کہ کسی اور چیز سے اتنا خوش نہیں ہوتا، دل کو اسی وقت حقیقی فرحت ملتی ہے جب اللہ کی ذات سے خوش ہونے کی لذت پا لے اور اس کے اثرات چہرے پر رونما ہو جائیں"

عبادت اور اخلاقی برتری کے ذریعے تزکیہ نفس کامیابی کا راز ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا} 
کامیاب ہو گیا وہ شخص جو اپنا تزکیہ کر لے۔[الشمس: 9]
 اسی طرح اللہ تعالی کی جانب دعوت دینے والا شخص بھی کامیاب ہے، وہ دائمی نعمتوں اور خوشیوں میں رہے گا، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ}
 تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف لائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے اور یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔ [آل عمران: 104]

سب سے عظیم ذکر قرآن کریم ہے ، یہ مومنوں کے لیے ہدایت ، شفا اور رحمت ہے، قرآن کریم اللہ تعالی کی ایسی دولت اور رحمت ہے جس کے ذریعے بندے فرحت پاتے ہیں فرمانِ باری تعالی ہے:
 {وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَفْرَحُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ}
 اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ آپ کی طرف نازل کی گئی وحی سے خوش ہوتے ہیں۔[الرعد: 36]

یہی وجہ ہے کہ جس وقت مومن آیات کی تلاوت سنتا ہے تو خوشی سے نہال ہو جاتا ہے؛ کیونکہ مومن کو ان آیات سے اطمینان اور سکون ملتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{وَإِذَا مَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَذِهِ إِيمَانًا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ} 
اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو بعض منافقین کہتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان کو زیادہ کیا؟  تو جو لوگ ایماندار ہیں اس سورت نے ان کے ایمان کو زیادہ کر دیا ہے اور وہ خوش ہو رہے ہیں [التوبۃ: 124] 
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اگر آپ اپنے اور کسی دوسرے میں اللہ کی محبت جانچنا چاہتے ہیں تو دل میں قرآن سے محبت اور تلاوت سننے پر ملنے والی لذت کو دیکھ لیں"

اللہ کے اطاعت گزار بندے اس وقت تک نعمتوں میں رہیں گے جب تک کمال درجے کی نعمت یعنی جنت نہیں پا لیتے، پھر جنت میں بھی اعلی ترین نعمت یہ ہو گی کہ اللہ سبحانہ و تعالی کا دیدار ہو اور اللہ تعالی کی گفتگو اللہ تعالی سے سنیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جب اللہ تعالی حجاب ہٹائے گا، تو جنتیوں کو اللہ کا دیدار تمام حاصل شدہ نعمتوں سے زیادہ محبوب ہو گا۔) مسلم

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعا میں فرمایا کرتے تھے: 
 (وَأَسْأَلُكَ لَذَّةَ النَّظَرِ إِلَى وَجْهِكَ وَالشَّوْقَ إِلَى لِقَائِكَ 
 [اور میں تجھ سے تیرے چہرے کے دیدار کی لذت اور تیری ملاقات کا شوق چاہتا ہوں]) نسائی

ایمان کی مٹھاس ایک بار پا لینے والا اس سے سیراب نہیں ہوتا، اسی لیے وہ مزید نیکیوں کی کوشش کرتا ہے اور ان نیکیوں کے اثرات اس کی زبان اور اعضا پر رونما ہوتے ہیں، وہ کسی بھی ایسے کام سے محفوظ ہوتا ہے جو اسے دینی طور پر نقصان پہنچائیں، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ أُولَئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ} 
لیکن اللہ نے تمہیں ایمان کی محبت دی اور اس محبت کو تمہارے دلوں میں سجا دیا۔ اور کفر، عناد اور نافرمانی سے نفرت پیدا کر دی ۔ ایسے ہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ [الحجرات: 7] 
ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں: "جس وقت دل ایمان کی مٹھاس پا لے تو اسے کفر، فسق اور گناہوں کی کڑواہٹ بھی محسوس ہوتی ہے۔

جس وقت انسان کو ایمان کی مٹھاس مل جائے تو پھر وہ لوگوں کے ستائشی کلمات کا رسیا نہیں  رہتا، اللہ تعالی اسے دین پر ثابت قدمی عطا کرتا ہے، اور زیادہ سے زیادہ دائمی عبادات کرنے کی توفیق سے نوازتا ہے۔

بندے کو اس وقت اطاعت گزاری سے مانوسیت ہوتی جب وہ اپنے دین اور اپنی عبادت پر سب سے زیادہ خوشی کا اظہار کرے، اللہ اور اس کے رسول کی سختی کے ساتھ اطاعت کرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اس شخص نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا جو اللہ تعالی کو اپنا رب مان لے، اسلام کو اپنا دین مان لے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول مان کر راضی ہو جائے)مسلم

نفس کو حرام کاموں سے روکنے پر ہی لذت اور سلامتی حاصل ہوتی ہے، حرام کاموں کی طرف نظر اٹھانا در حقیقت ابلیس کے تیروں میں سے ایک تیر ہے، اگر کوئی شخص اللہ کے خوف سے ان پر نظر بھی نہ ڈالے تو اللہ تعالی اسے ایسا ایمان عطا کرتے ہیں جس کی لذت وہ اپنے دل میں محسوس کرتا ہے، امام مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اللہ تعالی کی حرام کردہ چیزوں سے صرف نظر اللہ کی محبت پیدا کرتا ہے"

ان تمام تر تفصیلات کے بعد: مسلمانو!

لوگوں کو نعمتیں ،مسرتیں اور خوشیاں اسی وقت ملیں گی جب وہ اللہ کی معرفت حاصل کریں اور اس سے محبت کریں، اللہ کی اطاعت پر فرحت محسوس کریں ۔ تو آخرت میں ان کے لیے نعمتیں جنت اور دیدار الہی کی صورت میں ہیں، تو یہ دو طرح کی جنتیں ہیں دوسری جنت میں وہی جائے گا جو پہلی جنت میں داخل ہو گا۔ اگر کسی شخص کو اطاعت گزاری میں لذت نہیں ملتی تو وہ اپنے آپ اور اپنے کردار کو قصور وار ٹھہرائے؛ کیونکہ اللہ تعالی تو ہر عبادت گزار کی عبادت کی قدر فرماتا ہے۔

مسلمانو!

عید کے دن مسلمانوں کی خوشیاں دوبالا ہو جاتی ہیں، اس دن اللہ کی نعمتیں اور عنایتیں عیاں ہوتی ہیں، اس لیے عید کے دن خوشی اور مسرت کا اظہار کریں، اپنے آپ اور اہل خانہ پر شرعی دائرے میں رہتے ہوئے دل کھول کر خرچ کریں، عید کی خوشی میں بھی تقوی اور اللہ کو مت بھولیں، اللہ کی عنایتوں پر اس کا شکر ادا کریں۔

اللہ تعالی کو اپنے بندوں سے ایسے اعمال پسند ہیں جو دائمی کئے جائیں چاہے وہ کم ہی کیوں نہ ہوں۔ جو شخص ماہ رمضان کے پورے روزے رکھنے کے بعد شوال کے چھ روزے بھی رکھے تو گویا اس نے پورا سال روزے رکھے۔

یا اللہ! ہمارے روزے اور قیام قبول فرما۔

یا اللہ! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔

یا اللہ! ہم نے اپنی جانوں پر بہت زیادہ ظلم ڈھائے ہیں اگر توں ہمیں معاف نہ کرے اور ہم پر رحم نہ فرمائے تو ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔

آمین یا رب العالمین


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں