وقت کا مصرف اور افغانستان میں جنگ بندی
خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)
امام و خطیب: ڈاکٹر عبد اللہ بن عبد الرحمن بعیجان
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل
بشکریہ: دلیل ویب
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد اللہ بن عبد الرحمن بعیجان حفظہ اللہ نے 08 شوال 1439 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں "وقت کا مصرف اور افغانستان میں جنگ بندی" کے عنوان پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ وقت کی قدر کرتے ہوئے چند دنوں کی زندگی میں خوب نیکیاں کر لیں یہ عقلمندی کی علامت ہے، اگر کوئی شخص اللہ تعالی کے قریب ہونے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کے مزید قریب ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ: رمضان کے بعد بھی وقت کی قدر کریں اور تلاوت ، قیام اور نفل روزوں کا اہتمام کرتے رہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ماہ شوال میں چھ روزے رکھا کرتے تھے اور ان کی بدولت پورا سال روزے رکھنے کا ثواب مل جاتا ہے۔ وقت اور دولت دونوں کو ضائع ہونے سے بچانا پڑتا ہے، لیکن دولت جمع تو ہو جاتی ہے وقت جمع نہیں ہوتا، اس لیے وقت کی اہمیت دولت سے زیادہ ہے۔ اپنے وقت کو کار آمد بنانے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ وقت کہاں اور کیسے صرف کرے۔ مومن کی ساری زندگی اللہ تعالی کی بندگی میں گزرتی ہے۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں وقت کو مفید سرگرمیوں سے بھر پور رکھیں، اسے واجبات سے پہلو تہی اور لہو و لعب میں ضائع مت کریں۔ اپنی اولاد کو وقت کی قدر اور اسے مثبت سرگرمیوں میں صرف کرنا سکھائیں؛ وگرنہ بچے لاپرواہی اور انحراف کا شکار ہو جائیں گے۔ انسان سے زندگی کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ کہاں گزاری؟ فراغت اور صحت دو ایسی نعمتیں ہیں جن کی لوگ قدر نہیں کرتے، گرمیوں کی چھٹیوں میں شرعی دائرے میں رہتے ہوئے سیر و تفریح کوئی بری چیز نہیں ہے، تاہم انسان کو ان کا اسیر نہیں ہونا چاہیے۔ آخر میں انہوں نے افغانی بھائیوں کی جانب سے جنگ بندی کو سارے عالم اسلام کی جانب سے خوش آئند قرار دیا اور اس جنگ بندی کو مزید آگے بڑھانے پر زور دیا ، نیز افغانی جنگجوؤں کو صلح اور معافی تلافی کی ترغیب بھی دلائی اور آخر میں سب کے لیے دعا فرمائی۔
●~* منتخب اقتباس ●~*
مسلم اقوام!
تقوی الہی اختیار کرو اور زندگی گزرنے سے پہلے دل کھول کر بندگی کر لو، اپنی بات کو اپنے عمل سے ثابت کر دکھاؤ؛ کیونکہ انسان کی حقیقی زندگی وہی ہے جو اللہ تعالی کی اطاعت میں گزر جائے، عقل مند وہی ہے جو اپنے آپ کو جانچ لے اور موت کے بعد کی تیاری رکھے، وہ شخص عاجز ہے جو چلے تو اپنے نفس کے پیچھے لیکن امیدیں اللہ تعالی سے لگائے۔
اللہ کے بندو!
تم نے ماہ رمضان کو الوداع کہہ دیا، رمضان فضیلتوں، نیکیوں اور مغفرت سے بھر پور مہینہ تھا؛ اگر ہمیں کسی کے بارے میں معلوم ہو جائے کہ اسے پروانہ قبولیت مل گیا ہے تو ہم اسے مبارکباد دیں اور دھتکارے ہوئے شخص کے ساتھ افسوس کریں۔ اللہ تعالی آپ سب کی بندگی قبول فرمائے اور آپ کے گناہ معاف فرمائے، آپ کے اجر میں اضافہ فرمائے۔
راہ الہی پر ڈٹ جائیں اور اللہ تعالی کا قرب حاصل کریں؛ کیونکہ عبادت پر استقامت نیکیاں قبول ہونے کی علامات میں شامل ہے، اللہ کے ہاں اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کیلیے فرائض کی پابندی سے بڑھ کر کوئی عمل محبوب نہیں، بندہ نفل عبادات کی ذریعے قرب الہی کی جستجو میں لگا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالی اس سے محبت کرنے لگتا ہے، جو شخص اللہ تعالی کے ایک بالشت قریب ہو تو اللہ تعالی اس کے ایک ہاتھ قریب ہو جاتا ہے اور جو شخص اللہ تعالی کے ایک ہاتھ قریب ہو تو اللہ تعالی اس کے ایک گز قریب ہوتا ہے، اور جو اللہ تعالی کے پاس چل کر آئے تو اللہ تعالی اس کے پاس دوڑ کر آتا ہے۔
اس لیے فرائض کی پابندی کرو، قرآن کریم کو مت چھوڑو، قیام اللیل اور گرمیوں میں بھی روزے رکھنے کا اہتمام کرو، سفیان بن عبد اللہ ثقفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: "اللہ کے رسول! مجھے اسلام کے متعلق ایسی بات بتلائیں کہ آپ کے بعد کسی سے کچھ نہ پوچھوں" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم کہو: میں اللہ پر ایمان لایا، اور پھر اس پر ڈٹ جاؤ)
مسلم اقوام!
وقت اور دولت دونوں کی یکساں حفاظت کرنی پڑتی ہے، ان دونوں کو صرف کرنے کے لیے میانہ روی اور سوچ بچار سے کام لینا پڑتا ہے، تاہم دولت کو جمع اور ذخیرہ کرنا ممکن ہے؛ بلکہ اس میں افزودگی بھی ہو سکتی ہے، لیکن وقت میں یہ سب کچھ نہیں ہوتا؛ اس لیے زندگی کا ایک منٹ اور لمحہ گزر جانے کے بعد کبھی بھی واپس نہیں آئے گا چاہے آپ اس کو واپس لانے کے لیے دنیا بھر کی دولت خرچ کر دیں۔
پھر چونکہ وقت موت تک میسر ہے، ہر شخص کی عمر متعین کی جا چکی ہے اس میں کسی قسم کی تقدیم و تاخیر ممکن نہیں، اور وقت کی قیمت اس میں کیا جانے والا کام متعین کرتا ہے؛ تو ہر انسان پر یہ واجب ہو جاتا ہے کہ اپنے وقت کا خیال کرے، اسے خوب اچھے طریقے سے کام میں لائے، وقت تھوڑا ہو یا زیادہ اس کے استعمال میں کوتاہی کا شکار نہ ہو۔
اللہ کے بندو!
زندگی چند دنوں کی ہے، موت تک وقت بہت مختصر ہے۔ ماضی قصہ پارینہ بن گیا اور آنے والی چیز آ کر رہے گی۔ زندگی کا ہر لمحہ نیکیاں کرنے کی بہار ہے، اس لیے نیکی سر انجام دینے کے لیے کوتاہی کا کوئی موقع نہیں، زندگی کا ہر لحظہ امتحان اور آزمائش ہے لہذا خامی یا تاخیر کی بھی کوئی گنجائش نہیں۔ اس مختصر سی زندگی کے ذریعے انسان جنتوں میں دائمی اور ابدی زندگی خرید سکتا ہے، نہ ختم ہونے والی سرمدی زندگی حاصل کر سکتا ہے، جبکہ اس کے مد مقابل جو شخص بھی اس میں کوتاہی کرے تو وہ ہلاکت اور خسارے میں جائے گا۔
اس لیے عقلمند کو چاہیے کہ اپنی زندگی کی اہمیت پہچانے، اپنے معاملات کی بدولت ملنے والا فائدہ جانچ لے اور پہلے ایسے معاملات پر توجہ کرے جن کا بعد میں ادراک ممکن نہ ہو؛ کیونکہ بسا اوقات ان کے چوک جانے سے انسان تباہ ہو جاتا ہے۔
مسلم اقوام!
آپ گرمیوں کی چھٹیاں گزار رہے ہیں یہ ذہنی سکون، حقوق کی ادائیگی، معافی تلافی سمیت مستقل قریب اور بعید کی تیاری کا نادر موقع ہے۔ گرمیوں کی چھٹیاں ذمہ داریوں اور واجبات سے پہلو تہی، حق تلفی، لہو و لعب میں غرق ہونے، نفس پرستی کے انبار لگانے ، اور اپنے کندھوں پر گناہوں کا بوجھ اٹھانے کا موقع نہیں ہوتیں۔
اس لیے اپنے اہل خانہ اور اولاد کے بارے میں اللہ سے ڈریں، انہیں وقت کی اہمیت سکھائیں، وقت کو مفید سرگرمیوں میں صرف کرنے کی تربیت دیں، حصول علم یا کسی فن کے سیکھنے میں اسے صرف کریں، مثلاً: حلال روزی کے لیے اسے استعمال میں لائیں، اللہ ذو الجلال کی عبادت میں اسے صرف کریں، اور یہی حقیقی معنوں میں مردانہ تربیت ہے۔
اللہ کے بندو!
یقیناً اللہ تعالی تم سے تمہاری زندگی کے بارے میں پوچھے گا کہ کہاں گزاری اسی لیے(اس وقت تک بندے کے قدم ہل نہیں سکیں گے جب تک اس سے قیامت کے دن چار سوال نہ کر لیے جائیں: جوانی کہاں گزاری؟ زندگی کہاں ختم کی؟ مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ اور علم حاصل کر کے اس پر کتنا عمل کیا؟)
لہذا ہر شخص اپنے آپ سے لازمی استفسار کرے کہ جب اس سے یہ سوال پوچھا جائے گا تو اس کے ذہن میں اس کا کیا جواب ہو گا؟ وہ کون سا ایسا عمل ہے جو اس نے اپنی جوانی اور زندگی کے ایام میں کیا اور اس سوال کے جواب میں اس عمل کو پیش کر سکے؟
اس لیے اللہ کے بندو! اس سوال کا جواب تیار رکھو اور جواب بھی صحیح تیار کرو۔
اللہ تعالی ہمیں اور آپ سب کو ان لوگوں میں شامل فرمائے جو باتیں سن کر بہترین بات پر عمل پیرا ہوتے ہیں ، یہی لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالی نے ہدایت دی ہے اور یہی لوگ عقل والے ہیں۔
اللہ کے بندو!
عقل مند اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ اس کی سانسیں چلتے ہوئے اس کی عمر کو فضول ضائع کر دیں اور وہ اپنے ان قیمتی لمحات کو دنیاوی یا دینی اعتبار سے استعمال میں نہ لائے، وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ فراغت بہت بڑی نعمت ہے بشرطیکہ اسے صحیح استعمال میں لایا جائے، اور اگر اسی کا استعمال غلط ہو تو یہی فراغت بہت بڑی زحمت بھی بن جاتی ہے؛ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے متعلق بہت سے لوگ دھوکے میں ہیں: صحت اور فراغت)
اس لیے وقت ضائع کرنا دینی اعتبار سے غبن اور عیب ہے، یہ کمزور عقل اور پاگل پن کی علامت ہے، بہت سے لوگ وقت ضائع کرنے میں مبتلا ہیں، اس لیے خود بھی وقت ضائع کرنے سے بچیں اور اپنے ماتحت افراد کو بھی بچائیں، زندگی کے ان قیمتی لمحات کو اپنے لیے غنیمت سمجھیں اور انہیں بھر پور استعمال کریں، ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: (پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے قبل غنیمت سمجھو: جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، صحت کو بیماری سے پہلے، ثروت کو غربت سے پہلے، فراغت کو مصروفیت سے پہلے، اور زندگی کو موت سے پہلے)
تربیت کرنے والو!
فضول خرچی اور گناہوں کے بغیر سیر و تفریح، لطف اندوزی، اور آرام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، نیز تفریحی سرگرمیوں کے دوران یہ بھی ملحوظ خاطر رہے کہ حقوق اور واجبات کی ادائیگی میں کمی نہ آئے تو یہ جائز اور مباح تفریحی سرگرمیوں میں شامل ہے، اس سے انسان ایک بار پھر تر و تازہ اور چاق و چوبند ہو جاتا ہے۔
بعد ازاں : مسلم اقوام!
مسلمانوں کے درمیان پائی جانی والی لڑائیاں، دست و گریبان ، نفرتیں، اور اختلافات بہت ہی تکلیف دہ چیزیں ہیں، ان سے دل کڑھتا ہے، کلیجہ منہ کو آتا ہے، یہ قلب پر انتہائی بار گراں ہیں۔
مسلمانوں کے خون کا تحفظ ، مسلمانوں کی جانوں کا تحفظ ، مسلمانوں کی عزت آبرو اور املاک کا تحفظ اولین مقاصد شریعت میں شامل ہے، یہ دین کے مسلمہ اصولوں میں سے ہے، بلکہ فطرت سلیم بھی اسی چیز کا تقاضا کرتی ہے۔
پورا عالم اسلام ہمارے افغانی بھائیوں کے درمیان صلح اور مصالحت کا خواہاں ہے، اور افغانی بھائیوں کے مابین ہونے والی جنگ بندی کو خوش آئند قرار دیتا ہے۔ حالیہ دنوں میں ہونے والی جنگ بندی طویل ترین جھڑپوں، لڑائیوں، اختلافات ، اور جھگڑوں کے بعد میسر ہوئی ہے، ان جھڑپوں میں معصوم بچے اور خواتین بہت زیادہ متاثر ہوئے، بے گناہ شہری اللہ تعالی سے گڑگڑا کر نجات مانگتے تھے۔
افغانی بھائیو!
صلح میں ہی خیر ہے، اس لیے اللہ سے ڈریں اور باہمی مصالحت کر لیں، ایک دوسرے کی غلطیاں اور کوتاہیاں معاف کر دیں؛ کیونکہ {إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ} بیشک مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں، اس لیے تم اپنے بھائیوں کے مابین مصالحت کرواؤ[الحجرات: 10] اور اسی طرح فرمایا: {وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ} جو صبر کرے اور معاف کر دے تو یہ بہت بڑی ہمت کا کام ہے۔[الشورى: 43] اس لیے مسلمانوں کی جانوں کو تحفظ دینے کے لیے انفرادی مفادات سے دستبرداری کی بہت بڑی فضیلت ہے، یہ بذات خود بہت بڑا اجتماعی مفاد ہے، یہی بے باکی، شجاعت، اور کمال درجے کی بہادری ہے۔
اللہ تعالی آپ سب کو متحد کر دے، آپ کو یک زبان کر دے، جو باہمی اختلافات ہیں انہیں اللہ تعالی ختم کر دے، تمہارے دلوں میں الفت ڈال دے، آپ کے ملک میں فتنہ پروری اور شدت پسندی کو بھسم فرما دے۔
یا اللہ! مسلمانوں کے حالات سنوار دے، یا اللہ! پوری دنیا میں مسلمانوں کے حالات سنوار دے، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہمارے ملک کو اور دیگر تمام اسلامی ممالک کو امن و استحکام کا گہوارہ بنا دے، یا اللہ! ہمیں ہمارے خطوں میں امن و امان عطا فرما، یا اللہ! ہمارے حکمرانوں کی اصلاح فرما ۔
آمین یا رب العالمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں