تب اور اب (قرنطینہ میں خیال آرائی)


تب اور اب
از سدرہ احمد


کورونا وائرس نے جہاں دنیا بھر کو معیشت اور صحت کے میدان میں متاثر کیا ہے وہیں دنیا کی بھاگ دوڑ سے ملنے والے فرصت کے وقفے میں ہم پر سوچ کے نئے در بھی وا کیے ہیں، ہم چیزوں کو ایک الگ اور مثبت زاویے سے بھی دیکھنے لگے ہیں۔

اسی طرح میری بہترین دوست سدرہ احمد جو کہ ایک نجی یونیورسٹی میں سماجی علوم کے استاد ہیں، انہوں نے قرنطینہ کے دوران اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح کیا ہے۔


ابھی کچھ روز پہلے تک
سمے کے رنگ بدلنے تک
بہ مثلِ رقص
بہ مثلِ جاں
زندگی یوں جوبن پہ تھی
رفاقت میں بھی ان بن تھی
بڑی بے کیف قربت تھی
عجب کچھ بھاگ دوڑ تھی
گھر کی دہلیز ساکن تھی
نہ تھا اک سانس لینے کو
میسر پل وہ فرصت کا
کچھ کہنے اور سننے کو
ہو جیسے بوجھ رفاقت کا
ملاقاتوں کی اپنوں سے
ہر اک چاہ پہ قدغن تھی

پھر ایسا موڑ اک آیا
جنوں ساکت جو کرپایا
نہ سوچا تھا کبھی دل میں
وہ وقت ایسا بے وقت آیا
سکوں سے گھر پہ رہنے کی
خوشی سے مل بیٹھنے کی
جو اک عرصے سے خواہش تھی
سبب اس کا یہ بن پایا
یہ وائرس تھا بڑا ظالم
مگر کچھ کام کرپایا
کہ کتنے وقت کے قیدی
وہ زنداں سے چھڑا لایا
سکوں کے پل میسر ہوئے
کہ جتنا دل کیا سوئے
کچھ ایسی اپنی راحت تھی
ٍکچھ اس طرح کی سلجھن تھی

مگرگھر پر رہے کتنا
 دل کو بہلائے بھلے کتنا
یہ اکیسویں صدی کا انساں ہے صاحب
اسے اوروں کی عادت تھی
بہت جلدی یہ گھبرایا
سکوں سے اپنے اکتایا
اسے مرغوب الجھن تھی
بہت مرغوب الجھن تھی
نہ کچھ اور جو سمجھ آیا
سنبھالا زباں کا تیر و بھالا
یوں نوکِ لفظ سے کرڈالیں
اپنی اقدار تہہ و بالا
بنا بیٹھا ہے اسکریں کے سامنے
سراپا مبلغ ومعلمِ اعلیٰ
سیاست ہو کہ حکمت ہو
ہر اک میداں فتح کرنا
وہ اک ماہر کہ جس کے پاس
ہر اک سلجھن کی الجھن تھی

میاں کچھ تو رحم کھاؤ
پریشانیوں کو نہ بڑھاؤ
کہ بن جائیں جو مرہم
وہ الفاظ بانٹو تم
یہی آقا (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنت تھی
یہی آقا (صلی اللہ علیہ وسلم)  کی سنت تھی
یہ زندگی مشکل سہی کتنی
اسے ہر طور ہے جینا
بھلا کیوں نہ جئیں ایسے
سراپا دعا و شفاء جیسے
تمہیں انساں بنایا ہے
کروتم شاد دل و نظر ایسے
یہی مالک کی نعمت تھی
یہی مولا کی حکمت تھی
یہی مولا کی حکمت تھی


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں