مطالعہ سورہ یوسف ۔۔۔ احسن القصص -- حصہ اول

مطالعہ سورہ یوسف 
"احسن القصص"  حصہ اول


آج ہم سورہ یوسف کی تیسری آیت کا مطالعہ کریں گے

نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ هَٰذَا الْقُرْآنَ وَإِن كُنتَ مِن قَبْلِهِ لَمِنَ الْغَافِلِينَ
ترجمہ
ہم بیان کرتے ہیں تم سے ایک بہترین قصہ اسی ذریعے سے جس سے بھیجا ہے ہم نے تمہاری طرف یہ قرآن اگرچہ تم تھے اس سے پہلے بے خبروں میں

اس آیت میں بہت سے مخفی اور پر اثر حقائق ہیں جن پر ہمیں غور کرنا ہے. یہ سورہ یوسف کی ابتدائی آیات ہیں. ان آیات کے بعد حضرت یوسف علیہ السلام کے قصہ کا باقاعدہ آغاز ہو جاتا ہے. ان آیات میں اللہ تعالیٰ ہمارے ذہن کو کہانی شروع کرنے سے پہلے بطور تمہید تیار کر رہے ہیں.

یہ قصہ قران کے اہم ترین واقعات میں سے ہے. تو اللہ اس واقعہ پر زور دینے کے لیے ہمارے ساتھ یوں مخاطب ہیں:
حن نقص"
عربی میں ہم صرف نقص بول کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے بیان کیا. مگر اللہ نے اس کے ساتھ" نحن" کا لفظ بھی استعمال کیا ہے جس کا مطلب ہے" بے شک ہم نے"
تو یوں اس آیت میں لفظ " ہم" پر زور دیا گیا ہے. جس سے مراد یہ ہے کہ یہ قصہ کسی پیغمبر نے نہیں بلکہ بذات خود اللہ نے بیان کیا ہے.
ایک اور پوائنٹ یہ کہ صرف اس واقعہ کی معلومات ہی نہیں. اس واقعہ کو بیان کرنے کا طریقہ کار بھی اللہ کا ہے.
ایک چیز ہوتی ہے کہانی یعنی کہ کسی واقعہ کہ حقائق جو کہ بدلتے نہیں
جبکہ دوسری چیز ہے اس کو بیان کرنے کا طریقہ جو کہ ہر ایک کے لحاظ سے الگ الگ ہے. اللہ ان آیات میں فرماتا ہے کہ ان آیات کو، اس کہانی کو اور اس کو بیان کرنے کا طریقہ بھی فقط میرا ہی ہے.
پچھلی آیات میں ہم نے پڑھا کہ انا انزلنا القران عربیا، "بے شک ہم نے اس قرآن کو عربی میں نازل کیا. تو اس آیت کے تناظر میں یہ سمجھ آتا ہے کہ
یہ آسمانی کتاب کی آیات ہیں اور ہم نے ان کو قران کی صورت میں نازل کیا جو عربی میں ہے اور اس قران میں اللہ تعالیٰ بذات خود اس قصہ کو بتا رہے ہیں. سو آسمانی کتاب سے شروع ہو کر حضور پر اس کتاب کو وحی کرنا اور پھر اس میں یہ کہانی بیان کرنا اس پوائنٹ کی طرف مرکوز کرنے کے مترادف ہے. یعنی zoom in کرنا ہے. یعنی پہلے بڑی اور وسیع چیز اور پھر آہستہ آہستہ چھوٹی اور مزید چھوٹی چیز کی طرف جانا ہے.
لفظ قصص کی بھی بہت اہمیت ہے. جسکا مطلب ہے کہ ہم تمہیں اپنے بہترین قصوں میں سے ایک قصہ سناتے ہی‍ں
اس لفظ کو ہمیں غور سے دیکھنا ہے. عربی لفظ ہے قصہ جو کہ" کہانی" کے معنوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے. مگر کہانی کے لیے قران میں لفظ" اسطور" استعمال کیا گیا ہے. یا اسکی جمع "اساطیر" استعمال کی گئی ہے. اساطیر کا لفظ یونانی زبان کے لفظ "اسطوریہ" سے نکلا ہے. اور یونانی زبان کے لفظ اسطوریہ سے وجود میں آیا ہے. اور یونانی زبان سے یہ لاطینی زبانوں اور اور انگریزی میں کہانی یعنی "سٹوری" بن گیا. اور یہی لفظ عربی میں اساطیر کے طور پر "عظیم لوگوں کی کہانیوں" کے طور پر استعمال ہوا.
مگر ان آیات میں لفظ" اساطیر" کی بجاۓ" قصص" استعمال ہوا ہے. قصہ ایک ایسی کہانی ہے جو میں داستان گو مرحلہ وار کہانی بیان کرتا ہے. تو قصہ کے معنی قدم بہ قدم یا مرحلہ وار کے ہیں. اور اسی مطلب کے ساتھ یہ لفظ سورۃ القصص میں استعمال ہوا۔ جب حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ نے حضرت موسی علیہ السلام کی کی بہن کو کہا کہ وہ قدم بہ قدم ان کی تقلید کریں. قدم بہ قدم کے لیے اس موقع پر "قُصِہِ" کا لفظ استعمال ہوا ہے.

تو اس کا مطلب ہوا کہ کہانی گو جو آپ کو کہانی سنا رہا ہے وہ اس چیز کا فیصلہ کرتا ہے کہ کونسی چیز آپ کو پہلے بتائی جائے اور کونسی چیز آپکو بعد میں بتائی جاۓ گی.
تو قصہ گو صرف اس چیز کا فیصلہ نہیں کر رہا کہ سامعین کو کیا بتانا ہے بلکہ اس چیز پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ سننے والا اسے کیسا محسوس کریں. کونسا لفظ پہلے اور کونسا لفظ بعد میں آئے گا. کونسا کردار پہلے اور کونسا کردار بعد میں آئے گا. اگر دو ہی عمل ایک ساتھ وقوع پذیر ہورہے ہیں تو کونسا منظر پہلے اور کونسا منظر بعد میں آئے گا. اس سب کو منظر کشی یا story boarding کہتے ہیں.

تو سورہ یوسف میں منظر کشی کرنے والی ذات اللہ کی ہے. اور یہ اس واقع کی خاصیت ہے. ایک اور چیز جو بہت اہم ہے وہ یہ ہے کہ جب کوئی آپ کو کوئی کہانی سناۓ اور ایک خاص طریقہ سے سنائے. یا کہ کوئی اس کہانی میں کیا کیا ہوا کے بارے میں معلومات دے دے یہ دو الگ چیزیں ہیں.

یہ ایک مضحکہ خیز مثال ہو گی مگر یہ اس آیت کے ایک اور پہلو کو وا ضح کر دے گی.
جب میں نیو یارک میں سنڈے اسکول ٹیچر تھا. میرے پاس ٹین ایجر بچوں کا ایک گروپ تھا. ہمارے ساتھ والی کلاس میں 8 سے 12 سالہ بچے تھے. مسجد میں کلاسز کے الگ الگ کمرے نہیں تھے بلکہ ایک ہی ہال میں مصنوعی دیوار لگا کر کلاسز کو الگ کیا گیا تھا. تو اپنی کلاس میں رہتے ہوۓ آپ دوسری کلاس کو دیکھ سکتے تھے. بلکہ ان کو سن بھی سکتے تھے.
تو ایک دن ان کا ٹیچر ان کو سورہ یوسف پڑھا رہا تھا. جبکہ ہم اپنا پڑھ رہے تھے. مگر میں اس کو سن سکتا تھا. وہ کہہ ریا تھا.
"تم لوگوں کو پتا ہے سب سے بہترین کہانی کونسی ہے؟"
کون بتائے گا سب سے بہترین کہانی کونسی ہے؟"
تمام بچوں نے پرجوش ہو کر ہاتھ کھڑے کر دیئے. ان میں سے ایک نے جواب دیا" ڈریگن بال"
دوسرے نے کہا یہ والی نہیں
تیسرے نے کہا" ٹرانسفارمرز "
یہاں تک کہ بچے ایک دوسرے کے ساتھ بحث میں لگ گئے کہ ان میں سے بہترین کہانی کونسی ہے. جبکہ ٹیچر بہت حیرانی کے ساتھ یہ سب دیکھ رہا تھا. کیونکہ اسے یہ امید تھی کہ جب وہ بچوں سے پوچھے گا تو وہ فوراً جواب دیں گے "سورۃ یوسف". مگر ایسا نہیں ہوا!

تو اللہ نے اسے " احسن القصص" کہا ہے. کہ وہ ہمیں بہترین قصہ سنا رہا ہے. اس طرح سے اسکا ہر قصہ، ہر فلم، ہر ڈرامہ، ہر کہانی کے ساتھ براہ راست مقابلہ میں ہے. اللہ فرماتے ہیں کہ یہ کہانی کسی بھی تخلیق کردہ کہانی سے بہترین ہے. جب کوئی آپ سے کہتا ہے کہ آپ کی پسندیدہ کہانی یا فلم وغیرہ کونسی ہے. تو ہم سب کا مختلف جواب ہوتا ہے. آپ سائنسی طریقہ کار سے یا کسی بھی طریقے سے اس چیز کو ثابت نہیں کر سکتے کہ فلاں کہانی بہترین ہے. نہ ہی آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ نے کہا اس لیے یہ کہانی بہترین ہے.
کہانی کے بہترین ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ آپ کے وہ آپ کے احساسات اور اعصاب پر کس قدر طاری ہے. آپ اس سے کس قدر لطف اندوز ہوتے ہیں. اور آپ اس کو کتنی بار دوبارہ پڑھنا یا دیکھنا چاہتے ہیں.
لوگوں کو جو کہانی سب سے بہترین لگتی ہے وہ اسے 25، 26 مرتبہ دیکھتے ہیں. میں نے اور میرے بچوں نے finding nemo) (ایک کارٹون فلم) تقریباً 25 مرتبہ دیکھی ہے. اگر آپ کو کوئی چیز لطف اندوز کرتی ہے یا وہ خوشی دیتی ہے تو آپ اس کو بار بار دیکھتے ہیں. یہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ آپ اس کہانی کو پسند کرتے ہیں.

سوال یہ ہے، ہم کیسے دعویٰ کریں کہ یہ ہماری پسند یدہ کہانی ہے!

نہ تو یہ ایک سائنسی بحث ہے اور نہ منطقی (لاجیکل) اور نا ہی کوئی حسابی سوال کہ کوئی اس چیز کو ثابت کر سکے کہ فلاں کہانی اس کی پسندیدہ ہے. اس کے لیے مجھے اور آپ کو قرآن کا ایک بغور جائزہ لینا ضروری ہے.

واقعات کا مقصد

قرآن نے ہمیں یہ واقعات کسی خاص مقصد کے تحت سناۓ ہیں. قرآن کے ہر لفظ کا ایک خاص مقصد ہے.. اور وہ خاص مقصد کیا ہے؟
مقصد انسانیت کی رہنمائی ہے جو کہ انسان کے لیے ناگزیر ہے۔
تو یہ رہنمائی ہماری ضرورت ہے، یہ کہانیاں ہماری ضرورت ہیں نہ کہ قصوں کی صورت میں ہمیں لطف اندوز کرنے کے لیے ہے. نہ ہی ان قصوں کا مقصد فن کی جانب توجہ مرکوز کروانا ہے. یہ تمام چیزیں بیک وقت ہو سکتی ہیں مگر جو چیز ضروری ہے وہ قرآن کا اصل مقصد ہے. اور وہ انسانیت کی رہنمائی ہے. کوئی بھی آیت کوئی بھی کہانی، کوئی بھی سورت، کوئی بھی حکم رہنمائی کے مقصد سے خالی نہیں ہے.
اور جب یہ قصہ سنایا جا رہا ہے تو اللہ ہمیں کہہ رہے ہیں کہ وہ ہمیں سب سے بہترین واقعہ سنا رہے ہیں اور اس سے بہتر کوئی قصہ یا تخلیق نہیں کرسکتا. اور اس سطر کا ہر کردار، ہر سطر ہر واقعہ بے شمار لوگوں کے لیے موجب ہدایت ہے. اس میں بے شمار نسلوں، اور بے شمار سماجوں اور ثقافتوں کے لیے ہدایت ہے. اور یہ تمام اسی ایک ہی کہانی سے ہدایت حاصل کریں گے. اس کہانی کی ہر سطر ہر واقعہ ان تمام لوگوں کی زندگی کو بہتر کر سکتا ہے اور ان کی زندگی تبدیل کر سکتا ہے. اور کوئی اور ذات اس کی قدرت نہیں رکھتی سواۓ اللہ تعالیٰ کے۔

جاری ہے ،،، 

تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں