مطالعہ سورہ یوسف ۔۔۔ کتاب اور قرآن -- حصہ دوم


مطالعہ سورہ یوسف
" کتاب اور قرآن" حصہ دوم




اب ہم اگلی آیت کی طرف جاتے ہیں۔

'ہم نے اس قرآن کو عربی میں تمہارے سمجھنے کے لیے نازل کیا۔'

تعقلون کا مطلب ہے شاید وہ سمجھیں، اور اس کا مطلب یہ بھی ہے شاید وہ سوچیں۔ سوچنے اور سمجھنے میں فرق ہوتا ہے۔

اب یہاں نوٹس کریں پچھلی آیت میں اللہ نے اس کو کتاب کہا ہے، اور اس آیت میں قرآن، مطلب اللہ بتارہے ہیں، کہ وہ کتاب جو آسمان پر اللہ نے لکھی ہوئی تھی، اب وہ اس دنیا میں قرآن بن کر بھیجا گیا ہے عربی میں، (قرآن کہتے ہیں بار بار پڑھی جانے والی کتاب کو، اس کتاب کو آگے جا کر بار بار پڑھا جانا ہے)۔ اللہ نے بس یہ نہیں کہا کہ اللہ نے قرآن اتارا عربی میں، بلکہ آگے یہ بھی کہا کہ 'شاید تم سمجھو، عقل کرو'

اس کا ایک مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ یہود کو بتایا جارہا ہے کہ یہ کتاب عربی میں ہے، سو یہ سب کچھ محمد صلى الله عليه وسلم بائبل یا تورات سے پڑھ کر نہیں سنارہے، ( آگے یوسف علیہ السلام کی کہانی بائبل یا تورات سے نہیں لی گئی، )، بلکہ یہ عربی میں ہے اور اللہ کی طرف سے سنائی جارہی ہے۔

اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ قرآن (ایسی کتاب جو بار بار اونچی آواز سے پڑھی جائے) کو بھیجنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اس کو بار بار بار بار پڑھا جائے، اس کی تلاوت کی جاتے۔ اس کی تلاوت کو خوبصورت بنایا جائے۔

لیکن یہاں ایک سوال اٹھتا ہے، کہ اللہ نے اس وقت عرب کے لوگوں کو تو بتایا کہ قران کو ان کے سمجھنے کے لئے عربی میں نازل کیا، لیکن یہ کتاب تو بعد میں آنے والی ہر جنریشن کے سمجھنے کے لئے ہے نا؟ تو اگر آج 2020 میں،

میں عربی نہیں ہو اور مجھے عربی نہیں آتی تو اس میں میرا کیا قصور ہے؟ میں کیسے اس کو سمجھ سکتا ہوں

جبکہ اللہ نے کہا اس نے سب کے لئے یہ کتاب نازل کی۔ یہ ایک بہت پیچیدہ سوال ہے۔

مجھے عربی سیکھنے کے بعد اس سوال کے جواب میں کچھ نکات ملے ہیں۔

پہلی بات یہ کہ اللہ نے عربی زبان کو اسلئے قران کے لئے منتخب کیا کہ یہ ایک بہت زیادہ امیر و کبیر زبان ہے، اس میں ایسے ایسے ایکسپریشنز اور الفاظ ہوتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے، اس میں آپ چند الفاظ میں گہری بات کرجاتے ہیں، اس میں الفاظ، جملے، اکسپریشنز کا ایسا ذخیرہ ہے کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

This is just a linguistics analogy. 

دوسری بات، عمر ابن خطاب نے کہا تھا 'عربی سیکھو کیونکہ یہ تمہارے سوچنے کی صلاحیت کو نکھارے گا۔' لیکن عمر رضی اللہ عنہہ تو عرب کے تھے نا؟ پھر انہوں نے لوگوں کو ایسا کیوں کہا؟ 

کیونکہ جب ان کا دور حکومت آیا اور اسلام عرب سے باہر پھیلنے لگا، تو ان کومحسوس ہوا کہ عربی زبان کو گہرائی میں سیکھنے کا رحجان ختم ہورہا ہے، اس کا مطلب یہ کہ اللہ کے الفاظ کو سمجھنے والی زبان کا رحجان ختم ہورہا ہے۔ اور پھر عربی سیکھنے پر زور دینے، اور اسلام کی اشاعت کے بعد دنیا میں ہر جگہ عربی مسلمانوں کی زبان بنتی گئی، اسلام کی زبان بتی گئی۔ مومنوں کی پہچان بنتی گئی۔ یہ بس عربیوں کی زبان نہیں رہی، یہ قرآن والوں کی زبان بن گئی ہے۔ یہ ہم سب کی زبان ہے۔ درحقیقت عربی کی کچھ بہترین کتابیں (گرامر اور زبان کے لحاظ سے) جو لکھی گئی ہیں، وہ غیر عربیوں نے لکھی ہیں۔

مذاہب کی تاریخ میں کوئی ایک انسان ہوتا ہے جو مذہب کی نمائندگی کرتا ہے، جیسے پنڈت، پوپ، وغیرہ۔۔۔۔۔ یہ لوگ عوام الناس کی نسبت اپنے مذہب کے زیادہ نزدیک مانے جاتے ہیں۔ لوگ ان کے پاس آتے ہیں اپنے خداؤں سے رابطہ کرنے کے لئے۔

آپ کو پتا ہے ایسا کرنے سے کیا ہوتا ہے؟

میں آپکو مثال سے سمجھاتا ہوں۔ 

جب آپ کی گاڑی خراب ہوتی ہے، آپ مکینک کے پاس جاتے ہیں، وہ اس کی ہر چیز چیک کرتا ہے، اس کے پرزے دیکھتا ہے، آپ کو نہیں پتا وہ کیا کررہا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ وہ آپکی لاعلمی کا فائدہ اٹھا کر آپ کی گاڑی میں کوئی غلط پرزہ ڈال دے، یا آپ کو گاڑی کو کسی غلط جگہ پہنچا دے؟ بالکل ممکن ہے۔

اور ماضی میں سب مذاہب کے ساتھ یہی ہوتا آیا ہے، مذہب کے نمائندگان یہ تک فیصلہ کرتے کہ کون جنتی ہے اور کون جہنمی۔

اس کے مقابلے میں ایک اور انتہا کا لیول یہ تھا کہ جس کا دل کرتا ہے جیسے مرضی بایبل پڑھے اور اپنا مطلب نکال لے، اس سے یہ ہوا کہ ایک کتاب میں سے ہر کسی کا اپنی پسند کا مطلب نکل آیا۔ سب نے اپنے خود کے احساسات کے مطابق کتاب کا مطلب نکال لیا۔ سو ایک کتاب سب کے سب مقاصد پر پورا اترنے لگی۔

سو اللہ یہاں بتارہے ہیں کہ میں نے اس کو عربی میں اتارا، اب دنیا میں کوئی بھی، کہیں سے بھی پڑھے گا، اس کے لئے کسی بھی لفظ کا مطلب وہی ہوگا جو باقی دنیا کے پڑھنے والوں کے لئے ہے۔ آپ 'المبین' کا ترجمہ ڈھونڈ رہے ہیں، آپ سب کو ایک ہی ترجمہ ملے گا۔۔۔۔۔ سو اللہ نے قرآن عربی میں اتارا تاکہ آپ سب اس کو سمجھ سکیں۔ اور اگر آپ کو عربی نہیں آتی، لیکن اللہ نے آپ کو دماغ تو دیا ہے نا سیکھنے کے لئے۔ تو اس کو سیکھیں، اور اگلی دفعہ کوئی آپ کو کسی آیت کا مطلب بتائے تو آپ پوچھ سکیں کہ اس کا مطلب ایسے کیوں ہے؟ وہی اللہ جس نے قران اتارا ہے عربی میں، سورہ رحمان کہتا ہے کہ اس نے انسان کو بیان (کلام) (speech) سکھایا۔ سو اس نے عربی میں قرآن اتارا، اور یہ بھی بتادیا کہ وہ ہر زبان بھی سکھاتا ہے، اب آپ زبان سیکھیں تاکہ آپ کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں نکھار آئے، کیونکہ عمر بن الخطاب نے کہا تھا نا۔۔۔۔

اب ہم لوگ کیا کرتے ہیں، ہم نے ایک قاری صاحب کو رکھا ہوا ہے جو آکر ہمارے بچوں کو بنیادی قرآن پڑھنا سکھا دیتے ہیں، پھر ہم دعوتوں کا اہتمام کرتے ہیں کہ جی ہم نے قرآن ختم کرلیا،،،،، نہیں آپ ختم ہوئے ہیں، قرآن ختم نہیں ہوا۔ قران ختم نہیں ہوتا۔ قرآن بھی بھلا ختم ہو سکتا ہے؟

 ہمیں لگتا ہے عربی ساؤنڈز قرآن ہے، غلط،،،، عربی زبان قرآن ہے۔

آپ نے کبھی سوچا ہے وہ تمام لاکھوں، کروڑوں لوگ جو قرآن حفظ کرتے ہیں، اگر ان کو پتا ہو کہ جو وہ پڑھ رہے ہیں اس کا مطلب کیا ہے، تو ہماری امت میں کتنی بڑی تبدیلی آسکتی ہے؟ ہمارے بچوں کو یہ فکر ہوتی ہے کہ تراویح میں ان کی آواز اچھی ہو، لیکن یہ نہیں پتا ہوتا کہ ہم پڑھ کیا رہے ہیں۔ اگر یہ سب حفاظ قرآن حفظ کرنے کے ساتھ ساتھ قران کو سمجھنے لگ جائیں تو سوچیں کتنی بڑی تبدیلی آئے گی اس پوری امت میں۔ ہم لوگ قرآن یاد کرنے والے نہیں، بلکہ قرآن سینوں میں لے کر پھرنے والے بن جائیں گے۔ قرآن بس ہماری یادداشت میں نہیں، ہمارے دلوں میں آجائے گا۔ ہر انسان قرآن کو سمجھ سکے گا۔ کتنی خوبصورت بات ہوگی یہ۔

کل ان شاءاللہ ہم اگلی آیت شروع کریں گے۔ 


جاری ہے ۔۔۔۔ 

تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں